ایف آئی آر میں عمران خان- بشارت راجہ- علی نواز اعوان و دیگر رہنمائوں کو بھی نامزد کیا جائے گا-فائل فوٹو
 ایف آئی آر میں عمران خان- بشارت راجہ- علی نواز اعوان و دیگر رہنمائوں کو بھی نامزد کیا جائے گا-فائل فوٹو

جوڈیشل کمپلیکس پر حملہ کرنے والوں کے گرد گھیرا تنگ

امت رپورٹ :
اسلام آباد پولیس نے چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کی پیشی کے موقع پر جوڈیشل کمپلیکس میں توڑ پھوڑ کا مقدمہ درج کرکے ابتدائی طور پر پچیس افراد کو گرفتار کیا۔ ایف آئی آر میں دہشت گردی کی دفعہ شامل ہے۔

اگرچہ ترجمان اسلام آباد پولیس نے مقدمات میں نامزد افراد کے ناموں کو ظاہر نہیں کیا۔ تاہم وفاقی دارالحکومت میں موجود ذرائع نے بتایا کہ ایف آئی آر میں عمران خان، بشارت راجہ، علی نواز اعوان اور دیگر مرکزی قیادت سمیت تین درجن کے قریب مقامی عہدیداران کو بھی نامزد کیا جائے گا۔ ان میں پی ٹی آئی لاہوراوراسلام آباد یوتھ نگ کے عہدیداران شامل ہیں۔

رات گئے سی سی ٹی وی فوٹیج کی مدد سے جوڈیشل کمپلیکس میں سرکاری املاک کو نقصان پہنچانے والے کارکنان اور ان کو اکسانے والے پارٹی رہنمائوں اور مقامی عہدیداران کی شناخت کا عمل جاری تھا۔

ذرائع کے بقول اب تک سی سی ٹی وی فوٹیج میں جو چہرے شناخت کئے جاچکے ہیں۔ ان میں صدر انصاف یوتھ ونگ شمالی پنجاب ریجن موسیٰ حبیب راجہ، صدر انصاف یوتھ ونگ اسلام آباد ریجن مبشر عباسی اور مرکزی سیکریٹری انفارمیشن سیکریٹری، انصاف یوتھ ونگ انجینئر کاشف معراج بھی شامل ہیں۔ انہیں جوڈیشل کمپلیکس میں کارکنوں کو اکساتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔

ذرائع کا کہنا تھا کہ جوڈیشل کمپلیکس پر حملہ کرنے والے کارکنوں کے خلاف مقدمے میں دہشت گردی کی دفعہ وفاقی وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ کی ہدایت پر شامل کی گئی۔ اس رپورٹ کے فائل کئے جانے تک سی سی ٹی وی فوٹیج کی مدد سے حملہ آوروں کے چہروں کی شناخت کا عمل جاری تھا۔ جبکہ ملزمان کی گرفتاری کے لئے لاہور اور سرگودھا سمیت دیگر شہروں میں بھی اسلام آباد پولیس کی ٹیمیں روانہ کرنے کی تیاری کی جارہی تھی۔ لہٰذا یہ امکان ظاہر کیا جارہا تھا کہ جوڈیشل کمپلیکس میں توڑ پھوڑ کرنے والے کارکنوں کی گرفتاری کے لئے رات گئے یا آج بدھ کو بڑا کریک ڈائون ہوسکتا ہے۔ جبکہ بعض پارٹی رہنمائوں اور عہدیداران کی گرفتاریاں بھی خارج از امکان قرار نہیں دی جارہی تھیں۔

ذرائع نے بتایا کہ عمران خان نے لاہور سے جتھے کے ہمراہ بذریعہ موٹر وے اسلام آباد جانے کی حکمت عملی عدالتوں پر اثر انداز ہونے کے لئے اختیار کی تھی۔ قبل ازیں پروگرام تھا کہ وہ بذریعہ طیارہ لاہور سے اسلام آباد پہنچیں گے۔ جہاں جڑواں شہروں اسلام آباد اور راولپنڈی کے کارکنان ان کے استقبال کے لئے موجود ہوں گے اور پھر وہ عدالتوں میں چیئرمین کے ساتھ جائیں گے۔ تاہم بعد میں پروگرام تبدیل کرکے بذریعہ موٹر وے اسلام آباد جانے کا پروگرام اس لیے ترتیب دیا گیا کہ راستے سے بھی لوگوں کو قافلے میں شامل کیا جاتا رہے۔ تاکہ زیادہ سے زیادہ ہجوم اکٹھا کیا جا سکے۔

