نواز طاہر :
پی ٹی آئی کارکنان کی پولیس سے جھڑپوں کے باعث گزشتہ روز لاہور کے شہریوں کو سخت عذاب کا سامنا رہا۔ پی ٹی آئی شرپسندوں کی جانب سے پولیس پر حملے کی تیاریوں کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ خالی کیمپوں سے کئی ٹن پتھر، اینٹیں اور غلیلوں کی بڑی تعداد برآمد ہوئی۔
پی ٹی آئی ذرائع کے مطابق زمان پارک کے اطراف موجود بیشتر کارکن آپریشن سے پہلے ہی آبائی شہروں کو روانہ ہوچکے تھے۔ جس کی اطلاع صوبائی انتظامیہ اور پولیس کو رات ہی کو ہوچکی تھی اور بتایا گیا تھا کہ دوپہر تک کارکنوں کی تعداد ہزار سے بارہ سو کے قریب ہو سکتی ہے۔ جبکہ کارکنوں کی زمان پارک میں بسائے جانے والے ’’خیمہ شہر‘‘ سے روانگی دوپہر تک جاری تھی۔ پی ٹی آئی کی چند روز قبل طے کی جانے والی حکمتِ عملی کے تحت ہر وقت کم از کم پانچ ہزار کارکنوں نے عمران خان کے گھر کا پہرا دینا تھا۔ لیکن آپریشن کے وقت پانچ سو کارکن بھی موجود نہ تھے۔
الیکشن کے پہلے مرحلے کے کاغذات نامزدگی جمع کرانے کی آخری تاریخ کے پیش نظر مختلف علاقوں سے آنے والے رہنما بھی اپنے حامیوں سمیت آبائی حلقوں میں جاچکے تھے۔ دوپہر دو بجے پولیس نے سات سے آٹھ منٹ کے اندر رکاوٹیں کھڑی کیں اور ڈی آئی جی آپریشن اسلام آباد پولیس شہزاد بخاری کی قیادت میں پولیس موبائلیں بھاری نفری اور واٹر کینن کے ساتھ زمان پارک پہنچ گئیں۔ جیسے ہی اسلام آباد پولیس، مقامی پولیس کے ساتھ عمران خان کی رہائش گاہ کے قریب سڑک پر پہنچی تو پی ٹی آئی کے شرپسندوں نے پتھرائو شروع کردیا۔ جس پر پولیس نے ان پر واٹر کینن کا استعمال کیا۔
واٹر کینن کے استعمال سے عمران خان کے گھر کی جانب داخل ہونے والی گلی کے باہر موجود ڈنڈا بردار پسپا ہوگئے اور پولیس عمران خان کے گھر کے بالکل سامنے پہنچ گئی۔ دوسری جانب کارکنوں نے ایک بار پھر بھاری پتھرائو کیا۔ ان میں خیبرپختون اور گلگت بلتستان سمیت شمالی علاقوں کے کارکن موجود تھے۔ جن میں زیادہ تر ایسے تھے جو گزشتہ کئی ہفتے سے عمران خان کی حفاظت پر مامور تھے۔ ان کارکنوں نے پولیس کو ابتدائی مرحلے میں پسپا اور ڈی آئی جی شہزاد بخاری کو زخمی کیا تو پولیس نے آنسو گیس کے بھاری استعمال سے انہیں پسپا کر دیا۔
اسی دوران شرپسندوں کی ٹولیوں نے نہر کے دوسری جانب سے پتھرائو کیا۔ لیکن زیادہ تر کارکن پولیس کے ہتھے چڑھ گئے اور باقی کارکنوں کو پولیس نے بھگا دیا۔ کچھ دیر کی خاموشی کے بعد پی ٹی آئی کی قیادت نے عمران خان کی رضاکارانہ گرفتاری کا عندیہ بھی دیا۔ اس وقت تک پولیس آپریشن جزوی طور پر معطل کر چکی تھی۔ لیکن اطراف سے کارکنوں کی ٹولیاں پہنچنا شروع ہوگئیں۔ جنہوں نے پولیس پر ایک مرتبہ پھر پتھرائو کیا۔ جبکہ عمران خان کے گھر کے اندر سے بھی پتھر پھینکے گئے۔ جس پر پولیس نے بھی آنسو گیس کا استعمال کیا۔
