امت رپورٹ :
پچھلے کچھ عرصے سے یہ ملین ڈالر کا سوال بنا ہوا ہے کہ عمران خان کو کب گرفتار کیا جائے گا اور یہ کہ کیا واقعی ریاست اتنی بے بس ہے کہ چیئرمین پی ٹی آئی کو پکڑنا اس کے لئے ایک خواب بن چکا ہے؟ اس سوال کا جواب تلاش کرنے کے لیے نون لیگ کے اندرونی حلقوں اور دیگر ذرائع سے رابطہ کیا گیا تو معلوم ہوا کہ حکومت جب چاہے عمران خان کو گرفتار کر سکتی ہے۔ تاہم اس گرفتاری سے دانستہ گریز کیا جارہا ہے اور یہ سب ایک طے شدہ پلان کا حصہ ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ اس حکمت عملی پر عمل پیرا حکومت کو اب بزدلی کے طعنے ملنا شروع ہوچکے ہیں۔
معتبر ذرائع نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ جیسے ہی عام انتخابات سر پر آئیں گے۔ عمران خان کو گرفتار کرلیا جائے گا۔ یہ حکومت کا طے شدہ پلان ہے۔ جس کا ہوم ورک مکمل کیا جا چکا ہے۔ ذرائع کے مطابق عمران خان کے خلاف موجودہ تمام کیسز میں سے کسی بھی کیس میں اگر انہیں گرفتار کیا جاتا ہے تو عدالت سے فوری ضمانت یقینی ہے۔ لہٰذا انتخابات سے پہلے گرفتاری کسی ایسے مقدمے میں کی جائے گی۔ جس میں چیئرمین پی ٹی آئی کی جلد ضمانت ممکن نہ ہو سکے اور انہیں کم از کم دو سے تین ماہ جیل میں گزارنا پڑیں۔اس پلان پر عمل کے لیے آنے والے دنوں میں عمران خان کے خلاف مزید مقدمات درج کئے جاسکتے ہیں۔
واضح رہے کہ قومی انتخابات سے پہلے پنجاب اور خیبرپختونخوا کے صوبائی انتخابات کا مرحلہ درپیش ہے۔ پنجاب میں تیس اپریل کو الیکشن کی تاریخ دی جاچکی ہے۔ جبکہ خیبر پختونخوا میں بھی آنے والے دنوں میں الیکشن کی تاریخ کا اعلان متوقع ہے۔ جب ذرائع سے استفسار کیا گیا کہ عمران خان کی گرفتاری کے پلان پر کن انتخابات سے پہلے عمل کیا جائے گا تو جواب تھا کہ اول تو پنجاب اور خیبرپختونخوا میں الیکشن مقررہ تاریخوں پر ہونے کے امکانات اب تک واضح نہیں۔ جبکہ قومی انتخابات، حکومت اکتوبر میں اپنے وقت پر کرانے کا ارادہ رکھتی ہے۔ آگے چل کر یہ ارادہ تبدیل ہو سکتا ہے۔ تاہم حکومتی خواہش کے برعکس اگر پنجاب اور خیبرپختونخوا میں پہلے انتخابات ہوجاتے ہیں تو پھر اس مرحلے سے چند دن پہلے عمران خان کی گرفتاری کے پلان کو عملی شکل دیدی جائے گی۔
ذرائع کا دعوی تھا کہ یہ گرفتاری اچانک ہوگی۔ یعنی جس طرح آج کل گرفتاری سے پہلے سوشل میڈیا پر ہنگامہ برپا کر دیا جاتا ہے اور پی ٹی آئی کارکنوں کو زیادہ سے زیادہ تعداد میں زمان پارک پہنچنے کی پوسٹیں لگنی شروع ہوجاتی ہیں، ایسا موقع نہیں دیا جائے گا۔ اس بات کو یقینی بنانے کی کوشش کی جائے گی کہ کارروائی سے پہلے پی ٹی آئی ہجوم اکٹھا نہ کر سکے۔ چونکہ فی الحال عمران خان کے ساتھ چوہے بلی کے کھیل کی حکمت عملی اپنائی گئی ہے۔ لہٰذا جان بوجھ کر حکومت خود یہ خبر لیک کر دیتی ہے کہ عمران خان کو گرفتاری کرنے کے لئے پولیس ایکشن میں آگئی ہے۔ اس کا مقصد پی ٹی آئی کے حلقوں میں ہیجان پیدا کرنا اور عمران خان کے اعصاب کو توڑنا ہے۔ تاکہ ان پر گرفتاری کا خوف مسلسل سوار رہے۔ جب حقیقی معنوں میں گرفتاری کا ایکشن کیا جائے گا تو حکمت عملی تبدیل ہوگی۔
