اقبال اعوان :
ماہ مبارک قریب آنے کے باوجود کراچی کی مرکزی کھجور مارکیٹ میں کاروباری سرگرمیوں میں روایتی تیزی دیکھنے میں نہیں آرہی۔ اس کی وجہ مختلف اقسام کی کجھور کی قیمتوں میں سو فیصد تک اضافہ ہے۔ مارکیٹ ذرائع کے مطابق اس بار رمضان الکریم میں ایرانی کھجور زیادہ نظر آئے گی۔
اس کی قیمت بھی گزشتہ سال کی نسبت دگنی ہے۔ واضح رہے کہ بلوچستان اور سندھ کی کھجور کی بیشتر فصل سیلاب کی نذر ہو گئی تھی۔ جبکہ سعودی عرب کی کھجوریں خاصی مہنگی ہیں۔ مرکزی کھجور مارکیٹ میں ایرانی زاہدی کھجور 12 سے 14 ہزار روپے من اور ایرانی مضافاتی 16 ہزار کھلی اور پیکٹ میں 18 ہزار روپے فی من فروخت ہورہی ہے۔
کراچی کی مرکزی کھجور مارکیٹ میں گزشتہ سال کی طرح زیادہ گہما گہمی نظر نہیں آ رہی ہے کہ سیلاب کے باعث اس کاروبار کا زیادہ نقصان ہوا ہے۔ سیلاب کے دوران سکھر، خیر پور اور بلوچستان کے شہروں تربت اور پنجگور میں کھجوریں تیار تھیں۔ تاہم کئی کئی فٹ پانی کئی ماہ تک جمع رہنے سے کھجوریں خراب ہو گئی تھیں۔ اس دوران جمع شدہ اسٹاک اس رمضان میں فروخت ہونا تھا۔
اس طرح مقامی طور پر سندھ اور بلوچستان کی فصل تباہ ہو گئی۔ ورنہ ایرانی، عراقی، سعودی عرب کی کھجوروں کے ساتھ ساتھ مقامی کھجوریں زیادہ فروخت ہوتی تھیں۔ کھجور چونکہ رمضان المبارک میں افطار کا اہم آئٹم ہوتا ہے اور ہر طبقے کے لوگ اسے کھاتے ہیں۔ بڑھتی مہنگائی اور اخراجات بڑھنے سے کھجوروں کی قیمتیں پہلے ہی زیادہ تھیں۔
اس بار مرکزی مارکیٹ میں صرف ایرانی کھجوروں کا کاروبار چل رہا ہے۔ اس مارکیٹ سے کراچی سمیت سندھ اور دیگر صوبوں کو مال جاتا ہے۔ بعض دکانداروں کے پاس مقامی مال بہت کم ہے۔ جس پر غریب طبقہ انحصار کرتا تھا۔ شعبان المعظم کے مہینے میں کاروبار تیز ہو جاتا تھا کہ رفاہی ادارے، مساجد کمیٹی، سیاسی، مذہبی جماعتیں، علاقائی ویلفیئر کمیٹیاں، راشن بانٹنے والے، دستر خوان بالخصوص افطار کرانے والے پہلے ہی زیادہ مال خرید کر رکھتے تھے۔
بیرون ملکوں سے مال پورٹ پر آتا ہے اور قدیم کھجور مارکیٹ کے سامنے لی مارکیٹ میں ہی بیرون ملکوں کی کھجوروں کی مارکیٹ واقع ہے۔ ساری صورت حال سے لگتا ہے کہ کراچی میں کھجور خاصی مہنگی ملے گی۔ شعبان میں ڈرائی فروٹ والے اور کھجور کے ٹھیلے پتھارے والے کاروبار شروع کر دیتے ہیں۔ تاہم شب برات پر بھی کھجور کم نظر آئی۔
تاجر سید ہاشم کا ’’امت‘‘ سے بات کرتے ہوئے کہنا تھا کہ سعودی عرب کی کھجوریں خاصی مہنگی ہیں اور پوش طبقہ زیادہ لیتا ہے۔ جبکہ اس بار زیادہ تر ایرانی کھجور نظر آرہی ہے۔ ڈالر کے مسلسل چڑھائو، ٹیکس ڈیوٹیز میں اضافہ، اخراجات بڑھنے پر ہول سیل ریٹ پر ایرانی زاہدی اور مضافاتی کھجوریں بھی مہنگی کر دی گئی ہیں۔ اب ایرانی کھجور زیادہ فروخت ہورہی ہے۔ لہٰذا وقت کے ساتھ ساتھ قیمت بڑھ رہی ہے اور رمضان میں یہ قیمتیں تین گنا بڑھ جائیں گی کہ قلت کا منافع خور تاجر خوب فائدہ اٹھائیں گے۔
شہر میں ٹھیلے پتھارے والے مقامی سکھر اور پنجگور کی کھجوریں 800 روپے کلو فروخت کررہے ہیں جو رمضان کے دوران ہزار سے بارہ سو روپے کلو تک جائے گی۔ جبکہ ایرانی زاہد کھجور 350 روپے کلو ہول سیل پر لے کر 900 روپے کلو تک اور ٹھیلوں پر ہزار روپے رمضان سے قبل فروخت کی جارہی ہے۔
مارکیٹ میں آنے والے شہریوں کا کہنا ہے کہ اگر پرائس کنٹرول کمیٹی اور کوالٹی کنٹرول سمیت سندھ فوڈز اتھارٹی والے ادارے ٹھیک ہوں تو شہریوں کو مسئلہ نہیں ہوتا۔ اب ہول سیل کی قیمت اور عام ٹھیلے کی قیمت میں دگنی یا تین گنا قیمت کا فرق ہوتا ہے۔ نہ معیار چیک ہوتا ہے اور فروخت کرنے والے مرضی کرتے ہیں۔ رمضان میں منافع خوری زیادہ ہوتی ہے اس کاروبار پر مقامی انتظامیہ اگر نظر رکھے تو شاید غریب طبقہ افطار میں کھجور کھا سکے گا۔ ورنہ یہ غریب کی پہنچ سے دور ہو جائے گی۔