سید علی حسن :
وفاقی تحقیقاتی ادارہ ایف آئی اے سوشل میڈیا پر مقدس ہستیوں کی توہین اور گستاخانہ مواد کی تشہیر کرنے والے گروہ کو پکڑنے میں ناکام ہے۔ جبکہ قرآن پاک کی توہین کرنے والے ملزم کی گرفتاری اور نشاندہی کے باوجود قانونی تقاضے پورے کرنے میں بھی سستی کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے۔
تحریک تحفظ ناموس رسالت پاکستان نے غفلت و لاپرواہی برتنے والے ایف آئی اے افسران کے خلاف کارروائی کیلیے عدالت سے رجوع کرلیا۔ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ ملیر نے درخواست پر ڈائریکٹر ایف آئی اے سائبرکرائم ونگ، ڈپٹی ڈائریکٹر اور سب انسپکٹر کو طلب کرلیا ہے۔ غفلت و لاپرواہی کا مرتکب ہونے پر متعلقہ افسران کیخلاف کارروائی عمل میں لائے جانے کا امکان ہے۔
دستاویزات کے مطابق ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ کراچی میں احتشام احمد کی مدعیت میں توہین مذہب، توہین قرآن، توہین شان رسالت، توہین شان صحابہ اور الیکٹرانک کرائم ایکٹ کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا۔ شکایت کنندہ نے اپنی درخواست میں بتایا کہ سوشل میڈیا واٹس ایپ پر نامعلوم ملزمان گروپ بناکر توہین مذہب و رسالت کر رہے ہیں۔ جو قوانین کی خلاف ورزی ہے اور اس سے مسلمانوں کے جذبات مجروح کیے جارہے ہیں۔ لہذا کارروائی کی جائے۔
شکایت کی تصدیق کے بعد انکوائری افسر کی جانب سے متعلقہ حکام کی اجازت سے 13 فروری 2023ء کو انکوائری نمبر 107/2023 رجسٹرڈ کی گئی۔ انکوائری کے دوران سامنے آیا کہ اعظم ٹاؤن کراچی کا رہائشی ملزم مجرمانہ ارادے سے اپنے واٹس ایپ نمبر کے ذریعے توہین و تضحیکی مواد، تصاویریں اور ویڈیوز شیئر کر رہا ہے۔ جس پر ملزم کو گرفتار کرکے اس کے قبضے سے توہین پر مبنی مواد، تشہیر میں استعمال ہونے والے موبائل فون اور سم برآمد کی گئی۔
ملزم کے موبائل فون اور سم کا تکنیکی اینالائسس کرایا گیا تو سامنے آیا کہ ملزم اس جرم میں ملوث ہے۔ اکٹھے کیے گئے شواہد کی روشنی میں ملزم توہین مذہب، توہین قرآن، توہین رسالت، توہین صحابہ اور الیکٹرانک کرائم ایکٹ کا مرتکب پایا گیا۔ مقدمہ درج ہونے کے بعد ایف آئی اے کی جانب سے ملزم کو متعلقہ عدالت میں پیش کیا گیا اور مزید تفتیش کیلئے ریمانڈ حاصل کیا گیا۔
ایف آئی اے نے ملزم سے تفتیش کی تو ملزم نے کیس کے اہم شواہد قرآن مجید کے نسخے اور جائے نماز اپنے گھر اور دفتر میں ہونے کی نشاندہی کی۔ تاہم ملزم کی نشاندہی کے باوجود ایف آئی اے شواہد برآمد کرنے میں ناکام رہی۔ ملزم کو جسمانی ریمانڈ مکمل ہونے پر اسے دوبارہ متعلقہ عدالت میں پیش کیا گیا تو عدالت نے ملزم کو عدالتی تحویل میں جیل بھیج دیا۔ جبکہ تفتیشی افسر سے 14 روز میں مقدمہ کا چالان طلب کیا گیا۔
ایف آئی اے کی جانب سے بروقت کارروائی نہ کرتے ہوئے شواہد برآمد نہ کرنے پر مدعی مقدمہ نے ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج ملیر کی عدالت میں ایف آئی اے افسران کے خلاف کارروائی کی درخواست جمع کرادی۔ درخواست میں ڈائریکٹر ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ کراچی، ڈپٹی ڈائریکٹر اور سب انسپکٹر کو فریق بنایا گیا ہے۔ اس درخواست پر عدالت نے آئندہ سماعت پر ایف آئی اے کے افسران کو طلب کرلیا ہے۔
