احمد خلیل جازم/ محمد قاسم :
پی ٹی آئی سربراہ اور ان کی تیسری اہلیہ بشریٰ بی بی کے نکاح خواں مفتی سعید نے عدالت کے روبرو اپنے حلفیہ بیان میں انکشاف کیا ہے کہ یہ نکاح بشریٰ بی بی کی عدت کے دوران پڑھایا گیا تھا۔ اس کی وجہ بیان کرتے ہوئے مفتی سعید نے یہ انکشاف بھی کیا کہ یہ غیر شرعی عمل اس لیے کیا گیا کہ بقول بشریٰ بی بی کے، ایسا عمران خان کے وزیر اعظم بننے کے لیے ضروری تھا۔
شریعت کی رو سے اس نکاح کے بارے میں علمائے کرام سے موقف معلوم کیا گیا تو مفیانِ کرام اور علما کا کہنا تھا کہ دورانِ عدت نکاح سراسر حرام ہے اور جانتے بوجھتے یہ عمل کرنے والے شریعت کی رو سے گناہ کبیرہ اور حرام کاری کے مرتکب ہوئے ہیں۔
اس ضمن میں ’’امت‘‘ سے بات کرتے ہوئے اسلام نظریاتی کونسل کے چیف ریسرچ آفیسر مفتی غلام ماجد نے کہا کہ ’’اسلامی معاشر ے میں اگر کوئی مرد یا عورت عدت کے دوران یہ عمل سرانجام دیتے ہیں کہ وہ آپس میں نکاح کرلیں تو یہ گناہ کبیرہ اور حرام کاری میں شمار ہوگا۔ اور اگر کوئی جان بوجھ کر یہ عمل کرے گا کہ عدت ہے اور نکاح کر رہا ہے تو بعض فقہا نے کہا کہ اس پر حد زنا جاری ہوگی۔
اگر معلوم نہ ہو تو پھر شبہ کی صورت میں حد نہیں ہوگی لیکن بہرحال گناہ پھر بھی ہے۔ اس صورت میں عدت مکمل ہونے کے بعد دوبارہ نکاح لازم ہوتا ہے۔ مختصر یہ کہ دوران عدت نکاح کی کوئی شرعی حیثیت نہیں۔ یہ گناہ اور حرام ہے۔ قرآن میں واضح طور پر اس پر حکم فرما دیا کہ ’جب تک عدت ختم نہیں ہوتی، نکاح کا عزم بھی نہ کرو‘۔ یعنی دوران عدت نکاح کا ارادہ بھی نہ کرو۔ جسے ہم عربی میں کہتے ہیں خِطبہ۔ یعنی پیغام نکاح بھی ناجائز قرار دیا گیا ہے۔ جو مفتی یا مولانا جان بوجھ کر اس عمل میں شامل ہوں گے تو وہ اس گناہ میں شامل ہیں۔ اگر وہ کہہ دیں کہ میں نے گواہی لی تھی کہ عدت پوری ہوگئی ہے تو وہ اس عمل سے مبرا ہوگا۔ اس کے معاشرے پر اثرات یہ پڑیں گے کہ آپ کسی قرآنی حکم کی خلاف ورزی کرتے ہیں تو معاشرہ تباہی کی طرف جائے گا۔ رب کے حکم سے کسی کو اختلاف کرنا تباہی ہے۔ اگر کسی بڑی شخصیت سے یہ عمل سرزد ہوتا ہے تو وہ جتنے قد کاٹھ کا بندہ ہوگا۔ اس کا عمل اور رویہ بھی اتنا ہی زیادہ اثر انداز ہوگا اور اس کے نقصانات بھی اتنے ہی زیادہ ہوںگے‘‘۔
