طب کی تعلیم میں فنون عامہ کے مضامین بھی شامل کئے جائیں،ماہرین

کراچی: ڈاؤ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز میں دوروزہ بین الاقوامی سمپوزیم 2023 کے اختتامی سیشن سے خطاب کرتے ہوئے ماہرین نے زور دیا ہے کہ طب کی تعلیم کے نصاب میں فنون عامہ کے مضامین بھی شامل کیے جائیں تو نہ صرف طبی تعلیم کی افادیت بڑھے گی بلکہ اس سے طالب علموں کو عملی زندگی میں مریضوں کے مسائل سمجھنے میں مدد ملے گی۔ "بریجنگ دا گیپ بیٹوین فاؤنڈیشنل ایجوکیشن اینڈ ہیلتھ سائنسز پریکٹیسز اینڈ فیوچر ڈائریکشنز” کے عنوان سے منعقدہ بین الاقوامی سمپوزیم کے مہمان خصوصی ہائر ایجوکیشن کمیشن سندھ کے سربراہ پروفیسر طارق رفیع تھے جبکہ مہمان اعزازی وائس چانسلر ڈاؤ یونیورسٹی پروفیسر محمد سعید قریشی کے علاوہ معروف ملکی و غیر ملکی ماہرین نے بھی خطاب کیا۔ جبکہ سمپوزیم کے پہلے روز دس ورکشاپس منعقد ہوئیں جن میں 5 کا انعقاد اوجھا کیمپس اور 5 ڈی ایم سی کیمپس میں منعقد کی گئیں۔

سمپوزیم میں 200 مندوبین نے شرکت کی اور مختلف جامعات کے طلبا کے بنائے گئے پوسٹرز کی نمائش بھی منعقد کی گئی۔ مہمان خصوصی پروفیسر طارق رفیع نے بین الاقوامی سمپوزیم کے انعقاد پر پروفیسر محمد سعید قریشی اور ڈاؤ یونیورسٹی کی ٹیم کو مبارکباد پیش کی اور کہاکہ انتہائی اہمیت کے حامل موضوع پر یہ بین الاقوامی سمپوزیم وقت کی اہم ضرورت ہے میں نے اپنے مریضوں سے سنا ہے کہ اگر کوئی ڈاکٹر اپنے مریض کی بات غور سے سنے، اس کے ساتھ ہمدردی کرے اور اسے وقت دے تو مریض کی آدھی بیماری خود بہ خود ٹھیک ہوجاتی ہے۔

جب ڈاکٹر اپنے مریض کی بات نہیں سنتا تو مریض مایوسی محسوس کا شکار ہوجاتا ہے۔ اس لیے ایک اچھے ڈاکٹر کو سب سے پہلے ایک اچھا انسان ہونا چاہیے انہوں نے کہاکہ اگر ہم ان کورسز کو اپنے نصاب میں شامل کریں جو مریضوں کے جذبات واحساسات کو سمجھنے پر زور دیتے ہیں، تو منظر نامہ اس سے مختلف ہوگا جو آج ہم اپنے معاشرے میں دیکھتے ہیں، ڈاؤ یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر محمد سعید قریشی نے بین الا قوامی سمپوزیم کی غرض وغایت بیان کرتے ہوئے کہا کہ کا انعقاد کا مقصد میڈیکل طلباء کے لیے فاؤنڈیشن کورسز متعارف کرانے کی سمت ایک قدم ہے۔

انہوں نے شرکا سے مخاطب ہوکر کہاکہ آپ میں سے اکثر نے میڈیکل کی تعلیم حاصل کی ہے دیکھا جائے تو یہ ایک سخت ہنر مندی ہے جو آپ تعلیم کے ساتھ سیکھتے ہیں۔ لیکن اس تعلیم کے لیکن جو آپ حاصل نہیں کرتے وہ نرم مہارتیں اور انسانی مہارتیں ہیں جو مریض کے ساتھ بات چیت اور حال احوال جاننےکے لیے ضروری ہیں۔ اور مریض کے ساتھ صرف طبیعت معلوم کرنے کی بجائے نرمی سے پیش آ نا بھی ضروری ہے پروفیسر سعید قریشی نے کہاکہ سمپوزیم میں شرکت کے لیے ہمارے پاس ویتنام اور انڈونیشیا کے اسکالرز آئے ہیں جو یہاں موجود ہیں اس کے ساتھ ہمارے پاس امریکا اور آسٹریلیا سے بھی آن لائن لوگ موجود ہیں۔ سمپوزیم سے انسٹی آف ہیلتھ اینڈ بزنس مینجمنٹ کے ڈائریکٹر ڈاکٹر سید اظہار حسین نے کہاہے میڈیکل کے طلبا کے نصاب میں ریاضی کو بھی شامل کیا جانا چاہیے اس ضمن انہوں نے دلائل بھی پیش کیے سمپوزیم سے امریکا سے ڈاکٹر سہیل راؤ اور آسٹریلیا سے بھی دیگر ماہرین آن لائن نے پریزنیٹیشن دی جبکہ انڈ ونیشیا کی ڈاکٹر فندیاری نے بھی شرکا سے خطاب کیا ۔۔