مدعی مقدمہ احتشام احمد کی جانب سے ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج ملیر کی عدالت میں جمع کرائی گئی درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ تحریک تحفظ ناموس رسالت پاکستان سوشل میڈیا پر مقدس ہستیوں کی توہین پر مبنی بدترین گستاخانہ مواد کی تشہیری مہم کے خلاف آئینی و قانونی جدو جہد کر رہی ہے۔ سوشل میڈیا پر گستاخانہ مواد کی تشہیر اور مقدس ہستیوں کی توہین کا سلسلہ 2016ء سے جاری ہے۔
تحریک تحفظ ناموس رسالت کی جدوجہد کے نتیجے میں 2017ء سے جون 2021ء تک ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ ملک بھر سے سوشل میڈیا پر مقدس ہستیوں کی توہین پر مبنی گستاخانہ مواد کی تشہیری مہم میں ملوث ڈیڑھ سو سے زائد ملزمان کو گرفتار کر چکی ہے۔ جبکہ اس جرم میں ملوث 8 ملزمان کو جرم ثابت ہونے پر متعلقہ عدالتیں سزائے موت بھی سنا چکی ہیں۔
اس کے علاوہ ایک ملزم کو متعلقہ عدالت جرم ثابت ہونے پر عمر قید اور ایک ملزم کو دس سال قید کی سزا بھی سنا چکی۔ 3 فروری 2023ء کو درخواست گزار نے ایف آئی اے کو تحریری درخواست دی۔ جس میں واٹس ایپ گروپس میں واٹس ایپ کے ذریعے توہین ذات باری تعالی، توہین شان رسالت، توہین صحابہ، توہین اہل بیت، توہین قرآن و توہین شعائر اسلام پر مبنی بدترین گستاخانہ مواد کی تشہیری مہم میں ملوث ملزم کے خلاف قانون کے مطابق سخت ترین کارروائی کرنے کی استدعا کی گئی تھی۔
درخواست پر کارروائی کرتے ہوئے ایف آئی اے نے اعظم ٹاؤن کے رہائشی ملزم کو گرفتار کرکے مقدمہ درج کیا۔ مقدمہ کے اندراج کے بعد ایف آئی اے کی ذمہ داری تھی کہ وہ ملزم کے سنگین ترین جرائم میں ملوث ہونے کے متعلق تمام شواہد کی برآمدگی کو یقینی بناتی۔ تاہم ایف آئی اے نے غفلت ولا پرواہی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی آئینی و قانونی ذمہ داری کو ادا کرنے سے گریز کیا۔
ایف آئی اے نے شواہد برآمد کرنے کے بجائے ملزم کی والدہ کو طلب کیا اور انہیں ملزم کی ویڈیو دکھا کر ان سے شواہد جس میں قرآن مجید کا نسخہ اور جائے نماز شامل تھی، لانے کو کہا۔ جو شواہد ضائع کرنے کے مترادف ہے۔ ایف آئی اے نے ملزم کو 6 دن تک ریمانڈ پر ہونے اور ملزم کی نشاندہی پر قرآن کریم کے نسخے اور جائے نماز کی برآمدگی کیلئے کوئی کارروائی نہیں کی۔ جبکہ ملزم کے زیر استعمال ایک آئی فون موبائل سیٹ بھی تھا۔ جس میں ملزم کے خلاف جرائم میں ملوث ہونے کے متعلق شواہد حاصل ہو سکتے ہیں۔ لیکن مذکورہ آئی فون موبائل سیٹ کو بھی تا حال بر آمد نہیں کیا گیا۔
اس کے علاوہ ملزم کے موبائل نمبر کا سی ڈی آر بھی حاصل نہیں کیا گیا۔ جب تک ملزم کے زیر استعمال رہنے والے موبائل فون نمبر کی سی ڈی آر حاصل نہ کی جائے۔ اس وقت تک یہ معلوم نہیں ہوسکتا کہ ملزم کے زیر استعمال کتنے موبائل فون سیٹ تھے۔ ایف آئی اے کی جانب سے مقدمے کی تفتیش کے لئے تمام قانونی تقاضے پورے نہ کرنا قانون کی سنگین خلاف ورزی ہے۔