اس حوالے سے جماعت اسلامی کے ممبر قومی اسمبلی مولانا عبدالاکبر چترالی کا کہنا ہے کہ ’’قرآن مجید میں صاف کہا گیا ہے کہ عدت کے دوران پیغام نکاح بھی ناجائز اور ممنوع ہے۔ چہ جائیکہ نکاح کرلیں۔ اس وجہ سے یہ نکاح فاسق اور باطل ہے اور بہت بڑا گناہ ہے۔ اس کے لیے اسلام میں سزا مقرر نہیں ہے۔ لیکن قاضی کی منشا پر ہے کہ وہ اس پر کیا سزا مقرر کرتا ہے۔ کیونکہ قاضی حالات دیکھ کر ہی فیصلہ کرسکتا ہے۔ وہ انہیں تعزیری طور پر بالکل سزا دے سکتے ہیں۔ کیونکہ اس گناہ کو معاشرے سے ختم تو کرنا ہے۔ تو بہتر طریقہ یہی ہے کہ قاضی اس کے لیے سزا مقرر کرسکتا ہے۔ اگر مرد کو معلوم نہ ہو کہ خاتون عدت میں ہے۔ لیکن اگر پتہ ہونے کے باوجود وہ اس عمل میں شریک ہے تو یہ نکاح فاسق ہے۔ جو تعلقات اس حوالے سے قائم ہوں گے وہ ناجائز ہی گردانے جائیں گے۔
اگر کوئی عالم دین معلوم ہونے کے باوجود عدت کے دوران نکاح پڑھاتا ہے تو اسے بھی سزا دی جاسکتی ہے۔ اگر ایسا عمل کسی بڑی شخصیت سے سرزد ہوتا ہے جو عالم ہے یا امت کا حکمران یا لیڈر ہے تو اس کی مثال سفید کپڑوں کی ہے۔ اس میں معمولی سا داغ بھی لگ جائے تو وہ دور سے دکھائی دیتا ہے۔ اگر کوئی بڑی شخصیت یہ عمل کرے تو معاشرے کے دیگر لوگ اسے جائز سمجھ سکتے ہیں کہ ہمارے لیڈر نے یہ کام کر دیا تو شاید یہ جائز ہوگا۔ اسی لیے بڑے لوگوں کا چھوٹا کام بھی عام لوگوں کی نگاہ میں آجاتا ہے۔ بڑے لوگوں کو تو ایسے کاموں سے زیادہ بچنے کی ضرورت ہے۔ تاکہ ان کی تقلید کرنے والے ایسے گناہوں سے بچ سکیں۔ اللہ نے عدت کیوں مقرر کی ہے۔ اس لیے کہ اگر وہ حاملہ ہے تو چالیس دنوں بعد معلوم ہو سکتا ہے کہ وہ پیریڈ نہ ہونے کی صورت میں حاملہ قرار دی جاسکتی ہے۔ اس لیے بچے کی ولدیت مشکوک نہ ہو عدت اسی لیے مقرر کی گئی ہے‘‘۔
مفتی تنویر الحسن نے بڑی وضاحت کے ساتھ ’’امت‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ’’دوران عدت نکاح جائز ہے اور نہ ہی نکاح کی طرف رغبت جائز ہے۔ دونوں کی ممانعت ہے۔ عدت کے بعد پیغام نکاح بھیجا جاسکتا ہے اور نکاح کیا جا سکتا ہے۔ دوران عدت نکاح نہیں ہوتا۔ یہ گناہ کبیرہ شمار ہوگا۔ قرآن کہتا ہے کہ ’جو اللہ کی حدود سے تجاوز کرتا ہے، وہ اپنے آپنے آپ کے اور اپنے نفس کے ساتھ ظلم کرتا ہے‘۔ اس نکاح پر سزا کا کوئی حکم اسلام میں نہیں ہے۔ لیکن توبہ و استغفار گناہ کبیرہ کے لیے لازم ہے۔ شرعی حدود کی حیثیت کیا ہے۔
قرآن کہتا ہے کہ ’چوری کرنے والے کے ہاتھ کاٹے جائیں‘۔ اب ہاتھ کاٹے جانے کی کیفیت کیا ہے۔ یہ ہمیں حدیث رسول اللہ ﷺ یا آثار صحابہ کرامؓ سے ملے گی۔ یعنی ان کے فیصلوں سے ملے گی۔ ان فیصلوں میں سیدنا علیؓ کے جو فیصلے ہیں۔ وہاں ایسے بہت سارے فیصلے موجود ہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ قرآن میں ہر گناہ کا قصاص ہے۔ یعنی قتل کا بدلہ قتل ہے۔ لیکن شریعت نے تین رخ اپنائے ہیں۔ قتل کا بدلہ قتل بھی ہے۔ لواحقین سے معافی بھی ہے اور قاتل سے قصاص بھی لیا جا سکتا ہے۔ معافی بھی ہوتی ہے تو اس میں بھی دیت واجب ہے۔ ہمارے ہاں یہ رواج پا چکا ہے، فی سبیل اللہ معافی دیدی۔ لیکن دیت معافی کی صورت بھی لازم ہے۔ دیت سو اونٹ یا ان کی قیمت ہے۔
