امت مسلمہ کے ارباب اختیار کو جھنجھوڑنے کیلیے ڈاکٹر عافیہ نے قرآنی آیت پڑھی، فائل فوٹو
 امت مسلمہ کے ارباب اختیار کو جھنجھوڑنے کیلیے ڈاکٹر عافیہ نے قرآنی آیت پڑھی، فائل فوٹو

امریکا میں پابند سلاسل ڈاکرعافیہ کی سالگرہ خاموشی سے گزر گئی

امت رپورٹ:

  • گھر والوں سے آکری رابطہ سات برس پہلے ہوا تھا۔ وزارت خارجہ کی عدم دلچسپی کے سبب ہائیکورٹ میں جاری کیس سست روی کا شکار۔ اگلی پیشی سترہ مارچ کو ہے

  • عافیہ صدیقی کے سامنے کے تمام دانت توڑے جاچکے۔ روزانہ بد سلوکی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ امریکی جیل میں ملاقات کرنے والے کلائیوسمتھ کے ہولناک انکشافات۔  

امریکی جیل میں قید ڈاکٹر عافیہ کی سالگرہ خاموشی سے گزر گئی۔ البتہ ان کے یوم پیدائش کے موقع پر گلشن اقبال کراچی میں واقع ان کی رہائش گاہ پر علامتی جیل کی سلاخوں کے پیچھے سالگرہ کی تقریب ہوئی۔ جس میں ڈاکٹر فوزیہ صدیقی اور یو کے ہیومن رائٹس این جی او کے ڈائریکٹر کلائیو اسٹافورتھ اسمتھ سمیت دیگر اہل خانہ اور عافیہ موومنٹ کے سپورٹرز نے شرکت کی۔
ڈاکٹر عافیہ صدیقی دو مارچ انیس سو بہتّر کو کراچی میں پیدا ہوئی تھیں۔ یوں اب اکیاون برس کی ہو چکی ہیں۔ بدقسمتی سے زندگی کی محض تیس بہاریں وہ آزادی میں گزار سکیں۔ اکیس برس سے مسلسل قید و بند کی صعوبتیں اٹھا رہی ہیں۔ اگر رہائی نہیں ملتی تو امریکی عدالت کی ظالمانہ سزا کے تحت انہیں اپنی موت تک اسیری کاٹنا ہوگی۔

ناکافی شواہد کے باوجود انہیں چھیاسی برس قید کی سزا سنائی گئی تھی۔ جو دو ہزار چورانوے کو پوری ہوگی۔ تب ڈاکٹر عافیہ کی عمر ایک سو برس سے زائد ہوگی۔ انسانی حقوق کے رہنما کلائیو اسمتھ کے بقول امریکی جیلوں میں قیدیوں کی متوقع عمر حیات ساٹھ برس کے لگ بھگ ہے۔

مشرف دور کے بعد آصف زرداری اور عمران خان سے لے کر موجودہ وزیراعظم شہباز شریف تک، تمام حکمرانوں نے عملی طور پر ڈاکٹر عافیہ کو واپس لانے کے لئے کوئی عملی قدم نہیں اٹھایا۔ محض وعدوں اور بیانات کی حد تک معاملے کو ٹالا جاتا رہا ہے۔ یہ سلسلہ بدستور جاری ہے۔ ڈاکٹر عافیہ کی رہائی سے متعلق عدالتوں سے بھی رجوع کیا گیا۔

اگرچہ امریکی نظام، پاکستانی عدالتوں کے دائرہ اختیار میں نہیں آتا۔ تاہم ان پٹیشنز کا مقصد قوم کی بیٹی کی رہائی کے لئے حکومت کو موثر سفارتی کوششوں پر مجبور کرنا تھا۔ فی الحال اب تک اس سلسلے میں بھی کوئی ٹھوس پیش رفت نہیں ہوسکی ہے۔ پہلے سندھ ہائیکورٹ سے رجوع کیا گیا تھا۔ جبکہ اسلام آباد ہائیکورٹ میں اس وقت بھی یہ معاملہ زیر سماعت ہے۔ جس کی اگلی پیشی سترہ مارچ کو ہے۔

