نواز طاہر :
تحریکِ انصاف کی الیکشن مہم کی پہلی ریلی ہی قانون سے پُر تشدد تصادم ثابت ہوئی۔ جبکہ کارکنان کو پولیس سے لڑا کر کپتان نے حسبِ معمول یو ٹرن مارتے ہوئے ایونٹ منسوخ کر دیا۔
پولیس دفعہ ایک سو چوالیس کی تعمیل کرانے جیسے ہی زمان پارک پہنچی تو پی ٹی آئی کے ڈنڈا بردار کارکنان نے ہلہ بول دیا۔ ڈنڈوں کے وار اور پتھرائو سے بائیس پولیس اہلکار زخمی ہوئے۔ جبکہ بعض اہلکاروں کی وردیاں بھی پھاڑی گئیں۔ پی ٹی آئی کی جانب سے ڈیڑھ سو کارکنوں کی گرفتاری کا دعویٰ کیا گیا ہے۔
بدھ کے روز لاہورکی شاہراہِ قائد اعظم کی فضا اس وقت گالم گلوچ، پتھرائو اور اور آنسو گیس کے گولوں کی آواز سے آلودہ ہوگئی۔ جب قریبی مساجد سمیت اطراف کی مساجد سے ظہر کی اذان گونج رہی تھی۔ اس کے چند لمحوں کے بعد یہی شور و غوغا یہاں سے نصف کلومیٹر کے فاصلے پر تحریکِ انصاف کے سربراہ عمران خان کی آبائی رہائش گاہ زمان پارک کے باہر بھی شروع ہوگیا۔ جہاں کارکن لاٹھیاں اور پتھر اٹھائے نعرے لگاتے ہوئے پولیس اہلکاروں کو للکارتے ہوئے سڑکوں پر نکل پڑے۔ اس کی ابتدا اس وقت ہوئی جب تحریکِ انصاف کے کارکنان، پولیس اہلکاروں سے بھڑ گئے۔
پولیس نے ان کارکنوں کو ضابطہ فوجداری کی دفعہ ایک سو چوالیس کی پابندی نہ توڑنے کی وارننگ دی تو کارکن مشتعل ہوگئے اور پولیس کو’ پٹواری‘ قرار دے کر نعرہ بازی شروع کر دی۔ گالم گلوچ کی اور لاٹھیوں اور پتھروں کا استعمال کیا۔ شر پسندوں نے واٹر کینن پر بھی ہلہ بول دیا۔ جس پر پولیس نے واٹرکنین کا استعمال کیا اور آنسو گیس بھی استعمال کی گئی۔
اس سے کچھ دیر بعد غیر ملکی کھلاڑیوں سمیت پاکستان سپر لیگ کھیلنے والی ٹیموں کو سیکورٹی کلیئرنس کے بعد قذافی اسٹیڈیم منتقل کیا جانا تھا۔ جسے پولیس اور کارکنوں کے تصادم کے باعث متبادل ہنگامی حفاظتی انتظامات کے ساتھ اسٹیڈیم پہنچایا گیا۔ زمان پارک میں یہ اطلاع دی گئی تھی کہ پولیس عمران خان کی گرفتاری کیلئے زمان پارک پہنچ رہی ہے اور یہ گرفتاری زمان پارک سے داتا دربار تک عمران خان کے ریلی کی قیادت کرنے کیلئے کنٹینر پر چڑھنے سے پہلے کی جائے گی۔
یہ اشتعال انگیز پیغام کارکنوں کو سوشل میڈیا اور دیگر ذرائع سے پہنچایا گیا اور ہنگامی طور پر زمان پارک پہنچنے اور مزاحمتی کردار ادا کرنے کیلئے کہا گیا۔ جبکہ اس وقت کم و بیش ایک ہزار کارکن زمان پارک میں موجود تھے۔ جن میں گلگت بلتستان، سوات اور دیگر شمالی علاقوں سے تعلق رکھنے والے پہلے سے مقیم کارکن بھی شامل تھے۔
