اقبال اعوان :
کراچی میں اندرونِ سندھ اور جنوبی پنجاب کے علاقوں سے گداگروں کی آمد کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے۔ جبکہ بڑھتی مہنگائی، خراب ترین معاشی حالات اور بے روزگاری کے باعث مقامی مانگنے والوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہو چکا ہے۔
شہر کے فلاحی ادارے چندے کی کمی کے باعث زیادہ امدادی کام نہیں کررہے ہیں۔ سندھ کے حکومتی ادارے تاحال گداگروں کے حوالے سے کوئی پالیسی نہیں بنا سکے ہیں۔ کراچی پولیس گداگر بستیوں میں رہنے والوں کا ڈیٹا مرتب نہیں کر سکی ہے۔ دوسرے شہروں سے آنے والے گداگروں میں جرائم پیشہ افراد بھی آتے ہیں اور رمضان کے دوران جرائم کی شرح 40 فیصد سے زائد بڑھ جاتی ہے۔
شہر میں پہلے ہی اسٹریٹ کرائمز بہت زیادہ ہیں جبکہ سیکورٹی خدشات بڑھ گئے ہیں۔ دوسرے صوبوں سے آنے والے گداگروں کی آڑ میں دہشت گرد بھی کراچی آسکتے ہیں۔ ذرائع کے بقول کراچی میں ایک لاکھ سے زائد مقامی گداگر موجود ہیں اور ڈھائی لاکھ گداگر ہر سال رمضان سے قبل دوسرے شہروں سے آتے ہیں۔
واضح رہے کہ سندھ حکومت کے ادارے ہر بار اعلان کرتے ہیں کہ کراچی میں موجود گداگروں کو اپیکس کمیٹی خطرہ قرار دے چکی ہے۔ کراچی آپریشن کے دوران بعض وفاقی تحقیقاتی اداروں نے رپورٹ بھیجی تھیں کہ کراچی کی کچی اور مضافاتی علاقوں کے علاوہ ساحلی آبادیوں میں قائم گداگروں کی آبادیوں میں رہنے والوں کا کوئی ریکارڈ مقامی پولیس کے پاس نہیں ہے اور ان میں اکثریت نے شناختی کارڈ نہیں بنوائے ہیں۔ جبکہ بڑی تعداد سندھ کے شہروں کے رہنے والے ہندو بھاگڑی کراچی میں جرائم میں ملوث بھی پائے گئے ہیں۔
کراچی آپریشن کے دوران کہا گیا کہ ان آبادیوں کے مکینوں کا ڈیٹا جمع کیا جائے گا۔ لیکن مقامی پولیس تو خود ان کی سرپرستی کرتی ہے کہ بھیک جمع کرنے والے اور منشیات فروشی کرنے والے، باقاعدہ بھتہ ادا کرتے ہیں اور پولیس کی اچھی خاصی آمدنی کا ذریعہ ہیں۔
گزشتہ سال جب شہری بڑی تعداد میں آنے والے گداگروں سے تنگ ہو کر سوشل میڈیا پر خبریں چلانے لگے، تو نمائشی آپریشن کر کے چند گداگروں کو پکڑ کر ایدھی فائونڈیشن کے حوالے کر دیا گیا اور رمضان کا مہینہ گزر گیا۔ اس بار صورت حال زیادہ خراب ہے کہ کراچی میں سیکیورٹی خدشات بہت زیادہ ہیں اور کراچی میں مقیم گداگروں کی تعداد بھی لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے کہ بے روزگاری بڑھنے، خراب معاشی حالات، مہنگائی کے باعث مانگنے والوں کی تعداد بڑھ گئی ہے۔
پبلک ٹرانسپورٹ، ایئرپورٹ کے اطراف، ریلوے اسٹیشن، تجارتی مراکز، بس اڈوں، سڑک کنارے، چوراہوں، گلی کوچوں میں گداگروں کی بڑی تعداد نظر آرہی ہے۔ ان میں مرد، عورتیں بھی شامل ہیں۔ سندھ اور جنوبی پنجاب سے آنے والے گداگروں کے ساتھ آنے والی عورتیں اور لڑکیاں شہر کا ماحول خراب کررہی ہیں۔ کالے برقعوں میں ملبوس عورتیں اور لڑکیاں بھیک کے علاوہ فحاشی کے حوالے سے بھی سرگرم ہوتی ہیں۔
کراچی پولیس گداگروں کی آبادیوں کے مکینوں کا ڈیٹا جمع ہیں کر سکی ہے اور نہ یہ اس بار گداگروں کے خلاف کوئی پلاننگ کی گئی ہے۔ شہر میں گداگروں کی دوسرے شہروں سے آمد کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے۔ ٹرینوں، بسوِں، گاڑیوں میں بڑی تعداد آرہی ہے۔ شعبان میں تجارتی مراکز میں رش بڑھ جاتا ہے۔ شعبان کے دوران سیوھن شریف اور ٹھٹھہ کے مختلف مزارات پر عرس شروع ہوتا ہے۔ اس طرح ہزاروں کی تعداد میں وہاں گداگر جاتے ہیں اور شعبان کے آخری ہفتے میں کراچی میں گداگروں کی لاکھوں کی تعداد ہو جاتی ہے۔
اس بار سندھ، بلوچستان اور جنوبی پنجاب کے شہروں سے سیلاب متاثرین بھی زیادہ آئیں گے کہ حکومتی سطح پر ان کے نام پر امداد لے کر ہڑپ کرنے پر ان کو دو وقت کی روٹی نہیں مل رہی ہے اور یہ زیادہ تعداد میں کراچی کا رخ کریں گے اور تعداد گزشتہ سال سے دگنی ہو گی۔ دوسری جانب کراچی میں فلاحی ادارے چندے کی کمی کے باعث کراچی کے اندر محدود وسائل پر کام کررہے ہیں۔ دستر خوان کی تعداد کم ہونے، راشن بانٹنے کا سلسلہ کم ہونے پر گداگروں کی بڑی تعداد آبادیوں اور تجارتی مراکز کا رخ کررہی ہے۔
رمضان میں مساجد، مدارس، امام بارگاہوں کے اطراف بڑی تعداد نظر آئے گی اس طرح اصل ضرورت مند متاثر ہوں گے۔ شہر میں آنے والے گداگروں نے سہراب گوٹھ سے ٹول پلازہ تک فٹ پاتھ، اطراف کی آبادیوں کے باہر ڈیرے ڈالنے شروع کر دیے ہیں۔ ملیر ندی میں قیوم آباد، کراسنگ، ابراہیم حیدری، لانڈھی، قائد آباد سے گھگر پھاٹک تک نیشنل ہائی وے کے اطراف، ماڑی پور روڈ پر مچھر کالونی سے گلبائی پھاٹک تک، شیرشاہ، بلدیہ، موچکو، منگھو پیر، ناردرن بائی پاس کے اطراف اور دیگر علاقوں میں بڑی تعداد نظر آرہی ہے۔