ذرائع کا یہ بھی کہنا تھا کہ انتخابات سے کچھ دن پہلے عمران خان کو گرفتار کرنے کا پلان اسی لئے ترتیب دیا گیا ہے کہ وہ انتخابی مہم چلانے سے قاصر رہیں۔ کیونکہ حکومت سمجھتی ہے کہ انتخابی مہم کے تحت عمران خان کے جلسے جلوس پی ٹی آئی کی کامیابی میں بنیادی رول ادا کر سکتے ہیں۔ دوسرا اس چیز کو ملحوظ خاطر رکھا گیا ہے کہ انتخابات کے موقع پر گرفتاری کی صورت میں پی ٹی آئی کی قیادت اور ورکرز کنفیوژ کیا جا سکے اور وہ یہ سوچتے رہ جائیں کہ اپنے چیئرمین کی رہائی کی تحریک چلائیں یا انتخابی مہم چلائیں۔
ادھر نون لیگی ذرائع کا کہنا ہے کہ عمران خان کی گرفتاری کے لئے زمان پارک پر ایکشن پلان کا حصہ نہیں۔ کیونکہ نون لیگی قیادت کو خدشہ ہے کہ زمان پارک پر پولیس ایکشن کے نتیجے میں ماڈل ٹائون جیسا واقعہ رونما ہو سکتا ہے۔ تب سارا ملبہ نون لیگ پر گرا تھا اور وہ آج تک اس ایشو سے پیچھا نہیں چھڑا سکی ہے۔ نون لیگی ذرائع کے مطابق جس طرح عمران خان نے گرفتاری سے بچنے کے لئے خواتین اور بچوں سمیت کارکنوں کو اپنی ڈھال بنا رکھا ہے۔
ایسے میں اگر زمان پارک پر ایکشن کیا جاتا ہے تو وہاں موجود ہجوم کے ساتھ پولیس کا تصادم یقینی ہے۔ تاہم اس صورت میں زمان پارک پر ایکشن کیا جا سکتا تھا۔ جب پیپلز پارٹی اور جمعیت علمائے اسلام جیسی حکومتی اتحادی پارٹیاں بھی نون لیگ کے ساتھ فرنٹ پر آکر اس ایکشن کی ذمہ داری قبول کریں۔ لیکن اتحادی پارٹیاں اس سے گریزاں ہیں۔ لہٰذا کارروائی کا سارا ملبہ نون لیگ خود پر گرانے کے لئے تیار نہیں۔؎
ادھر عمران خان کی گرفتاری کو لے کر جے یو آئی کے ایک رہنما کا کہنا ہے کہ حکومت نے اس وقت درست حکمت عملی اختیارکر رکھی ہے۔ چوہے بلی کے اس کھیل میں چیئرمین پی ٹی آئی کی نام نہاد بہادری بے نقاب ہو رہی ہے۔
اس رہنما کے بقول فی الحال ایک آزاد عمران خاں حکومت کے لئے زیادہ فائدہ مند ہے کہ جیل جانے سے ایک تو پی ٹی آئی کو مظلومیت کا بیانیہ ملے گا اور عمران کی مقبولیت بڑھے گی۔ پھر یہ کہ موجودہ کیسزکے تحت گرفتاری کے نتیجے میں چیئرمین پی ٹی آئی کو عدالتوں سے فوری ریلیف مل سکتا ہے۔
جے یو آئی رہنما کا کہنا تھا کہ عمران خان اس وقت جو بیانات دے رہے ہیں۔ اس کے ذریعے وہ خود اپنے خلاف فرد جرم عائد کر رہے ہیں۔ ان کے فوری جیل جانے سے یہ سلسلہ رک جائے گا۔