نواز طاہر/ خلیل جازم :
لاہور میں پولیس پر حملے کرنے اور اکسانے والے پی ٹی آئی کارکنان و رہنمائوں کیخلاف کریک ڈائون کے پہلے مرحلے کے بعد کارکنوں میں خوف پھیل گیا ہے۔ جبکہ بڑا مرحلہ ابھی شروع ہونے والا ہے۔ جس کی تیاریاں مکمل کرلی گئی ہیں۔ اس کیلیے پولیس کو ’فری ہینڈ‘ بھی دے دیا گیا ہے۔ یہی سبب ہے کہ رہنمائوں سمیت تحریک انصاف کے کارکنوں کی بڑی تعداد وقتی طور پرادھر ادھر ہوگئی ہے۔
تحریکِ انصاف کے جلسہ پر بھی غیر یقینی کے بادل چھائے ہوئے ہیں۔ پی ٹی آئی خود بھی جلسے کے انتظامات میں ناکام رہی ہے اور ضلعی انتظامیہ کی جانب سے بھی تاحال اجازت نہیں دی گئی۔ زمان پارک میں بارش کے باعث بھی سرگرمیاں قدرے ٹھنڈی ہوگئی ہیں۔
ادھر وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں توشہ خانہ کیس میں عمران خان کی مقامی عدالت میں پیشی کے موقع پر جلائو گھیرائو، سرکاری املاک کو نقصان پہنچانے اور پولیس پر پتھرائو کرنے کے الزام میں کریک ڈائوں کرکے ستّر سے زائد افراد کو گرفتار کرکے عدالتوں میں پیش کر دیا گیا ہے۔
پولیس نے سیف سٹی کیمروں اور متعدد ویڈیوز سے ان شرپسندوں کی شناخت کی اور پھر ان کے خلاف کریک ڈائون شروع کیا۔ پولیس کی سینئر قیادت کے مطابق ان پر دہشت گردی کی دفعات لگائی جائیں گی۔ بعض شر پسندوں سے پولیس کے علاوہ دیگر ادارے بھی تفیتش کر رہے ہیں۔ جبکہ تحریک انصاف کے ذرائع کے مطابق پارٹی ان کارکنان کی رہائی کیلیے جلد عدالتوں سے رجوع کرے گی۔
واضح رہے کہ لاہور میں پولیس پر حملوں اور موبال فونز کو جلانے، توڑ پھوڑ اور ایلیٹ فورس کی گاڑی نہر میں پھینکنے سمیت مختلف نئے مقدمات میں پولیس نے اتوار اور پیر کی درمیانی شب کے علاوہ گزشتہ روز علی الصبح بھی پی ٹی آئی کے مختلف رہنمائوں اور کارکنوں کی گرفتاری کیلئے چھاپے مارے۔ کسی رہنما کو پولیس گرفتار نہیں کرسکی۔ البتہ دس سے پندرہ کارکنوں کو حراست میں لیا گیا ہے۔
رات گئے جیسے ہی پی ٹی آئی کی سابق ایم پی اے مسرت جمشید چیمہ اور سینیٹر اعجاز چوہدری نے چھاپوں کے بارے میں سوشل میڈیا پر پیغامات ارسال کیے تو زمان پارک میں بھی پوزیشنیں سنبھال لی گئی تھیں۔ زمان پارک پر چھاپہ پولیس کے شیڈول میں شامل نہیں تھا۔ لیکن اس کے باوجود وہاں سورج غروب ہونے تک بیرون شہروں سے آئے ہوئے کارکنان کیمپوں میں موجود رہے۔
پولیس ذرائع نے بتایا کہ ابھی چھاپوں کی ابتدا کی گئی ہے اور اس میں مزید شدت آنے والی ہے۔ پی ایس ایل کی سیکورٹی کا معاملہ نمٹائے جانے کے بعد پولیس پر ڈیوٹی کا پریشر کم ہوگیا ہے اور زیر التوا مقدمات میں مطلوب پی ٹی آئی کے شر پسندوں کی گرفتاری کیلئے تھانوں اور اسپیشل ٹیموں کو ٹارگٹ دے دیا گیا ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ اب پولیس پر حملہ کرنے والوں کے خلاف باقاعدہ ایکشن لیا جائے گا اور سخت کارروائی ہوگی۔ اس کی تصدیق نگران وزیر اعلیٰ محسن نقوی نے پریس کانفرنس میں واضح اعلان سے بھی کی کہ ’’ریاست کی رٹ قائم کرنا بہت ضروری ہے۔ اگر کوئی اسے چیلنج کرے گا اور پولیس والوں کی طرف ہاتھ بڑھائے گا تو وہ ہاتھ توڑیں گے۔