معاشرے میں اگر اس پر کوتاہی ہو رہی ہے تو یہ الگ معاملہ ہے۔ قصاص کا بدلہ قصاص ہے۔ یعنی آزاد کے بدلے آزاد، عورت کے بدلے عورت، اور غلام کے بدلے غلام۔ یہ کیفیات قرآن کریم نے بیان کردی ہیں اور شرعی اقوال صحابہؓ میں بھی موجود ہیں۔ بات کرنے کا مقصد یہ ہے کہ شرعی حدود کا نفاذ وہ قاضی پر مبنی ہے کہ وہ قرآن، سنت، احادیث مبارکہ، اقوال صحابہ و آثار صحابہؓ اور قضا صحابہ کو مدنظر رکھ کر اس پر قانونی اور شرعی فیصلہ کرے گا۔ دوران عدت نکاح جان بوجھ کر کیا ہے تو اس گناہ کا بھی کفارہ قاضی چاہے تو لاگو کر سکتا ہے، اور سزا بھی دے سکتا ہے۔ لیکن گناہ کبیرہ ہونے کی صورت میں توبہ و استغفار ہی شرعی حکم ہے۔ وہ کرنا از حد ضروری ہے۔ یہاں دو باتیں ذہن نشین رکھیے کہ مطلقہ کی عدت اور بیوہ کی عدت کے لیے ٹائم الگ ہے۔
مطلقہ کی تین پیریڈز گزرنے کے بعد عدت پوری ہوگی۔ اور جو بیوہ ہے اس کی چار ماہ دس دن عدت بنتی ہے۔ قرآن کے فیصلے عمر کی قید سے باہر ہیں۔ یہ نہیں ہوسکتا کہ کوئی اسی برس کی عورت ہے، جسے پیریڈز نہیں ہو رہے اور حمل نہیں ٹھہر سکتا تو اس کے لیے رعایت ہے۔ نہیں۔ بلکہ اس پر بھی یہی شرعی حکم نافذ ہوگا چاہے وہ بیوہ ہوئی یا مطلقہ شرعی حکم یہی رہے گا‘‘۔
مفتی عمر گل نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ اہل سنت و الجماعت کا مسلمہ موقف ہے کہ چونکہ اللہ نے عدت کے دوران نکاح کو حرام قرار دیا ہے اور خاص کر طلاق کے بعد تو عدت سے زیادہ دن گزارنے چاہئیں اور احتیاط کرنی چاہیے۔ لیکن عمران خان نے احتیاط نہ کرکے ایک حرام کام انجام دیا ہے۔ اگر عمران خان نے جان بوجھتے ہوئے اور بشریٰ بی بی نے جان بوجھتے ہوئے نکاح کیا ہے تو ان کو ہر حال میں سزا کا سامنا کرنا پڑے گا۔ کیونکہ انہوں نے اسلامی شریعت کی نہ صرف مخالفت کی ہے۔ بلکہ ایک سیاسی پارٹی کے سربراہ کے ناطے عمران خان دوسروں کے لئے رول ماڈل ہیں۔ لہذا ان پر سخت گرفت ہونی چاہیے۔
