احمد خلیل جازم :
بے حیائی پر مشتمل نام نہاد عورت مارچ کے منتظمین ریاستی اداروں پر اپنی رٹ قائم کرنے کیلئے بضد ہیں۔ واضح رہے کہ اسلام آباد میں آٹھ مارچ کو اخلاق باختہ شو کے منتظمین نے پریس کلب سے ڈی چوک تک ریلی نکالنے کیلئے وفاقی انتظامیہ کو خط تحریر کیا تھا، جسے ڈی سی اسلام آباد نے رد کرتے ہوئے انہیں ایف نائن پارک میں جلسہ کرنے کی متبادل جگہ دینے کا عندیہ دیا۔ تاہم عورت مارچ کے منتظمین نے اسے یہ کہہ کر مسترد کر دیا کہ مارچ میں شامل عورتیں پارکوں تک کیوں محدود رہیں۔
نام نہاد عورت مارچ کے حوالے سے امیر جماعت اسلامی شمالی پنجاب ڈاکٹر طارق سلیم کا ’’امت‘‘ سے بات کرتے ہوئے کہنا تھا کہ، آٹھ مارچ خواتین کا عالمی دن ہے اور اسے تمام ممالک میں منایا جاتا ہے۔ جماعت اسلامی کا حیا مارچ، اس مقصد کے لیے ہے کہ اسلام نے عورت کو عزت و وقار اور آزادی دی ہے۔
اسلام سے پہلے تو میلوں میں عورت کو فروخت کیا جاتا تھا۔ لیکن رسول کریم ﷺ نے تعلیم دی کہ تمہاری جنت، مائووں کے قدموں تلے ہے۔ بیوی گھر کی ملکہ اور بیٹی گھر کی شہزادی ہے، رحمت ہے۔ باپ جنت کا دروازہ ہے۔ جماعت اسلامی تو یہ بتانا چاہتی ہے کہ اسلام نے عورت کو حقوق دیئے ہیں۔ وراثت میں حق دیا ہے۔ اور بیٹی رحمت ہونے کے ساتھ ساتھ دو بیٹیوں کی پرورش کرنے والوں کو رسول کریم ﷺ نے جنت کی بشارت دی ہے۔ لیکن دوسری جانب یہ جو لبرل خواتین ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ اسلام نے عورت کی آزادی ختم کی ہے۔ برقع میں ڈالا ہے۔ چاردیواری میں قید کیا ہے۔
ان لبرل خواتین کا کہنا ہے کہ ہم اپنا حق خود لینا چاہتی ہیں، ہم ٹائر بدل لیتی ہیں، کھانا بنا لیتی ہیں، میرا جسم میری مرضی۔ وغیرہ وغیرہ۔ یہ ان کے سلوگن ہیں۔ یہ جو دیوار برلن وہ کھڑی کرنا چاہتی ہیں اسلام اور غیر اسلام کے درمیان، تو مجھے بتائیں کہ اسلام نے کب عورت کو پابند کیا ہے؟ شہناز لغاری حجاب پہن کر بھی پائیلٹ بن چکی ہیں۔
پاکستان میں ہزاروں کی تعداد میں لیڈی ڈاکٹرز موجود ہیں۔ اس کے ساتھ خانگی لائف بھی گزار رہی ہیں۔ عائشہ منور، عائشہ سید، ڈاکٹر کوثر فردوس، آپا نثار فاطمہ یہ سب قومی اسمبلی کی ممبر رہی ہیں۔ یہ سب حجاب میں رہ کر کام کرتی رہی ہیں۔ ان کے کون سے حقوق پامال ہوئے؟ تو میں یہ سمجھتا ہوں کہ یہ پراپیگنڈا ہے کہ گھر میں جو خاتون ہے، وہ قید ہے۔ وہ ان سے زیادہ باوقار اور باعزت ہیں۔
میں تو لبرل خواتین سے ہمدردری رکھتا ہوں۔ اللہ نے مرد اور عورت کا الگ مقام رکھا ہے۔ سر کی ٹوپی کو پائوں کے نیچے رکھ دیں تو اس کے پلے کیا بچے گا۔ اور ایک لاکھ کا جوتا سر پر رکھ لیں تو اس کی اوقات تو نہیں بدلے گی۔ یہ جو عورت مارچ کے نام پر جو آزادی کی بات ہماری لبرل بہنیں کر رہی ہیں۔ اس آزادی نے تو ان کے پلے کچھ نہیں چھوڑا۔ نہ ان کا گھر بچا ہے اور نہ خاندان رہا ہے۔ ان کی عزت و عصمت بھی نہیں رہی۔
