امت رپورٹ
پیپلز پارٹی کے اہم رہنما اور آصف زرداری کے قریبی ساتھی لطیف کھوسہ کو نواز شریف کے بغض میں اتحادی حکومت کی پالیسیوں پر بے جا تنقید کی سزا ملی ہے۔ لطیف کھوسہ کی نون لیگ سے مخاصمت کا آغاز پونے دو برس پہلے سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے الیکشن کے موقع پر ہوا تھا، جس میں وقت گزرنے کے ساتھ شدت آتی رہی۔
واضح رہے کہ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی ہدایت پر لطیف کھوسہ کو پارٹی کے لیگل ونگ کی صدارت سے ہٹادیا گیا ہے۔ ان کی جگہ پیپلز پارٹی کے سیکریٹری جنرل سید نیر حسین بخاری کو اس عہدے کا اضافی چارج دیا گیا ہے۔ پیپلز پارٹی چیئرمین سیکریٹریٹ کی جانب سے پولیٹیکل سیکریٹری جمیل سومرو کے ذریعے نوٹیفکیشن جاری کیا گیا۔ بتایا جاتا ہے کہ پیپلز پارٹی کی قیادت لطیف کھوسہ کے حالیہ انٹرویوز اور ان کی جانب سے اتحادی حکومت بالخصوص عدالتی معاملات کے حوالے سے نون لیگ پر تنقید سے خوش نہیں تھی۔
اس معاملے سے آگاہ ذرائع نے بتایا کہ نون لیگ کی طرف سے بھی لطیف کھوسہ کی تنقید کی طرف پارٹی چیئرمین بلاول بھٹو اور شریک چیئرمین آصف علی زرداری کی توجہ مبذول کرائی گئی تھی۔ خاص طور پر جب سے نون لیگ کی زیر قیادت اتحادی حکومت نے چیف جسٹس پاکستان کے اختیارات کم کرنے سے متعلق پریکٹس اینڈ پروسیجر بل پیش کیا ہے، لطیف کھوسہ اس حکومتی اقدام پر مسلسل کڑی تنقید کر رہے ہیں اور وہ اس معاملے میں تحریک انصاف کے ہمنوا دکھائی دیتے ہیں۔ حالانکہ پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں سے منظور اس بل کی حمایت کرنے والوں میں خود ان کی پارٹی پی پی پی شامل ہے۔
ذرائع کے مطابق بالواسطہ اور بلا واسطہ پیغامات کے باوجود لطیف کھوسہ کے رویے میں تبدیلی نہ آنے پر آخرکار انہیں پارٹی کے اہم عہدے سے الگ کرنے کا حتمی فیصلہ کیا گیا۔ اگر اس پر لطیف کھوسہ کا سخت ردعمل آتا ہے تو مزید کارروائی خارج از امکان نہیں۔ اس سے قبل پیپلز پارٹی کے ایک اور اہم رہنما اعتزاز احسن کے اسی رویے پر پارٹی کے اندر سے انہیں نکال باہر کرنے کی آوازیں اٹھ چکی ہیں۔ نون لیگ سے اعترزاز احسن کی مخاصمت کا قصہ بیان کرنے سے پہلے یہ بتاتے چلیں کہ آخر لطیف کھوسہ کو نون لیگ سے ایسا کیا بغض ہے کہ انہوں نے پارٹی پالیسی کی ریڈ لائن بھی عبور کرنے سے گریز نہیں کیا۔
نواز شریف سے لطیف کھوسہ کی مخاصمت کا آغاز قریباً پونے دو برس پہلے اس وقت ہوا تھا جب نون لیگ کی سپورٹ کے سبب سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے الیکشن دو ہزار اکیس، بائیس میں انہیں اپنے شاگرد کے ہاتھوں توہین آمیز شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ عاصمہ جہانگیر کے امیدوار احسن بھون نے لطیف کھوسہ کو چھ سو سے زائد ووٹوں کے فرق سے شکست دی تھی۔ جسے گزشتہ دہائی کی سب سے بڑی فتح قرار دیا گیا تھا۔
واقفان حال کے بقول لطیف کھوسہ کے لئے یہ بڑی سبکی کی بات تھی کہ وکالت کے شعبے میں اپنے طالب علم احسن بھون کے ہاتھوں انہیں اتنے بڑے مارجن سے ہار ہوئی۔ جبکہ زیادہ غصہ اس بات کا تھا کہ اس شکست میں نون لیگ کا ہاتھ تھا۔ لطیف کھوسہ پی ٹی آئی کے حامی حامد خان گروپ کے امیدوار تھے۔ احسن بھون اور لطیف کھوسہ، دونوں کا تعلق اگرچہ پیپلز پارٹی سے تھا۔ لیکن پیپلز پارٹی کی قیادت نے اپنی پارٹی کے وکلا کو لطیف کھوسہ کو ووٹ دینے کی ہدایت کی تھی۔ کیونکہ لطیف کھوسہ آصف زرداری کے بہت قریب سمجھے جاتے تھے۔ اس کے باوجود کھوسہ کو شکست ہوئی کہ نون لیگی وکلا کے اکثریتی ووٹوں نے احسن بھون کی کامیابی میں کلیدی کردار ادا کیا۔ لطیف کھوسہ اب تک اس شکست کا غم نہیں بھلا سکے ہیں اور آج بھی وہ اس ناکامی کا سبب نون لیگ کو سمجھتے ہیں۔ لہٰذا نون لیگ کی مخالفت میں کسی موقع کو خالی نہیں جانے دیتے۔