المیہ یہ ہے کہ وزارت خارجہ کی عدم دلچسپی اور تاخیری حربوں کے سبب یہ کیس تقریباً اسی مقام پر کھڑا ہے۔ جہاں سے برسوں پہلے شروع ہوا تھا۔ اب تک اس کیس کی آٹھ سماعتیں ہوچکی ہیں۔ ہر سماعت پر وزارت خارجہ کا نمائندہ چند نامکمل دستاویزات عدالت میں جمع کرادیتا ہے، اور ایک ڈیڑھ ماہ بعد کی تاریخ دے دی جاتی ہے۔

قریباً ڈیڑھ ماہ قبل بیس جنوری کو ہونے والی آخری سماعت کے موقع پر اسلام آباد ہائیکورٹ کے معزز جج جسٹس سردار اعجاز اسحاق نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے کیس کی پیش رفت کے بارے میں استفسار کیا تو انہوں نے بتایا کہ عافیہ صدیقی کی رہائی کا معاملہ سفارتی سطح پر اٹھایا گیا ہے۔ حکام نے قائم مقام امریکی سفیر سے ملاقات کی تھی۔ جس پر جسٹس سردار اعجاز اسحاق نے سرزنش کرتے ہوئے کہا ’’لگتا ہے یہ صرف کافی اور کیک کی ملاقات تھی۔ پتہ نہیں اس ملاقات میں کیا ہوا۔ حکومت اس سلسلے میں کچھ نہیں کرنا چاہتی‘‘۔

’’امت‘‘ کو دستیاب بیس جنوری کو ہونے والی سماعت کی آرڈر شیٹ سے بھی تصدیق ہوتی ہے کہ وزارت خارجہ اس کیس میں دلچسپی نہیں دکھا رہی۔ آرڈر شیٹ میں لکھا ہے کہ ’’آخری حکم کے مطابق وزارت خارجہ نے ایک مختصر رپورٹ ریکارڈ پر رکھ دی ہے۔ جس کا عنوان اسی پرانی صورتحال سے زیادہ نہیں، جو حکومت نے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی واپسی سے متعلق سفارتی راستوں کے حوالے سے اپنا رکھی ہے۔ نہ تو وزیر خارجہ اور نہ ہی سیکریٹری خارجہ نے اس پر دستخط کئے‘‘۔ عدالت نے کہا، کورٹ میں وزارت خارجہ کے نمائندوں کی مفلوج زدہ حالت ساری کہانی بیان کر رہی ہے۔ ان سے دوبارہ سفارتی کوششوں کو تیز کرنے کا کہنا، مردہ گھوڑے کو پیٹنے کے مترادف ہے۔

دو ہزار سولہ تک اہل خانہ سے کبھی کبھار ڈاکٹر عافیہ کی بذریعہ ٹیلی فون مختصر گفتگو ہو جایا کرتی تھی۔ پچھلے قریباً سات برس سے نصف ملاقات کا یہ سلسلہ بھی منقطع ہے۔ حالانکہ بین الاقوامی قوانین کے مطابق دنیا کی کسی بھی جیل میں قید فرد کو ایک مقررہ دن اپنے اہل خانہ کو کال کرنے کا حق حاصل ہے۔

سات برس سے اہل خانہ کا تو ڈاکٹر عافیہ سے ٹیلی فونک رابطہ نہیں ہو پایا ہے۔ تاہم انسانی حقوق کے علمبردار اور یوکے ہیومن رائٹس این جی او تھری ڈی سی کے ڈائریکٹر کلائیو اسٹافورڈ اسمتھ نے تقریباً سوا ماہ قبل انیس جنوری کو امریکی جیل ایف ایم سی کارسویل فورٹ ورتھ ٹیکساس میں ڈاکٹر عافیہ صدیقی سے ملاقات کی۔ تقریباً ڈیڑھ گھنٹے پر محیط اس ملاقات کا احوال کلائیو اسمتھ کے ایک آرٹیکل کی صورت میں شائع ہوا ہے، جو انتہائی درد ناک ہے۔

اس کی تفصیل میں جانے سے پہلے یہ بتاتے چلیں کہ حال ہی میں گوانتناموبے کے امریکی عقوبت خانے سے دو پاکستانی ربانی برادرز کو رہائی دلانے والے کلائیو اسمتھ نے اب ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کا بیڑہ اٹھالیا ہے۔ کلائیو اسمتھ اس سے قبل گوانتناموبے سے ہی ایک اور پاکستانی سیف اللہ پراچہ کو رہا کرانے میں بھی اپنا رول ادا کر چکے ہیں۔ اس ٹریک ریکارڈ کو دیکھتے ہوئے اہل خانہ کو خاصی امید ہے کہ کلائیواسمتھ، ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی اور وطن واپسی ممکن بناسکیں گے۔