ایف آئی اے کی نااہلی، غفلت اور لا پرواہی کی وجہ سے مذکورہ مقدمے کے متعلق اگر کوئی شواہد ضائع ہوئے تو یہ تعزیرات پاکستان کی دفعہ 201 کے تحت سنگین جرم ہے۔ لہذا استدعا ہے کہ ایف آئی اے کو قانونی تقاضے پورے کرنے کا حکم دیا جائے۔ جبکہ مقدمے سے متعلق کوئی شواہد ضائع ہوئے تو اس صورت میں ڈائریکٹر ایف آئی اے کو ذمہ داروں کا تعین کر کے ان کے خلاف تعزیرات پاکستان کی دفعہ 201 کے تحت کاروائی کا حکم بھی دیا جائے۔
مدعی مقدمہ تحریک تحفظ ناموس رسالت پاکستان کے جنرل سیکریٹری حافظ احتشام احمد نے رابطہ کرنے پر ’’امت‘‘ کو بتایا کہ ’’ابتدا میں ہمیں ایک واٹس گروپ کا معلوم ہوا۔ جس میں توہین رسالت، توہین مذہب، توہین صحابہ اور توہین قرآن پر مبنی مواد کی تشہیر کی جارہی تھی۔ اور جس موبائل نمبر سے یہ تشہیر کی جارہی تھی۔ ہم نے اس کی تفصیلات حاصل کیں۔
اس کے بعد ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ کراچی میں مقدمہ اندراج اور کارروائی کی درخواست دی۔ جس پر ایف آئی اے نے 13 فروری کو مقدمہ درج کیا اور ملزم کو گرفتار کیا گیا۔ ملزم سے موبائل فون اور سم برآمد کی گئی۔ جس سے واٹس ایب گروپ بنایا گیا اور مواد کی تشہیر کی گئی تھی۔ پھر ملزم کو 14 فروری کو متعلقہ عدالت میں پیش کرکے ریمانڈ حاصل کیا گیا۔
ملزم 9 دن تک ایف آئی اے کے پاس ریمانڈ پر تھا۔ اس دوران ایف آئی اے نے ملزم سے تفتیش کی۔ جس نے قرآن کریم کے نسخے اور جائے نماز کی اپنے گھر میں موجودگی کی نشاندہی کی۔ اب معاملہ تفتیش کا تھا۔ کیونکہ اس طرح کے مقدمات کی تفتیش ایس پی رینک اور 18 گریڈ کا افسر کرسکتا ہے۔ ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ کراچی میں 18 گریڈ کے دو افسران جو ڈپٹی ڈائریکٹر کے عہدے پر تعینات ہیں۔ ان میں سے ایک کو تحقیقات کرنی تھی۔
اس سلسلے میں ڈائریکٹر ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ کراچی شہزاد حیدر نے معاملے کی تفتیش ڈپٹی ڈائریکٹر سائبر کرائم ونگ کراچی شہباز خان کے سپرد کی۔ جنہوں نے سب انسپکٹر کومل انور شاہ اور 2 اہلکاروں پر مشتمل ٹیم بنائی۔ پھر ڈپٹی ڈائریکٹر نے کومل انور شاہ و دیگر کو ہدایت دی کہ وہ ملزم کے گھر اور دفتر میں ریڈ کرکے قرآن کریم کا نسخہ اور جائے نماز برآمد کریں۔ مگر کومل شاہ اور ٹیم نے ملزم کے گھر اور دفتر میں ریڈ کرنے کے بجائے ملزم کی والدہ کو بلایا اور انہیں ملزم کی ویڈیوز و دیگر تفصیلات بتائیں اور ان سے قرآن کریم اور جائے نماز کے نسخے سے متعلق پوچھا تو ملزم کی والدہ نے گھر میں موجود ہونے کی تصدیق کی۔ لیکن ایف آئی اے کی ٹیم نے خود شواہد برآمد کرنے کے بجائے والدہ کو تمام چیزیں لاے کا کہہ دیا۔
ملزم کے والد سابقہ پولیس افسر تھے اور وہ انتقال کرچکے ہیں۔ پولیس افسر کی اہلیہ ہونے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے والدہ نے قرآن کریم کا نسخہ اور جائے نماز نہیں دیا۔ اس کے بعد ہمارے کہنے پر ایف آئی اے نے ملزم کے گھر میں چھاپہ مارا۔ مگر قرآن کریم کا نسخہ اور جائے نماز برآمد نہیں ہوئی۔ یہ دونوں چیزیں کیس کے اہم شواہد ہیں۔ جس سے ملزم کا جرم بخوبی ثابت ہوجائے گا۔ مگر تاخیری حربوں کی وجہ سے وہ برآمد نہیں کیا جاسکا۔ ہم نے اب ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج ملیر کی عدالت میں ایف آئی اے افسران کے خلاف کارروائی کیلئے درخواست جمع کرائی ہے۔ جس پر عدالت نے ایف آئی اے افسران کو آئندہ سماعت پر طلب کرلیا ہے۔