احمد خلیل جازم :
راولپنڈی میں خواجہ سرا کے ڈیڑھ برس تک امام مسجد بنے رہنے کے انکشاف نے دینی و عوامی حلقوں میں ہلچل مچا دی ہے۔ اس ضمن میں جمعہ کے روز راولپنڈی کے علاقہ تھانہ روات میں ایک شخص راجہ محمد شفیق نے تھانے میں درخواست دائر کی تھی کہ، محمد خان نیازی نامی شخص جو ہمارے علاقے کا امام مسجد تھا، اب خواجہ سرا بن کے بھیک مانگ رہا ہے۔ اس شخص نے علاقے بھر میں نہ صرف پنج گانہ نمازوں کی امامت کی، بلکہ کئی لوگوں کے نکاح اور جنازے بھی پڑھائے۔ جس کی وجہ سے علاقے بھر کے لوگوں کے جذبات مجروح ہوئے اور یہ شخص دھوکہ دہی کا مرتکب ہوا۔ لہٰذا اس کے خلاف مقدمہ درج کرکے قانون کے مطابق کارروائی کی جائے۔
اس کیس کے حوالے سے مدعی راجہ محمد شفیق نے ’’امت‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’’ہم نے دو تاریخ کی شام محمد خان نیازی کو پولیس کے حوالے کیا ہے۔ کیوں کہ یہ شخص ڈیڑھ برس ہمارے علاقہ ڈھکی کلاں روات میں جامعہ مسجد ابوبکر صدیق میں خطیب اور امام مسجد رہا ہے۔ سترہ ہزار روپے اس کی تنخواہ تھی۔ کھانا، رہائش اور یوٹیلٹی بلز وغیرہ بھی اہل علاقہ دیتے تھے۔ یہ بہت شاندار مقرر تھا۔
حافظ قرآن اور مفتی بھی کہلاتا تھا۔ اس کے ساتھ اس کی بیوی بھی تھی لیکن اولاد نہ تھی۔ اس کی بیوی کچھ عرصہ قبل اسے چھوڑ کر میکے چلی گئی تھی۔ ہم بھی اسے منانے گئے تو اس نے کہا کہ محمد خان نیازی نامرد ہے، یوں اس نے عدالت کے توسط طلاق حاصل کی۔ ہم اس کی بیوی کے الزامات سے مطمئن نہیں تھے۔ کیونکہ بظاہرمحمد خان بہت شریف النفس انسان تھا۔ شادی اس نے ڈسٹرک پنڈی سے کی تھی۔ یہ میانوالی ، تھانہ ہرنولی کے علاقہ کا رہائشی ہے۔ بہرحال رواں برس جنوری کے آخری دنوں میں اس نے اہل علاقہ سے کہا کہ وہ باہر جانا چاہتا ہے، لہٰذا اسے رخصت دی جائے۔ چنانچہ ہم نے اسے رخصت دے دی۔
دو ماہ بعد اسے ہمارے علاقہ سے پندرہ کلومیٹر دور ایک جاننے والے شخص نے اسے خواجہ سرا کے روپ میں دیکھا، لیکن کسی نے اس کی بات پر اعتبار نہ کیا۔ بعد میں ڈھکی کلاں سے تین میل دور ایک علاقہ میں اسے ہمارے علاقے کے تین لڑکوں نے پکڑ لیا اور ڈھکی کلاں لے آئے۔ اس کا منہ دھلوایا گیا، کیوں کہ اس نے داڑھی وغیرہ صاف کررکھی تھی۔ لیکن نین نقش ملنے کے باوجود وہ مان رہا تھا، نہ ہمارا دل مطمئن تھا۔
چنانچہ میں نے جب امام مسجد کے نمبر پر فون کیا جو میرے پاس موجود تھا، تو فون اس کے پاس بجنے لگا۔ اسے برآمد کر لیا گیا اور پھر ہم اسے مزید تفتیش کے لیے تھانے لے آئے۔ ظاہر ہے اہل علاقہ کے جذبات مجروح ہوچکے تھے۔ انہوں نے ڈیڑھ برس اس کے پیچھے نمازیں ادا کی تھیں۔ اس نے نکاح اور جنازے پڑھائے تھے۔ اہل علاقہ مذہبی جذبات سے مغلوب تھے۔ تھانے والے شاید اسے لے دے کر چھوڑ دیتے، لیکن ایک صحافی وہاں پہنچ گیا اور اس نے یہ واقعہ بمعہ تصاویر سوشل میڈیا پر اپلوڈ کر دیا۔ یوں پولیس کو اس کے خلاف مجبوراً کارروائی کرنی پڑی۔اب یہ پولیس کے پاس ریمانڈ پر ہے۔‘‘