ان کارکنوں نے زمان پارک کے باہر کیمپوں میں اسٹاک لاٹھیاں اور پتھر اٹھالئے اور کینال بینک روڈ پر عمران خان کی رہائش گاہ کے گرد مزاحمتی دیوار بنا لی۔ جبکہ اس سے پہلے زمان پارک جانے والے راستے مسلم لیگ ہائوس سے سندر داس روڈ، مال روڈ کراسنگ سے کینال روڈ اور دھرمپورہ سے مال روڈ کی طرف جانے والے راستوں پر رکاوٹیں کھڑی کرکے پولیس کی بھاری نفری تعینات کردی گئی تھی۔
اس صورتحال کے پیش نظر پی ٹی آئی کی قیادت کا ہنگامی اجلاس ہوا۔ ایک طرف اجلاس جاری رہا تو دوسری جانب پی ٹی آئی کے قائدین، کارکنان کو پولیس کو منہ توڑ جواب دینے کیلئے اکساتے رہے۔ پی ٹی آئی کے کارکنوں نے نہر کے دوسری طرف فلیگ مارچ کرتی پولیس ٹیموں کو دیکھ کر بھی نعرہ بازی کی اور جھگڑنے کی کوشش کی۔ جبکہ ریلی روکنے کیلیے تعینات اہلکاروں کے ساتھ بھی الجھتے رہے۔
ان کارکنوں نے فل سائز کی اینٹوں کے علاوہ مختلف سائز کے پتھر بھی اٹھا رکھے تھے۔ ایک اوورسیز معمر شخص بھی ایک بڑی لاٹھی اٹھائے ہلکے ہلکے قدم اٹھاتے ڈیڑھ فرلانگ کے فاصلے پر کھڑے پولیس اہلکاروں کو عمران خان کی گرفتاری سے روکنے کیلئے بڑھتا ہوا سبھی کی توجہ کا مرکز تھا۔
عمران خان کی خاطر جان و مال کی قربانی کا نعرے لگانے والے کئی شر پسند کارکنان پشتو اور سرائیکی لہجے میں لاہوریوں کو ’مخنث‘ بھی قرار دے رہے تھے کہ وہ گھروں میں بیٹھے تماشا دیکھ رہے ہیں۔سوا دو بجے کے قریب زمان پارک سے مغرب کی جانب سے آنے والے کارکنوں کی جی او آر کے قریب پولیس کے ایک دستے سے مڈبھیڑ ہوئی۔ جہاں پتھرائو سے دو پولیس اہلکار شدید زخمی ہوگئے۔
کارکنوں نے پتھروں کے علاوہ غلیلوں کا بھی بھرپور استعمال کیا اور پانچ سے زائد بار پولیس کو پسپا کر دیا۔ پسپائی کے وقت پولیس اہلکار ایک دوسرے کو حوصلہ بھی دیتے رہے۔ ماضی کے برعکس سینئر اور تجربہ کار پولیس افسر نہ ہونے کی وجہ سے پولیس کے پاس نہ تو شرپسندوں سے نمٹنے کیلئے پلاننگ نظر آئی اور نہ ہی آنسو گیس کے گولوں کے استعمال کی مہارت دکھائی دی۔ جس سے نہر کے دوسری جانب موجود کارکنان اور کچھ خواتین، پولیس پر پتھرائو کرنے میں غالب رہیں۔
ایک زخمی اہلکار نے بتایا کہ وہ جس وقت آنسو گیس کا گولہ فائر کرنے والا تھا تو عین اسی وقت سائیکل سوار اور پیدال راہگیر، پتھرائو کرنے والوں کے پیچھے سے گزر رہے تھے۔ چنانچہ اس نے توقف کیا تو اسی دوران پتھر لگنے سے اس کا سر پھٹ گیا۔ پولیس اور پی ٹی آئی کارکنوں کے تصادم کے دوران اینٹی رائٹس اور ڈولفن فورس کے دستے کہیں دکھائی نہیں دیے۔