مغربی کلچر کی دلدادہ خواتین چائے کی پیالی میں طوفان اٹھانا چاہتی ہیں۔ پاکستان میں عورت آزاد ہے۔ صرف چند خواتین ہیں جو سمجھتی ہیں کہ ایسا نہیں ہے۔ یہ ان کا بیرونی ایجنڈا ہے۔ جسے مغرب ہمارے خاندانی نظام کو تباہ کرنے کے لیے ان کے ذریعے اپلائی کر رہا ہے۔ مغرب ہمارے خاندانی نظام سے پریشان ہے۔ مغرب کا خاندان ٹوٹ چکا ہے۔ ہمارے ہاں تو آج بھی خاندانی روایات برقرار ہیں۔ مغرب میں خاندان کا تصور ہی نہیں رہا۔ وہ یہاں بھی خاندانی نظام کو توڑنے کے لیے ان جیسے لوگوں کو آگے لارہا ہے۔
معروف دینی اسکالر مفتی حنیف قریشی کا کہنا تھا کہ جتنے حقوق عورت کو ان کی تمام جہتوں سمیت، اسلام نے دیئے ہیں، اتنے دنیا کی کسی سوسائٹی یا مذہب نے نہیں دیئے۔ قرآن میں واضح طور پر ماں، بیٹی، بہن اور بیوی کے حقوق موجود ہیں۔ جس عورت مارچ کا آپ ذکر کررہے ہیں اگر واقعی کسی عورت کے حق کو کوئی سوسائٹی ہمارے معاشرے میں سلب کررہی ہے، اس کے لیے ہے تو ہم اس حق میں ہیں کہ انہیں وہ حقوق دیے جائیں جو قرآن سنت کے مطابق ہوں۔ اس کے لیے اگر مارچ کی ضرورت ہے تو میں اس کے حق میں ہوں۔
پاکستان میں گزشتہ چند برسوں سے عورت مارچ کے نام پر جو پریکٹس کی جارہی ہے، بنیادی طور پر اس ایجنڈے کی طرف قدم ہے جو ہمارے معاشرے کو مادر پدر آزاد رکھنا چاہتا ہے۔ اس کے آفٹر شاکس یورپ اور مغربی کلچر جھیل رہا ہے اور وہ تباہ ہوچکے ہیں۔ اس تباہی میں وہ ہمیں بھی ساتھ ملانا چاہتے ہیں۔ ہم من حیث القوم اگر کسی ایسی خرابی سے بچنا چاہتے ہیں تو کسی نئے ایجنڈے کی تکمیل کے بجائے، قرآن و سنت نے جو حقوق دیے ہیں، انہی پر کھڑے رہیں۔
افسوس یہ ہے کہ عورتوں کے جو حقوق پاکستان میں پامال ہورہے ہیں، ان پر تو یہ عورتیں بات ہی نہیں کرتیں۔ مثلاً عورتوں کو وراثت میں سے حصہ نہیں دیا جاتا، باپ جہیز دے کر فارغ ہوجاتاہے اور بھائی شادی کے بعد سمجھتے ہیں کہ اسے اس کا حق مل گیا ہے۔ اگر بہن وراثت میں سے حصہ طلب کرئے تو کہا جاتا ہے کہ یہ بہن، بھائیوں کاحق مار رہی ہے۔ اسے مختلف نام دیے جاتے ہیں۔ یہ ان کا حق ہے، انہیں یہ کیوں نہیں دیا جاتا۔ ایسا مطالبہ عورت مارچ میں کیوں سامنے نہیں آتا؟
انہیں ملازمت کے نام پر ہراسمنٹ کاسامنا ہے۔ استقبالیہ پر عورت کو شو پیس کے طور پرکھڑا کیا جاتا ہے، اس پر آواز کیوں نہیں اٹھاتے۔ عورت کو اگر ملازمت دینی ہے تو کوئی قابل عزت ملازمت فراہم کریں، نہ کہ جہاز میں غیر مردوں کے سامنے انہیں جسم کی نمائش کے ساتھ خدمت پر مامور کیا جائے۔
عورت مارچ میں کس پر آواز اٹھائی جاتی ہے کہ انہیں مادر پدر آزادی ملے، میرا جسم میری مرضی؟ ہم اللہ کے بندے ہیں، اللہ کی مرضی چلے گی، اگر اسی طرح مرد باہر نکلیں اور کہیں کہ ہمارا جسم ہماری مرضی، تو پھر سوچ لیں کہ یہ معاشرہ کہاں چلا جائے گا۔
میں سمجھتا ہوں کہ عورت مارچ، معاشرے کو تقسیم کرنے اور بے حیائی و ہم جنس پرستی کی قباحتوں کو پاکستانی معاشرے میں داخل کرنے کاایک حیلہ و تدبیر کی گئی ہے۔