پولیس دو بار عمران خان کے گیٹ پر پہنچنے کے بعد اس لیے واپس لوٹ گئی کہ میں نے انہیں واپس آنے کا کہا تھا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ آج کے دن تک ہماری یہی کوشش رہی کہ کوئی ایسی چیز نہ ہو جس سے ماحول خراب ہو۔ کینال روڈ کھولنے کے بعد رات کے وقت وہاں سے ایک پولیس اہلکار گزر رہا تھا، جسے تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ اسے لوگوں نے بچایا۔ اس کے بعد وہاں سے ایلیٹ فورس کی کینال پارک سے گزرتی گاڑی پر حملہ کیا گیا اور لوٹ مار کی گئی۔ اس کے بعد ریاست کی رٹ کس طرح قائم رہ سکتی ہے۔ چنانچہ میں نے انسپکٹر جنرل پولیس کوکہہ دیا ہے کہ آج یا کل صبح تک کا وقت طے کرلیں۔ اس کے بعد ریاست کی رٹ قائم کرنے کے لیے انہیں جو کرنا پڑے گا۔ وہ کریں گے۔
میں اپنی پولیس اور ریاست کے ساتھ کھڑا ہوں۔ اب اگر کوئی ایسا اقدام کرے گا تو انہیں ایسا جواب ملے گا کہ پتا چل جائے گا۔ تمام مطلوبہ قانونی اقدمات اٹھائے جائیں گے۔ کسی کا لحاظ نہیں کیا جائے گا۔ گزشتہ پانچ سات روز میں قانون کی خلاف ورزیوں پر جے آئی ٹی بنانے اور تمام غیر سیاسی کارروائیوں کی تفصیلات الیکشن کمیشن کو بھی بھجوائی جارہی ہیں‘‘۔ اس ضمن میں پولیس ذرائع کا کہنا ہے کہ ٹھواس شواہد حاصل ہو چکے ہیں اور فائلیں مکمل کی جا چکی ہیں۔ جو الیکشن کمیشن اور اعلیٰ عدلیہ کو بھی پیش کی جائیں گی اور مزید شواہد فول پروف بنائے جارہے ہیں۔
ذرائع کے مطابق شہر بھر سے سیف سیٹی اتھارٹی کی فوٹیج کو مکمل طور پر مانیٹر کیا جارہا ہے۔ ان کی مدد سے دوسرے شہروں سے آئے ہوئے کارکنوں کی موومنٹ اور ٹیلی فون کالیں بھی مانیٹر کی جارہی ہیں۔ جبکہ سہولت کاروں کی فہرستیں بھی بنا لی گئی ہیں۔ دوسری جانب تا دم تحریر ضلعی انتظامیہ کی جانب سے مینارِ پاکستان کے سبزہ زار پر پی ٹی آئی کو بائیس مارچ کے جلسے کی اجازت دینے کا فیصلہ نہیں کیا جا سکا تھا۔
جبکہ پی ٹی آئی کے ذرائع نے بھی تصدیق کی ہے کہ بائیس مارچ کے جلسے کیلئے تیاریاں نہیں کی جا سکی ہیں۔ امکان ہے کہ تئیس مارچ کو جلسہ کرنے کا پروگرام بنایا جائے۔ ان ذرائع کے مطابق پی ٹی آئی کسی صورت جلسے سے دستبردار نہیں ہونا چاہتی۔ اگر جلسے کی اجازت نہ بھی دی گئی تو اعلان برقرار رہے گا اور جلسہ کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ جس میں انتظامیہ اور پولیس کی رکاوٹوں کا بھر پور مقابلہ کیا جائے گا۔
جلسے کے انتظامات کی ڈیوٹی پر مامور ایک پی ٹی آئی رہنما نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ موسمی حالات نے اگلے چار روز تک مینارِ پاکستان میں جلسہ مشکل بنا دیا ہے۔ کیونکہ بارش کے بعد پورے سبزہ زار میں پانی کھڑا ہوگیا ہے اور مزید بارشوں کا امکان ہے۔ اگر اگلے چوبیس یا اڑتالیس گھنٹوں میں مزید بارش بھی ہو جاتی ہے تو سبزہ زار کے تختے (مختلف لان) کیچڑ بن جائیں گے۔
ادھر وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں موجود معتبر ذرائع نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ جوڈیشل کمپلیکس میں پی ٹی آئی کے کارکنوں کی جانب سے دنگا فساد، سیکورٹی اہلکاروں پر حملہ کرنے، سرکاری املاک سمیت گاڑیوںکو جلانے اور متعدد دیگر گاڑیوں کی توڑ پھوڑ سے کروڑوں روپے کا جانی اور مالی نقصان ہوا ہے۔ پولیس نے متعدد حملہ آوروں کو گرفتار کیا ہے۔ لیکن کسی کو بھی ماورائے عدالت گرفتار نہیں کیا گیا۔ ان کے خلاف باقاعدہ ایف آئی آر درج کی گئی ہے اور انہیں عدالتوں میں پیش کیا گیا ہے۔