اس کی وضاحت کرتے ہوئے ایک پولیس افسر نے ’آف دی ریکارڈ ‘ کہا کہ ایک جانب پی ایس ایل کا سیاپا ہے تو دوسری جانب ’’عورت مارچ‘‘ کا عذاب ہے اور حالات پہلے ہی خراب ہیں۔ بیچ میں ہم ہیں گالیان سننے اور پتھر کھانے کیلئے۔ جب ہم مجبوراً اپنی جان بچانے کیلئے دفاع میں ایکشن کرتے ہیں تو ہماری معطلی اور برطرفیاں ہوتی ہیں۔ اس وقت بھی جوان ہی حالات کا مقابلہ کر رہے ہیں۔ پولیس اور پی ٹی آئی کارکنوں میں جھڑپیں مغرب تک جاری رہیں۔ جس دوران پولیس اہلکار زخمی ہوتے رہے، جنہیں اسپتال منتقل کیا جاتا رہا اور گرفتاریوں کا عمل بھی جاری رہا۔
قابلِ ذکر امر یہ ہے کہ پولیس اہلکاروں نے حراست میں لیے جانے کے بعد کچھ کارکنوں کو از خود بھی چھوڑ دیا۔ جس پر پولیس اہلکاروں میں بحث بھی ہوتی رہی۔ ڈھائی بجے تک پی ٹی آئی کی جانب سے ڈیڑھ سو کارکنوں کی گرفتاری کا دعویٰ کیا گیا تھا۔ لیکن پولیس نے اس کی تصدیق نہیں کی تھی۔ پی ٹی آئی کی جانب سے یہ دعویٰ بھی کیا گیا کہ ان کے تین کارکن پولیس کی شیلنگ سے ’’شہید‘‘ ہوگئے ہیں۔
ان میں سے محمدی پارک جہانگیر ٹائون لاہور کا علی بلال کا شناختی کارڈ بھی شیئر کیا گیا۔ جبکہ دیگر دو کے بارے میں اطلاع دینے کے بعد خاموشی اختیار کرلی گئی۔ تاہم پولیس کی جانب سے رات گئے تک کسی ہلاکت کی تصدیق نہیں کی گئی تھی۔؎ مغرب سے کچھ دیر پہلے کارکنوں نے پولیس کو مال روڈ چوک پر دونوں طرف سے گھیر لیا۔ کنٹینرز کے شیشے توڑ دیے اور وہاں سے ہٹا دیے۔
اس دوران پولیس کی گاڑیاں، اہلکاروں کو چھوڑ کر بھاگتی دکھائیں دیں۔ اسی دوران ڈنڈوں سے مسلح کارکنوں نے ٹریفک پولیس مال روڈ سیکٹر کے دفتر پر ہلہ بول دیا۔ تاہم موقع پر موجود صحافیوں اور پی ٹی آئی ہی کے کچھ عہدیداروں نے ڈیوٹی پر موجود ایک اہلکار کی مشتعل کارکنوں سے جان چھڑائی۔ تاہم شر پسندوں نے اس کا یونیفارم اتروا کر ہی دم لیا۔ بیس منٹ بعد پولیس کی مزید نفری آنے پر مال روڈ پر پولیس پھر سے بہتر پوزیشن میں آگئی۔ اس وقت تک پی ٹی آئی کی قیادت کی جانب سے ریلی ملتوی کرنے کا اعلان کیا جاچکا تھا۔
ریلی ملتوی کرنے کا فیصلہ پی ٹی آئی کی قیادت کی منشا کے مطابق عدالت سے ریلیف نہ ملنے پر کیا گیا۔ جبکہ اس سے پہلے قانونی ٹیم قیادت کو آگاہ کرچکی تھی کہ آج ہی ریلی نکالنے کیلیے عدالت کی جانب سے ریلیف ملنے کا امکان انتہائی کم ہے۔
آٹھ بجے شب یہ سطور لکھے جانے تک مال روڈ اور کینال روڈ پر وقفے قوقفے سے جھڑپیں جاری تھیں اور مجموعی طور پر پولیس، پی ٹی آئی کے کارکنوں کا غلبہ توڑ چکی تھی۔ اس وقت اطلاعات تھیں کہ بلوچستان سے پولیس کی ٹیم عمران خان کی گرفتاری کیلئے لاہور پہنچ رہی ہے۔ لیکن پولیس ذرائع نے اس کی تصدیق نہیں کی۔ جبکہ یہ دعویٰ پی ٹی آئی کے رہنما فواد چوہدری نے کیا تھا۔