مولانا عبدالقہار نے کہا کہ تمام اہل حدیث علما کا موقف ہے کہ عدت کے دوران نکاح باطل ہے۔ تاہم اگر عمران خان اور ان کی اہلیہ کو اس بارے میں معلوم نہ تھا تو ان پر سزائوں کا اطلاق نہیں ہو گا اور انہیں معذور تصور کیا جائے گا۔ لیکن اگر عمران خان کو معلوم نہیں تھا تو انہیں سزا یا ان کے خلاف کارروائی نہیں بنتی۔ تاہم بشریٰ بی بی کو ان باتوں کا علم ہو گا۔ لہذا ان کے خلاف تعذیزات کے تحت سزائوں کا اطلاق ہوگا۔ اور اگر دونوں نے جان بوجھ کر یہ کام کیا ہے یا کسی اور مقصد کے تحت کیا ہے تو انہوں نے انتہائی سخت اقدام اٹھایا ہے اور اس سلسلے میں انہیں علمائے کرام سے رجوع کرنا چاہیے۔ صرف ایک اپنے قریبی علما سے یا پارٹی کے علما سے رجوع کرنے کے بجائے انہیں دنیا کے اہم علمائے کرام سے رجوع کرنا چاہیے۔ تاکہ یہ معلوم ہو سکے کہ انہوں نے کس قدر اسلامی شرعی احکامات کی خلاف ورزی کی ہے۔
مفتی انعام اللہ نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ اس حوالے سے اسلامی احکامات روز روشن کی طرح عیاں ہیں۔ اور یہ بھی عیاں ہے کہ اسلام میں تمام حرام کاموں کے سرانجام دینے پر سزائیں موجود ہیں۔ اب یہ سزائیں دینا عوام کا نہیں بلکہ عدالتوں کا کام ہے۔ اگر پاکستانی عدالتیں خلاف شریعت اقدامات پر سزا نہیں دیتیں تو عدالتیں بھی اس میں برابر کی شریک ہوں گی۔ کیونکہ پاکستانی آئین کے مطابق قرآن و سنت کے مطابق قوانین پر عدالتوں کو عملدرآمد کرنا ہے۔
معروف عالم دین مولانا مسعود نے کہا کہ ’’طلاق کے بعد جب تک عدت نہ گزر جائے اس وقت تک اس عورت کا نکاح کسی اور سے جائز نہیں ہے۔ خواہ طلاق دینے سے پہلے شوہر اور بیوی میں طویل عرصے سے ملاقات کی نوبت نہ آئی ہو اور کئی برسوں سے ان کے درمیان اگر رابطہ بھی نہ ہو، ایک دوسرے سے ملنا جلنا بھی نہ ہو تو اس دوران کیا گیا نکاح شرعاً باطل ہوتا ہے۔ اس لئے اگر کسی نے اس دوران عدت، نکاح بھی کیا تو انہوں نے شرعی قوانین کی خلاف ورزی کی ہے۔
عدت کی مدت چار ماہ دس دن کا تعین اسلام نے کیا ہے، جو اللہ کا حکم ہے۔ اس میں حمل ٹھہرنے، حمل ہونے یا نہ ہونے سے زیادہ اللہ تعالیٰ کا معاشرے میں ایک بگاڑ کو روکنا اور خواتین کو اپنے بارے میں فیصلہ کرنے کے لئے زیادہ سے زیادہ وقت دینا بھی مقصود ہے۔ اور عدت کی تکمیل کے بعد نکاح جائز ہو گا۔ عدت سے پہلے نکاح حرام ہے اور بیوی سے علیحدہ ہونا پڑے گا۔ اس حوالے سے مزید کتنے دن نکاح نہیں کیا جاسکتا، یہ بھی علمائے کرام کو معلوم ہے۔ اس حوالے سے عمران خان اور بشریٰ بی بی کو دوسرے نکاح سے قبل علمائے کرام سے رابطہ کرنا چاہیے تھا۔
اس حوالے سے پشاورکے معروف دارالعلوم جامع عثمانیہ کے دارالافتا نے ’’امت‘‘ کو بھیجے گئے مختصر جواب میں کہا کہ ’’عدت کے دوران کسی خاتون کے لئے نکاح جائز نہیں۔ لہذا عدت ختم ہونے سے پہلے کوئی عورت دوسرے شخص سے نکاح کرے تو یہ نکاح منعقد نہیں ہو گا۔ لہذا عمران خان اور بشریٰ بی بی کے درمیان جدائی فوراً لازم ہو گی۔