اس سلسلے میں پارٹی قیادت نے لاہور سے کارکنوں کو جمع کرنے کی ذمہ داری پی ٹی آئی لاہور کے صدر شیخ امتیاز محمود، جبکہ اسلام آباد میں یہ ٹاسک علی نواز اعوان کو دیا گیا تھا۔ ان دونوں نے اس پلان پر عمل کرنے کے لئے پی ٹی آئی یوتھ ونگ اور مقامی عہدیداروں کو ذمہ داریاں سونپیں۔ پارٹی کی مرکزی قیادت کا خیال تھا کہ کم از کم پندرہ سے بیس ہزار کارکنان جمع کرلیے جائیں گے۔

اس کے لیے رات بھر پارٹی کی سوشل میڈیا ٹیم بھی متحرک رہی۔ لیکن تمام تر کوششوں کے باوجود مطلوبہ تعداد سے کہیں کم کارکنان جمع کئے جاسکے۔ تاہم سینکڑوں کارکنوں پر مشتمل اس جتھے کی بدولت بظاہر مرکزی قیادت اپنا مقصد حاصل کرنے میں کامیاب رہی۔ جو عدالتوں پر دبائو ڈالنا تھا۔ چاروں مقدمات میں عمران خان کی ضمانتیں منظور ہونے کے عمل کو بعض مبصرین کی جانب سے اسی تناظر میں دیکھا جارہا ہے۔

منگل کے روز چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کی عدالت میں پیشی کے موقع پر ان کے ساتھ آنے والے ہجوم نے پہلے جوڈیشل کمپلیکس کا دروازہ توڑا۔ پھر کئی سی سی ٹی وی کیمروں کو نقصان پہنچانے کے ساتھ احاطے کے اندر بھی توڑ پھوڑ کی۔

اس موقع پر وردی میں ملبوس پولیس اہلکاروں سے بدسلوکی کی گئی اور انہیں دھکے دے کر پیچھے دھکیلا گیا۔ اسلام آباد ہائی کورٹ میں پیشی کے موقع پر بھی کارکنوں کا بڑا ہجوم عمران خان کے ساتھ تھا۔ ان کارکنوں نے عدالت عالیہ کی عمارت کو چاروں طرف سے گھیر رکھا تھا۔

بعد ازاں ترجمان اسلام آباد پولیس نے اپنے ایک بیان میں بتایا کہ جوڈیشل کمپلیکس اسلام آباد میں توڑ پھوڑ کا مقدمہ درج کرلیا گیا ہے۔ ایف آئی آر میں دہشت گردی کی دفعہ سیون اے ٹی اے شامل ہے۔ پولیس کے بقول ہجوم میں سے کلاشنکوف اور دیگر اسلحے سمیت کئی افراد کو حراست میں لیا گیا۔

ابتدائی طور پر پچیس لوگوں کی گرفتاری عمل میں آئی۔ جبکہ دیگر افراد کی گرفتاری کے لئے چھاپے مارے جارہے تھے۔ پولیس کے مطابق ایک منصوبے کے تحت جوڈیشل کمپلیکس اور ہائی کورٹ پر حملے کی کوشش کی گئی۔ سیاسی جماعت کے رہنما ہجوم کی قیادت کر رہے تھے۔ جنہوں نے عوام کو نقصان کے لئے اکسایا۔ جس پر جوڈیشل کمپلیکس میں سرکاری املاک کو نقصان پہنچایا گیا۔

وفاقی وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ نے بھی ایک پریس کانفرنس کے دوران جوڈیشل کمپلیکس میں ہنگامے پر ایکشن کا اعلان کیا۔ وزیر داخلہ کے بقول عمران خان کے ہمراہ جوڈیشل کمیشن میں آکر ہنگامہ آرائی کرنے والوں کے خلاف دہشت گردی کا مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ عمران خان کے ساتھ آئے تین سو سے چار سو کارکن نما غنڈوں نے توڑ پھوڑ کی اور پولیس اہلکاروں پر تشدد کیا۔