پولیس ذرائع کے مطابق زمان پارک گول گرائونڈ میں عارضی طور پر بسائے گئے خیمہ شہر کے خالی کیمپوں سے کئی ٹن پتھر اور اینٹیں برآمد کی گئیں۔ جنہیں ٹرالی میں لاد کر وہاں سے منتقل کیا گیا۔
اس کے علاوہ بڑی تعداد میں غلیلیں بھی قبضہ میں لی گئیں۔ یہاں سب سے زیادہ کیمپ خیبرپختون اور شمالی علاقوں کے اضلاع کے کارکنوں اور رہنمائوں کے تھے۔ جبکہ سندھ کا کیمپ پیر کی رات ہی کو خالی ہوگیا تھا اور جنوبی پنجاب کے کیمپ بھی منگل کی صبح خالی ہوگئے تھے۔ البتہ خیبر پخون سے تعلق رکھنے والے بہت سے کارکنان معمول کے مطابق سستانے کیلئے گئے ہوئے تھے۔ جو پولیس کے آپریشن کی اطلاع پا کر پہنچے تو پولیس نے انہیں راستے میں ہی آ لیا۔
پولیس نے کچھ کارکنوں کو حراست میں لے لیا۔ لیکن زیادہ تر فرار ہوگئے اور مزاحمت کاروں میں شامل ہوگئے۔ اس کے بعد جب عمران خان کو پولیس کے ایکشن اور رینجرز کی آمد کی اطلاع ملی تو ویڈیو پیغام میں کارکنوں کو مزاحمت جاری رکھنے کے ساتھ ساتھ ملک گیر سطح پر احتجاج کی کال دی۔ یہ پیغام بھی دیا کہ پولیس انہیں گرفتار کرنے والی ہے۔ لیکن وہ ہمت نہ ہاریں اورمزاحمت جاری رکھیں۔ تاہم رینجرز کے دستوں کے دیکھتے ہی کارکنوں کی بڑی تعداد وہاں سے چلی گئی۔
پولیس نے کینال بینک روڈ اور شاہراہ قائد اعظم کے علاوہ سندر داس روڈ مکمل طور پر بند رکھا۔ وہاں سے خواتین اور بچوں کے ماسوا کسی کو گزرنے کی اجازت نہیں تھی۔ شہر کے بعض علاقوں میں مظاہروں کی کال بھی دی گئی۔ لیکن رینجرز کے خوف سے کوئی سڑکوں پر نہیں نکلا اور پولیس نے اپنا آپریشن جاری رکھا۔ جبکہ شام کے اوقات میں اس آپریشن کی ہیلی کاپٹر سے فضائی نگرانی کی جاتی رہی۔ ڈیوٹی پر موجود اہلکاروں کا خیال تھا کہ فضائی نگرانی ان اطلاعات کی روشنی میں کی جارہی ہے کہ پولیس پر بھاری اسلحے سے ٹرینڈ افراد حملہ کرسکتے ہیں۔ جنہیں خصوصی طور پر شمالی علاقوں سے بلایا گیا ہے۔
پولیس کے مطابق پی ٹی آئی کے شرپسندوں کے پاس اسلحے کی اطلاعات بھی تھیں۔ آٹھ بجے شب تک مختلف اطراف سے گلیوں سے نکل کر کچھ ٹولیاں کینال روڈ پر پہنچ گئی تھیں اور پولیس کے ساتھ مزاحمت کر رہی تھیں۔ جبکہ شیلنگ اور پتھرائو جاری تھا اور پولیس کی مزید نفری بھی طلب کرلی گئی تھی۔ ساڑھے آٹھ بجے شب یہ سطور لکھے جانے تک پولیس اور پی ٹی آئی کی جانب سے کارکنوں کی گرفتاریوں کی تفصیلات جاری نہیں کی گئی تھیں۔