پیپلز پارٹی کے ایک اور سینئر رہنما اعتزاز احسن بھی مخاصمتِ نون لیگ کے سبب پارٹی میں کھڈے لائن لگے ہوئے ہیں۔ اس بڑھاپے میں انہیں پارٹی سے نکالنے کی آوازیں پارٹی کے اندر سے اٹھی تھیں۔ موصوف کو نون لیگ سے شکایت ہے کہ اس نے ان کے صدر بننے کی خواہش پر پانی پھیر دیا تھا۔
قصہ اس اجمال کا یہ ہے کہ دو ہزار اٹھارہ کے انتخابات کے نتائج کے بعد جب ملک کے صدر کے چنائو کا مرحلہ آیا تو نون لیگ، پیپلز پارٹی، جمعیت علمائے اسلام اور عوامی نیشنل پارٹی سمیت دیگر پارٹیوں پر مشتمل اس وقت کے گرینڈ اپوزیشن الائنس کی کوشش تھی کہ پی ٹی آئی کے صدارتی امیدوار عارف علوی کے مقابلے پر مشترکہ امیدوار میدان میں اتارا جائے۔ تاکہ ٹکر کا مقابلہ ہوسکے۔ تاہم عین وقت پر اتفاق رائے نہ ہوسکا۔ اس کا بنیادی سبب پیپلز پارٹی کی جانب سے اعتزاز احسن کی بطور صدارتی امیدوار نامزدگی تھی۔ جس پر اپوزیشن کی سب سے بڑی پارٹی نون لیگ کے ورکرز مشتعل ہوگئے۔
نون لیگ کا دعویٰ تھا کہ پیپلز پارٹی نے اعتزاز احسن کو بطور صدر نامزد کرنے سے قبل دیگر اپوزیشن پارٹیوں سے مشاورت نہیں کی تھی۔ اور یہ کہ نون لیگ کی قیادت اور کارکنوں کو اعتزاز احسن کی نامزدگی پر شدید تحفظات تھے۔ یہ کارکنان اعتزاز احسن کی جانب سے نواز شریف کی اہلیہ کلثوم نواز کی بیماری کے حوالے سے ان کے غیر مہذب ریمارکس پر برہم تھے۔
نون لیگی رہنما پرویز رشید کا یہ بیان بھی سامنے آیا تھا کہ اعتزاز احسن اس معاملے پر نواز شریف سے معافی مانگیں۔ قصہ مختصر، گرینڈ اپوزیشن الائنس کے مابین مشترکہ صدارتی امیدوار پر اتفاق رائے نہیں ہوسکا۔ یوں پیپلز پارٹی کی جانب سے اعتزاز احسن، جبکہ نون لیگ، متحدہ مجلس عمل، عوامی نیشنل پارٹی، پختونخوا ملی عوامی پارٹی اور نیشنل پارٹی کے امیدوار کے طور پر جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کو صدارتی امیدوار نامزد کیا گیا تھا۔ اپوزیشن میں پڑنے والی اس پھوٹ کا براہ راست فائدہ پی ٹی آئی کے صدارتی امیدوار عارف علوی کو ہوا۔ چار ستمبر دو ہزار اٹھارہ کو ہونے والے صدارتی انتخابات میں عارف علوی تین سو ترپن ووٹ لے کر کامیاب ہوگئے۔
نون لیگی امیدوار مولانا فضل الرحمن کو ایک سو پچاسی اور پیپلز پارٹی کے امیدوار اعتزاز احسن کو ایک سو چوبیس ووٹ ملے تھے۔ اگر گرینڈ اپوزیشن الائنس کے دونوں امیدواروں کے ووٹوں کو بھی یکجا کرلیا جائے تو یہ تعداد تین سو نو بنتی تھی۔ لیکن یہ امکان ضرور تھا کہ مشترکہ امیدوار کی صورت میں بہت سے ووٹ ٹوٹ کر اپوزیشن کے امیدوار کو مل سکتے تھے۔
اس معاملے سے آگاہ ذرائع کے بقول چوہدری نثار سے چپقلش کے سبب نون لیگ سے چلنے والی پرانی مخاصمت اور پھر صدارتی معرکے کے بعد نون لیگ کے ساتھ اعتزاز احسن کی ’’دشمنی‘‘ مزید بڑھ گئی، جو آج بھی برقرار ہے۔ حتیٰ کہ نون لیگ کے معاملے پر اعتزاز احسن کے بیانات نہ صرف اپنی پارٹی پالیسی سے برعکس ہوتے ہیں۔ بلکہ عمران خان کی ترجمانی دکھائی دیتے ہیں۔ اس رویے پر برہم ہوکر گزشتہ برس پیپلز پارٹی کے پنجاب چیپٹر نے دھمکی دی تھی کہ اگر اعتزاز احسن کو پارٹی کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی سے فوری طور پر نہیں ہٹایا گیا اور ان کی رکنیت معطل نہیں کی گئی تو ان کی رہائش گاہ کا گھیرائو کیا جائے گا۔ اس کے باوجود اعتزاز احسن کی جانب سے نون لیگی حکومت کی مخالفت میں بیانات کا سلسلہ جاری ہے۔ ذرائع کے بقول اس صورت میں ان کی پارٹی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کی رکنیت پر بھی مسلسل تلوار لٹک رہی ہے۔