’’امت‘‘ نے اس کیس کے تفتیشی ایس آئی اظہر اقبال سے اس حوالے سے گفتگو کی تو اس کا کہنا تھا کہ ’’ہم نے محمد خان نامی شخص کا لوکل ہسپتال میں میڈیکل کرایا ہے۔ ڈاکٹر کا ابتدائی طور پر بتانا ہے کہ اس شخص میں جنس کی تبدیلی کے آثار دکھائی دے رہے ہیں۔ یہ شخص بظاہر تو مرد ہے لیکن اس کی پاس مردانہ طاقت نہیں ہے۔ اس کی مصدقہ رپورٹ آپ ڈسٹرک اسپتال یا بے نظیر ہاسپٹل راولپنڈی سے کسی پروفیسر ڈاکٹر سے لے سکتے ہیں۔
گزشتہ روز اہل محلہ اسے پکڑ کر لائے، ہم نے اس پر 419 ت پ کے تحت مقدمہ قائم کیا ہے۔ جب کہ اس سے بھیک کے پیسے بھی ملے تو ہم نے بھاری ایکٹ بھی اس پر لگایا ہے۔ اسے مجسٹریٹ کے سامنے پیش کیا گیا، اہل علاقہ کی بڑی تعداد کے ساتھ ساتھ وکلا بھی کافی تعداد میں موجود تھے۔ علاقہ مجسٹریٹ نے اس کا چار روزہ جسمانی ریمانڈ دیا ہے۔ ابھی اسے ہم بے نظیر اسپتال مزید میڈیکل کے لیے لے کر آئے ہیں۔ اس کے بعد شام کو اعلیٰ افسران کے سامنے پیش کرکے اس کی تفتیش شروع کی جائے گی تو مزید حقائق سامنے آئیں گے۔‘‘
ٹرانس جینڈر ایکٹ 2018ء کے حوالے سے یہ کیس کیسے دیکھا جاسکتا ہے؟ اس حوالے سے اسلامی نظریاتی کونسل کے چیف ریسرچ آفیسر مفتی غلام ماجد نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ ’’اس کی مختلف وجوہات ہوسکتی ہیں اور ایک وجہ ٹرانس جینڈر ایکٹ 2018ء بھی ہوسکتا ہے، جس میں اپنی مرضی کی جنس کا اختیار دیا گیا ہے۔ لوگوں کو جیسے جیسے یہ بات معلوم ہوتی جائے گی کہ ایسا الٹا سیدھا قانون پاس ہوچکا ہے تو جن کے دل و دماغ میں ایسی خواہشات موجود ہیں، انہیں ہوا تو ملے گی۔ اسی وجہ سے ایسی حرکات بھی کریں گے۔
خیبر پختون خوا میں تو اس حوالے سے جنس تبدیل کرنے والوں کا وظیفہ بھی مقرر کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ جیلوں میں ان کے لیے الگ کمرے بنوائے گئے ہیں جو عام آدمی سے زیادہ لگژری کمرے ہیں۔ کچھ اور اقدامات بھی ہیں، ایسی سہولیات کے لیے لوگ اس جانب زیادہ مائل ہورہے ہیں۔ اگرچہ سہولیات دینے والوں کے ذہن میںمحروم طبقوں کو نوازنے کا ہی خیال ہوسکتا ہے، لیکن اس وجہ سے اس طرح کے لوگ بھی فائدہ اٹھا سکتے ہیں اور اس کے نتائج اسی صورت میںبرآمد ہوں گے کہ امام مسجد بھی جنس تبدیل کرا نے لگیں۔ یعنی جو مرد ہے وہ عورتوں کے خانے میں جاکر سہولیات لے سکے۔ اگر بعض لوگوں میں ایسی خباثت موجود تھی تو یہ ایکٹ انہیں ہوا دے گا۔‘‘