محمد علی :
وزیر دفاع خواجہ آصف کی قیادت میں پاکستان کے اعلیٰ ترین سیکیورٹی وفد نے اہم ایشوز پر بات چیت کیلیے کابل کا سرپرائز دورہ کیا ہے۔ اس بیٹھک میں سرحدی کشیدگی اور انسداد دہشت گردی اقدامات سمیت دو طرفہ تجارت، ڈالر کی اسمگلنگ اور افغان مریضوں کیلیے علاج کی سہولت جیسے معاملات پر تبادلہ خیال ہوا۔
ذرائع نے بتایا ہے کہ پاکستانی وفد کو طالبان قیادت کی جانب سے مثبت اشارے ملے ہیں اور یہ کہ افغان حکومت پاکستان میں ٹی ٹی پی کے حملوں کو رکوانے میں اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔
قطری جریدے ’’الجزیرہ‘‘ نے دفتر خارجہ کے ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان اعلیٰ سطح پر طے پایا ہے کہ اب کسی جانب سے بھی سرحدی گزرگاہیں بند نہیں کی جائیں گی۔ واضح رہے کہ طورخم بارڈر پر سرحدوں کے دونوں اطراف ٹرکوں کی طویل قطاریں لگی ہوئی ہیں۔
بدھ کو ہونے والی اہم بات چیت کے بعد امکان ہے کہ سرحد کو تجارت کیلئے جلد ہی کھول دیا جائے گا۔ خود افغان نائب صدر ملا عبدالغنی برادر نے اپنے ایک علیحدہ بیان میں کہا کہ سیاسی اور سیکورٹی مسائل سے کاروبار اور معاشی معاملات متاثر نہیں ہونے چاہئیں۔
اس حوالے سے دفتر خارجہ سے جاری پریس ریلیز میں کہا گیا کہ وزیر دفاع خواجہ آصف اور ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل ندیم انجم نے افغان نائب صدر ملا عبدالغنی برادر، وزیر دفاع مولوی محمد یعقوب مجاہد، وزیر داخلہ سراج الدین حقانی اور وزیر خارجہ امیر خان متقی سے ملاقات کی۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ خطے میں دہشت گردی خصوصاً ٹی ٹی پی اور داعش خراسان کے بڑھتے ہوئے خطرے سے متعلق معاملات پر بات چیت ہوئی۔
دونوں فریقوں نے مختلف تنظیموں کی طرف سے لاحق دہشت گردی کے خطرے سے مؤثر انداز میں نمٹنے کیلئے تعاون پر اتفاق کیا۔ بیان کے مطابق پاکستان اور افغانستان نے دونوں ممالک کے درمیان بردارانہ تعلقات کو مزید وسعت دینے کیلئے مختلف شعبوں میں تعاون کو مضبوط تر بنانے کے عزم کا اعادہ کیا۔
اجلاس کی افغان وزیر اعظم آفس سے جاری تصاویر میں دونوں ممالک کی قیادت کو ایک ساتھ بیٹھے دیکھا جا سکتا ہے۔ جس میں پاکستان کی طرف سے وزیر دفاع خواجہ آصف، آئی ایس آئی چیف لیفٹیننٹ جنرل ندیم انجم، سیکریٹری خارجہ اسد مجید خان، ناظم الامور عبیدالرحمان نظامانی اور افغانستان کے لیے پاکستان کی خصوصی نمائندے محمد صادق شامل ہیں۔ افغان کونسل آف منسٹرز (وزیر اعظم) کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ دورے کے دوران معاشی تعاون، علاقائی روابط، تجارت اور دو طرفہ تعلقات پر تبادلہ خیال کیا۔
بیان کے مطابق ملا عبدالغنی برادر نے وفد کو کہا کہ پاکستان اور افغانستان ہمسایہ ممالک ہیں اور ان کے درمیان خوشگوار تعلقات ہونے چاہئیں۔ امارت اسلامی افغانستان پاکستان کے ساتھ تجارتی و معاشی تعلقات میں وسعت چاہتا ہے۔ اس قسم کے تعلقات دونوں ممالک کے مفاد میں ہیں۔
انہوں نے پاکستانی وفد کی توجہ افغان مریضوں کی جانب بھی مبذول کرائی اور کہا کہ پاکستان طورخم اور چمن اسپن بولدک سرحدوں پر افغان مسافروں کے لیے سہولیات کو یقینی بنائے۔ جس میں ایمرجنسی مریضوں کا خصوصی خیال رکھا جائے۔ دوسری جانب امریکی نشریاتی ادارے سے گفتگو میں ماہرین نے اعلیٰ سطح کے پاک افغان مذاکرات پر ملے جلے رد عمل کا اظہار کیا ہے۔
ماہرین کے مطابق افغان حکام کے ساتھ ٹی ٹی پی سمیت دیگر سیکورٹی چیلنجز پر کافی عرصے سے بات چیت جاری ہے۔ اسلام آباد میں قائم انسٹی ٹیوٹ آف اسٹرٹیجک اسٹیڈیز کی ڈائریکٹر امینہ خان نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ طالبان قیادت کے لیے مشکل ہوگا کہ وہ ٹی ٹی پی پر زیادہ دباؤ ڈالیں۔ تاہم وہ انہیں کارروائیاں کم کرنے پر قائل کر سکتے ہیں۔
افغان امور کے ماہر سمیع یوسف زئی نے کہا کہ انہیں نہیں لگتا افغان طالبان کے ساتھ پاکستانی وفد کی بات چیت کے کوئی خاطر خواہ نتائج نکل سکیں گے۔ افغانستان کی پرواک نیوز ایجنسی کے سینئر ایڈیٹر سید مدثر شاہ کہتے ہیں کہ پاکستان اور افغانستان دونوں دہشت گردی کا شکار ہیں۔ لہٰذا دونوں کو مل کر دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑنا ہوگی۔