امت رپورٹ :
تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے اپنی ممکنہ گرفتاری کی صورت میں پارٹی معاملات چلانے کے لئے جو 6 رکنی ایمرجنسی کمیٹی بنائی ہے۔ اس کمیٹی میں اہم پارٹی رہنمائوں کو شامل نہ کرنے کی وجوہات سامنے آگئی ہیں۔ ان اہم رہنمائوں میں اسد عمر، پرویز خٹک، اسد قیصر اور فواد چوہدری شامل ہیں۔
واضح رہے کہ تین روز قبل عمران خان نے اپنی ممکنہ گرفتاری کی صورت میں پارٹی معاملات سنبھالنے کے لئے ایک ایمرجنسی کمیٹی تشکیل دی تھی۔ عمران خان نے ذاتی طور پر اس کی منظوری دی۔ یہ کمیٹی مراد سعید، شاہ محمود قریشی، سینیٹر سیف اللہ نیازی، سینیٹر اعظم سواتی، سینیٹر اعجاز چوہدری اور علی امین گنڈا پور پر مشتمل ہے۔
اس سے قبل تحریک انصاف کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی نے کہا تھا کہ اگر ان کے پارٹی چیئرمین عمران خان کو گرفتار کیا گیا تو وہ پارٹی قیادت کریں گے۔ شاہ محمود قریشی کے اس بیان کے بعد تحریک انصاف کے ایک اور رہنما شبلی فراز نے کہا کہ اگر پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان گرفتار ہوگئے تو پارٹی کو معلوم ہے، قیادت کون کرے گا۔ تاہم انہوں نے قیادت کرنے والے کا نام نہیں بتایا تھا۔ شبلی فراز کے اس بیان کو شاہ محمود قریشی کا اعلان کائونٹر کئے جانے کے تناظر میں دیکھا جا رہا تھا۔
پی ٹی آئی ذرائع کے مطابق شاہ محمود قریشی کے اس بیان پر پارٹی چیئرمین خوش نہیں تھے کہ وائس چیئرمین نے یہ بیان ان سے مشاورت کے بغیر دیا تھا اور اس سے ان کی پارٹی قیادت کے حصول کی دیرینہ خواہش کا اظہار بھی ہو رہا تھا۔ جس کے بارے میں متعدد خبریں چلتی رہی ہیں۔ بعد ازاں چھ رکنی کمیٹی کے قیام کے اعلان سے ثابت ہوگیا کہ پارٹی چیئرمین، تنہا شاہ محمود قریشی کو یہ ذمہ داری نہیں دینا چاہتے۔
عمران خان کی گرفتاری کی صورت میں پارٹی معاملات چلانے کی خاطر قائم کی جانے والی کمیٹی کی سربراہی کے بارے میں اگرچہ پی ٹی آئی کی جانب سے نہیں بتایا گیا۔ تاہم اطلاعات ہیں کہ کمیٹی کا سربراہ مراد سعید کو بنایا گیا ہے۔ یوں شاہ محمود قریشی کو براہ راست پیغام دیا گیا ہے کہ وہ عمران خان کی غیر موجودگی میں نہ صرف تن تنہا پارٹی قیادت سنبھالنے سے متعلق اپنی خوش فہمی دور کرلیں۔ بلکہ انہیں اپنے سے کہیں جونیئر پارٹی رہنما کی زیر قیادت کام کرنا ہوگا۔
ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ مراد سعید ایک تو ویسے بھی عمران خان کے منظور نظر ہیں۔ پھر یہ کہ انہیں اور علی امین گنڈا پور کو زمان پارک آپریشن ناکام بنانے کا صلہ بھی دیا گیا ہے اور اب یہ دونوں پہلے سے بھی زیادہ عمران خان کا اعتماد حاصل کر چکے ہیں۔ ذرائع کا دعویٰ ہے کہ مراد سعید اور علی امین گنڈا پور نے عمران خان کی گرفتاری کی کوشش ناکام بنانے کے لئے صوبہ خیبرپختونخوا سے سب سے زیادہ لوگ لاہور بھیجے اور ان کے قیام کے لئے صوبائی دارالحکومت کا ایک پورا ہوٹل بک کیا گیا۔