پولیس نے سیف سٹی کیمروں اور دیگر کیمروں کی فوٹیج کے ریکارڈ مکمل کرکے ان لوگوں کی شناخت کی ہے اور انہیں کریک ڈائون کرکے گرفتارکیا گیا ہے۔ ابھی بھی متعدد ملزمان مفرور ہیں اور پولیس ان کیلئے چھاپے مار رہی ہے۔ امید ہے کہ ان شر پسندوں کو جلد گرفتارکرلیا جائے گا۔ ان شر پسندوں نے جوڈیشل کمپلیکس میں تعینات قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں پر چاروں طرف سے حملے کیے۔ یہ لوگ نہ صرف املاک کو نقصان پہنچانے میں ملوث تھے۔ بلکہ انہوں نے کار سرکار میں مداخلت کی اور پولیس پر حملے کیے۔ جس سے ساٹھ کے قریب پولیس اہلکار زخمی ہوئے۔ جو اسپتالوں میں زیر علاج ہیں۔ ان میں شدید زخمی پولیس اہلکار بھی شامل ہیں۔
وفاقی پولیس ان میں سے بعض گرفتار شدگان جو گاڑیوں کو آگ لگانے اور پولیس پر آنسو گیس سمیت پتھرائو میں ملوث تھے۔ ان کے خلاف دہشت گردی کے پرچے درج کرے گی اور انہیں سخت سے سخت سزائوں کی عدالت سے سفارش کرے گی۔ تاکہ آئندہ وفاقی دارالحکومت میں کسی کو اس طرح کی کارروائی کی ہمت نہ ہو۔ وفاقی پولیس کی سینئر قیادت نے طے کیا ہے کہ مختلف فوٹیج سے ان لوگوں کی شناخت کے بعد کریک ڈائون جاری رکھا جائے گا۔ جن شر پسندوں نے پٹرول بم پھینکے اور پولیس پر آنسو گیس کی شیلنگ کی۔ بطور خاص ان پر دہشت گردی کے پرچے کاٹے جائیں گے۔
فی الحال شناخت افراد میں سے دو درجن لوگ ابھی گرفتار نہیں ہوسکے۔ ان کا تعلق پنجاب اور خیبرپختون کے مختلف علاقوں سے ہے۔ اس کے لیے وفاقی پولیس نے دونوں صوبوں کی انتظامیہ سے رابطہ کرلیا ہے اور دونوں صوبوں میں پولیس ٹیموں کو روانہ کردیا گیا ہے۔ بہت جلد یہ شر پسند قانون کی گرفت میں ہوں گے۔ دوسری جانب تحریک انصاف کے ذرائع کا کہنا ہے کہ پولیس نے اسلام آباد میں جگہ جگہ رکاوٹیں کھڑی کرکے راستے بند کردئیے تھے۔ کارکنان اپنے لیڈر کے ہمراہ اظہار یکجہتی کے لیے آنا چاہتے تھے۔ لیکن پولیس نے چیئرمین عمران خان کی عدالت پیشی کے موقع پر پی ٹی آئی کارکنان کو روکا اور ان پر تشدد کیا۔ کارکنان نے بھاگ کر اپنی جانیں بچائیں۔
ایک سوال پر ان ذرائع کا کہنا تھا کہ جن لوگوں نے پولیس پر حملے کیے اور املاک کو نقصان پہنچایا، ان کا تعلق پی ٹی آئی سے نہیں۔ پی ٹی آئی کے بے گناہ کارکنان کو پکڑا گیا اور انہیں مختلف سیف ہائوسز میں رکھا گیا ہے۔ جہاں ان پر تشدد کیا گیا اور ان سے اپنے مطلب کی ویڈیوز بنوائی گئیں۔ سینٹر شبلی فراز کو پہلے پولیس نے تشدد کا نشانہ بنایا۔ اس کے بعد ان کے گھر پر رات گئے سی ٹی ڈی میں درج پرچے کی بنیاد پر چھاپا مارا گیا۔
پی ٹی آئی کے سینئر رہنمائوں خرم نواز، اظہر جاوید گجر اور علی نواز اعون کے گھروں پر بھی چھاپے مارے گئے اور توڑ پھوڑ کی گئی۔ اسی طرح امجد خان اور علی امین گنڈا پور پر بھی تشددکیا گیا۔ حالانکہ یہ پارلیمانی رہنما رہ چکے ہیں اورکسی قسم کے ہنگاموں میں شامل نہیں تھے۔