سجاد عباسی
شام کے کوئی سوا چھ بجے ہم سینٹ پیٹرز برگ پہنچے۔ اسٹیشن پر بیک وقت کئی ٹرینیں موجود تھیں۔ کسی پر مسافر سوار ہو رہے تھے تو کوئی مسافروں کو اتار رہی تھی۔ ان میں ہم پاکستانیوں کے علاوہ کئی ایشیائی اور یورپی باشندے بھی شامل تھے اور خود روسی بھی۔ مگر ان سب میں تعداد کے اعتبار سے سب سے نمایاں مخلوق ہمیں چینی باشندے ہی نظر آئے۔ جو ٹولیوں کی شکل میں منظم انداز میں اپنے قومی پرچم کے ساتھ چلے جا رہے تھے۔ بعد ازاں ہم نے اس پر تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ روس کا سفر کرنے والے غیر ملکی سیاحوں میں سب سے زیادہ کا تعلق چین ہی سے ہے۔ روس آنے والوں میں دوسرے نمبر پر جرمن اور تیسرے نمبر پر امریکی شہری ہیں۔ جبکہ برطانیہ، فرانس، اسپین، فن لینڈ، بھارت اور ایران سے بھی بڑی تعداد میں سیاح روس آتے ہیں۔ اس معاملے کا دوسرا پہلو بڑا دلچسپ ہے۔ روسی وزارت ثقافت کے اعداد و شمار کے مطابق حالیہ برسوں میں غیر ملکی سفر کرنے والے روسی باشندوں کی تعداد20 فیصد کم ہوگئی ہے۔ اس کا ایک بڑا اور اہم سبب تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ خود روس کے اندر اتنی بڑی تعداد میں تفریحی اور صحت افزا مقامات موجود ہیں کہ روسیوں کو کہیں باہر جانے کی حاجت پیش نہیں آتی۔ آپ سینٹ پیٹرز برگ ہی کو لے لیں۔ جو ایک طرف قدرتی حسن سے مالا مال ہے تو دوسری جانب فن تعمیر کے درجہ کمال نے اس شہر کی خوبصورتی کو چار چاند لگا دیئے ہیں اور اس کا حُسن دیکھنے والے کو مبہوت کر دیتا ہے۔
سینٹ پیٹرز برگ کا شمار دنیا کے خوبصورت ترین ساحلی شہروں میں ہوتا ہے۔ جبکہ یہ روس کا جدید ترین شہر ہونے کے ساتھ ساتھ اس کا ثقافتی دارالحکومت بھی ہے۔ یہاں تاریخی عمارات قدم قدم پر موجود ہیں، جن کے در و دیوار صدیوں کی بے شمار کہی اور ان کہی داستانوں کے امین
ہیں۔ اقوام متحدہ کے ادارے یونیسکو نے ان عمارتوں اور محلات کو عالمی ثقافتی ورثہ قرار دے رکھا ہے۔ جسے دیکھنے کے لیے سیاح دنیا کے کونے کونے سے یہاں آتے ہیں۔ دنیا کے عظیم عجائب گھروں میں سے ایک ہرمٹیج میوزیم (Hermitage museum ) بھی سینٹ پیٹرز برگ کے حصے میں آیا ہے۔ جبکہ زار بادشاہ پیٹر دی گریٹ اور ملکہ کیتھرین کے سرمائی اور گرمائی محل (Winter and summer palace ) بھی یہاں موجود ہیں، جنہیں دیکھنے کے لیے سیاحوں کے ٹھٹھ کے ٹھٹھ لگے رہتے ہیں۔ ماسکو کے بعد یہ روس کا دوسرا بڑا شہر ہے، جس کی آبادی 70 لاکھ سے زائد بتائی جاتی ہے۔ سینٹ پیٹرز برگ کم و بیش دو سو برس کے طویل عرصے تک سلطنت روس کا دارالحکومت اور کئی بادشاہوں کا مسکن رہا ہے۔ 1723ء سے 1728ء تک اور پھر 1732ء سے 1918ء تک اسے دارالحکومت کی حیثیت حاصل رہی۔ جس کے بعد لینن نے دارالحکومت ماسکو منتقل کر دیا۔ اپنی تاریخی اہمیت کے پیش نظر اسے فیڈرل سبجیکٹ یا وفاقی شہر کا درجہ حاصل ہے۔
یہ دریائے نیوا (NEVA) کے کنارے اور خلیج اور فن لینڈ کے ہیڈ وے پر واقع ہے۔ 1703ء میں زار حکمران پیٹر دی گریٹ نے اس شہر کی بنیاد رکھی اور اس کا نام بدل کر پیٹروگراڈ رکھ دیا۔ یعنی اس خوبصورت شہر کو خود سے منسوب کر دیا۔ اس کا سبب یہ تھا کہ روسیوں کے خیال میں اگرچہ اس کا نام تو انگریزی میں تھا، مگر ’’جرمن جرمن‘‘ سا لگتا تھا۔ اور ظاہر ہے انہیں اپنے شہر پر بدترین دشمن کی زبان کا سایہ بھی کیسے قبول ہوتا۔ پھر یوں ہوا کہ کمیونزم کے بانی لینن کی حکومت آئی تو 1924ء میں اس کا نام لینن گراڈ کر دیا گیا۔ یہ نام کئی دہائیوں تک چلتا رہا تاوقتیکہ 1991ء میں اس شہر نے سینٹ پیٹرز برگ کے نام سے اپنی شناخت دوبارہ حاصل کرلی۔ جب ہم سینٹ پیٹرز برگ پہنچے تو شام کے سائے گہرے ہوچکے تھے اور شہر کے اس کمرشل علاقے میں ہر طرف خوبصورت اور باوقار عمارتیں روشنی میں نہانے لگی تھیں۔ سورج کی غروب ہوتی کرنوں کے ساتھ مل کر یہ روشنی ایک عجب سماں پیدا کر رہی تھی۔ دراصل رنگ و نور میں نہائی ہوئی عمارتیں روس کا خاصا ہیں، جو رات میں دن کا سماں پیدا کر دیتی ہیں۔ ہمیں بتایا گیا کہ تمام سرکاری اور غیر سرکاری عمارتوں پر چراغاں سرکاری خرچ پر ہی ہوتا ہے اور اس پر کسی عام شہری یا تاجر کی ایک پائی بھی خرچ نہیں ہوتی۔ یومیہ بنیادوں پر ایسا صرف شہروں کا حسن بڑھانے اور سیاحوں کے لیے اس کی دلکشی میں اضافے کے لیے کیا جاتا ہے۔
ماسکو میں دریائے مواسکا کے دونوں کناروں پر بر لب سڑک ایستادہ روشن عمارتوں کا عکس جب دریا کے پانی پر پڑتا ہے تو دیکھنے والا سانس روکنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ یہی معاملہ سینٹ پیٹرز برگ کا ہے، جو خوبصورتی میں اپنی مثال آپ ہے۔ سبزے میں گھری کشادہ سڑکوں کے اطراف کھڑی پُر وقار عمارتیں۔ سر سبز باغات اور ان گنت محلات آپ کو اپنے جادوئی حسن میں جکڑ لیتے ہیں۔ سینٹ پیٹرز برگ کو محلات کا شہر کیوں کہا جاتا ہے؟ اس کے دو اسباب ہیں۔ ایک تو یہی کہ یہ بادشاہوں کا مسکن رہا ہے، جس کے محلات دیکھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔ دوسرے یہاں عام عمارتیں بھی چاہے وہ تجارتی ہوں یا رہائشی، ان کی تعمیر محلات کے طرز پر ہی ہوئی ہے اور ان کا حسن مکینوں کے تعمیری ذوق کا آئینہ دار ہے۔ اسٹیشن سے باہر نکل کر ہم چوراہے پر پہنچے تو نئے ماڈل کی خوبصورت الیکٹرک بسیں نظر آئیں، جو بڑی فرماں برداری سے ہائی ٹینشن تاروں کے نیچے سے چل رہی تھیں۔ یہ بسیں ماحول دوست ہیں۔ جو نہ تو دھواں چھوڑتی ہیں اور نہ کسی قسم کی صوتی آلودگی کا باعث بنتی ہیں۔ روس میں بالعموم اور ماسکو اور سینٹ پیٹرز برگ میں بالخصوص ماحول کو شفاف اور آلودگی سے پاک رکھنے کیلئے ہر سطح پر خاص خیال رکھا جاتا ہے۔ البتہ اس ماحول دوستی کے درمیان روسیوں کی ماحول دشمنی کی ایک عادت نے ہمیں حیران بھی کیا اور پریشان بھی۔ وہاں سگریٹ نوشی کی وبا اس قدر پھیل چکی ہے کہ عمر اور جنس کا امتیاز مٹ جاتا ہے۔ آپ کو ہر عمر کے مرد و زن اور ٹین ایجر لڑکے لڑکیاں بھی آزادانہ اور بے باکانہ انداز میں پبلک مقامات پر سگریٹ پیتے اور ان کے ٹوٹے سڑکوں پر پھینکتے نظر آئیں گے اور کوئی اس کا برا بھی نہیں مانتا۔ دوسری طرف جیسا کہ ہم نے بتایا کہ کسی قسم کا کچرا تو درکنار سڑکوں اور گلیوں میں ایک تنکا بھی دکھائی نہیں دیتا۔ روسیوں کی یہ عادت بد ہمارے بعض اسموکر پاکستانی بھائیوں کو پسند آئی کہ وہ کہیں بھی سگریٹ پی کر اس کا ٹوٹا ہوا میں اچھال سکتے ہیں۔دیار گیر میں یوں وطن عزیز کی "قربت” اجنبیت کی دیوار گرا دیتی ہے۔ اس عادت کے سنجیدہ پہلو پر ہم نے کچھ لوگوں سے بات کی تو بتایا گیا کہ شراب نوشی تو وہاں معمول کی بات ہے ہی، مگر تمباکو نوشی کی عادت بھی قریب قریب اسی درجے پر پہنچ چکی ہے۔ اور شاید یہی وجہ ہے کہ روس میں اوسط عمر تیزی سے کم ہو رہی ہے۔ تجارتی چوک پر جدید طرز کی کوسٹر وفد کی منتظر تھی۔ درجۂ حرارت شام کے وقت 15 ڈگری سینٹی گریڈ تک گر چکا تھا۔ جو ظاہر ہے ہمارے لیے خاصا سرد تھا۔ سو گاڑی میں بیٹھ کر ہماری جان میں جان آئی اور تقریباً نصف گھنٹے کے سفر کے بعد ہم کورٹ یارڈ پر واقع میریٹ ہوٹل پہنچے۔ یہاں بھی فریش ہوکر لابی میں واپس آنے کے لیے ہمیں ڈیڑھ گھنٹے کا وقت ملا تھا۔ جس کے بعد سینٹ پیٹرز برگ میں پاکستان کے اعزازی قونصل جنرل عبدالرؤف رند کی جانب سے وفد کے اعزاز میں دیئے جانے والے عشائیے میں شرکت کے لیے روانہ ہونا تھا۔ (جاری)