سب سے حیران کن امر پارٹی معاملات چلانے سے متعلق ایمرجنسی کمیٹی میں پارٹی کے کئی اہم اور سینئر رہنمائوں کو شامل نہ کرنا ہے۔ ان میں سرفہرست نام اسد عمر کا ہے۔ جو تحریک انصاف کے مرکزی سیکریٹری جنرل جیسا اہم پارٹی عہدہ بھی رکھتے ہیں۔
ذرائع نے بتایا کہ عمران خان اگرچہ شروع میں اسد عمر پر خاصا اعتماد کرتے تھے۔ لیکن اب یہ اعتماد خاصا کم ہو چکا ہے۔ پارٹی چیئرمین کے خیال میں اسد عمر وکٹ کے دونوں طرف کھیل رہے ہیں اور پھر یہ کہ عمران خان کے کان میں یہ باتیں بھی پڑتی رہی ہیں کہ شاہ محمود قریشی کی طرح اسد عمر بھی پارٹی کے اگلے چیئرمین بننے کی خواہش رکھتے ہیں۔ جبکہ ایک وقت میں وہ اہم حلقوں کے سامنے خود کو متبادل وزیراعظم کے طور پر بھی پیش کرچکے ہیں۔
ایمرجنسی کمیٹی سے غائب دوسرا اہم نام پرویز خٹک کا ہے۔ جو ہر دور میں اسٹیبلشمنٹ کے قریب تصور کئے جاتے رہے ہیں۔ ذرائع نے بتایا کہ پرویز خٹک کے بارے میں بھی عمران خان کو یہ بدگمانی ہے کہ کئی معاملات میں انہوں نے پارٹی پر اسٹیبلشمنٹ کو ترجیح دی۔ جبکہ اسی طرح پرویز خٹک کو بھی عمران خان سے بہت سے شکوے ہیں۔ لہٰذا پچھلے خاصے عرصے سے دونوں کے مابین اعتماد کا شدید فقدان ہے۔
تیسرے رہنما اسد قیصر کے بارے میں ذرائع کا کہنا ہے کہ تحریک عدم اعتماد کے موقع پر بطور اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے جو رول ادا کیا تھا۔ اس پر عمران خان ناراض ہیں اور یہ ناراضگی تاحال برقرار ہے (اس کی تفصیلات کسی آئندہ رپورٹ میں بیان کردی جائیں گی)۔
ذرائع کے بقول فواد چوہدری کے بارے میں بھی عمران خان کو یہ خبریں ملتی رہی ہیں کہ وہ نون لیگ اور پیپلز پارٹی سمیت بعض دیگر مخالف پارٹیوں کے ساتھ اندرون خانہ رابطے میں ہیں اور یہ کہ جب بھی انہیں یہ سو فیصد یقین ہوگیا کہ تحریک انصاف کی کشتی مکمل طور پر ڈوبنے والی ہے۔ وہ کسی اور پارٹی کی کشتی میں جا بیٹھیں گے۔
دلچسپ امر ہے کہ تحریک انصاف کے نو منتخب صدر چوہدری پرویز الٰہی کو بھی ایمرجنسی کمیٹی میںکوئی جگہ نہیں دی گئی۔ ذرائع کے مطابق ایک تو پارٹی کے اہم حلقوں میں انہیں تاحال دل سے صدر تسلیم نہیں کیا جارہا اور پھر یہ کہ زمان پارک کے حالیہ آپریشن سے چوہدری پرویز الٰہی کی لاتعلقی بھی نوٹ کی گئی ہے۔ بظاہر چوہدری پرویز الٰہی کورونا کا شکار ہونے کی وجہ سے گھر کا کونہ پکڑے بیٹھے ہیں۔ تاہم ان کے اہم ساتھی اور ورکرز بھی، جو کبھی قاف لیگ کا حصہ ہوا کرتے تھے، زمان پارک آپریشن کے موقع پر دور دکھائی دیے۔