خود کلائیو اسمتھ کا کہنا ہے کہ ربانی برادرز کی رہائی کے بعد اب عافیہ صدیقی کی رہائی کی باری ہے۔ پاکستان میں اپنے تین چار روزہ قیام کے بعد کلائیو اسمتھ واپس روانہ ہوچکے ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ ماہ رمضان کے بعد وہ بھرپور طریقے سے ڈاکٹر عافیہ کی رہائی سے متعلق کوششوں کا آغاز کریں گے۔ کلائیو اسمتھ کے بقول بہت سے طریقے ہیں، جن کے ذریعے عافیہ صدیقی کو وطن واپس لایا جاسکتا ہے۔ اور یہ کہ امریکہ میں عافیہ کی رہائی کے معاملے میں کوئی رکاوٹ نہیں۔ اصل مسئلہ پاکستان میں ہے۔

کلائیو اسمتھ نے ڈاکٹر عافیہ صدیقی سے ملاقات کے بعد جو مضمون لکھا، اس میں بتایا ہے کہ ’’میں پچھلے چالیس برسوں میں بہت سی امریکی جیلوں میں گیا ۔ وہ سب خوفناک ہیں۔ یہاں تک کہ خواتین کی جیلیں بھی مختلف گینگز کے زیر تسلط ہیں، جہاں جنسی تشدد معمول ہے۔ عافیہ صدیقی سے ملاقات کے لیے جیل کے اندر جانے میں مجھے تقریباً تین گھنٹے لگے۔

بعد ازاں میں ان سے ملاقات کرنے میں کامیاب ہوگیا۔ یہ میٹنگ اسّی منٹ پر محیط تھی۔ ڈاکٹر عافیہ پر ہونے والے تشدد کے بارے میں کوئی شک نہیں ہے۔ خود امریکہ نے اعتراف کیا تھا کہ عافیہ کو اس وقت گولی مارکر زخمی کیا گیا جب وہ حراست میں تھیں۔ انہیں بار بار مارا پیٹا گیا۔ اس طرح کے ایک واقعہ میں جب ان کے چہرے پر لات ماری گئی تو وہ اپنے سامنے کے تمام دانت کھو بیٹھیں۔

ایسا لگتا ہے کہ وہ بدنام زمانہ سی آئی اے رینڈیشن ٹو ٹارچر پروگرام سے گزرنے والی واحد خاتون قیدی ہیں۔ بعد ازاں انہیں افغانستان کی بگرام جیل سے امریکہ بھیج دیا گیا۔ اور چھیاسی سال قید کی سزا سنائی گئی۔ ڈاکٹر عافیہ کو امریکی خفیہ جیل کے نظام میں روزانہ بدسلوکی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ وہ امریکی جیل میں مکمل طور پر ایک بے اختیار عورت ہیں، جنہیں واش روم میں بھی بلا اجازت جانے کی اجازت نہیں‘‘۔

کلائیو اسمتھ مزید لکھتے ہیں ’’وقتاً فوقتاً یہ افواہیں آتی رہتی ہیں کہ ڈاکٹر عافیہ کا انتقال ہوگیا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ امریکہ اور پاکستان دونوں میں بہت سے لوگ ایسے ہیں جو چاہتے ہیں کہ یہ سچ ہو جائے۔ حالانکہ تمام تر تشدد کے باوجود میں اعتماد کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ جسمانی طور پر ڈاکٹر عافیہ کے جلد طبعی موت سے دو چار ہونے کے امکانات نہیں۔ تاہم نفسیاتی طور پر وہ اچھی حالت میں نہیں۔ ان کے ساتھ ہونے والی بدسلوکی بالخصوص روح کو زخمی کرنے کے لئے کی جارہی ہے۔ یہ میرے ملک پر ایک داغ ہے کہ ہم نے جنسی زیادتی، مار پیٹ، نیند کی کمی اور دیگر اذیتوں کا بطور تشدد استعمال کیا‘‘۔