سجاد عباسی
آزاد کشمیر قانون ساز اسمبلی کے اسپیکرچوہدری انوار الحق نےنصف شب کو وزیراعظم کا تاج اپنے سر سجا کر بڑا سرپرائز دے دیا۔یہ سرپرائز سیاسی مبصرین کے لئے بھی تھا اور وزارت عظمیٰ کی دوڑ میں شامل نصف درجن کے قریب ان سیاسی شخصیات کے لئے بھی جن کے ساتھ” دو چار ہاتھ جب کہ لب بام رہ گئے” والا معاملہ ہو گیا۔ مگر ان سب سے بڑھ کریہ تحریک انصاف کے لئے صدمہ تھا جس سے چوہدری انوارالحق بطور اسپیکر قانون ساز اسمبلی تو تعلق رکھتے تھے ، مگر بطور وزیر اعظم آزاد کشمیر لاتعلق ہوگئے ہیں جس کا اظہار انہوں نے حلف اٹھا نے کے بعد اپنے پہلے خطاب میں بھی کیااور دو ٹوک انداز میں کہا کہ وہ آزاد حیثیت میں اپوزیشن اتحاد یعنی پی ڈی ایم کی مدد سے وزیر اعظم منتخب ہوئے ہیں۔اس کا عملی اظہار وزیراعظم انوارالحق کے ساتھ ساتھ مذکورہ دونوں جماعتوں کے ایک ایک وزیر کی حلف برداری سے بھی ہوتا ہے۔
نصف شب کو ہونے والی اس اچانک پیش رفت پر تحریک انصاف کی قیادت اب تک صدمے سے نہیں نکل سکی۔ البتہ عدالتی توہین پر معزول وزیر اعظم تنویر الیاس نے بطور پی ٹی آئی آزاد کشمیر کے صدر انتخاب سے نہ صرف لاتعلقی کا اعلان کیا ہے بلکہ چوہدری انوارالحق کو "سازشی” بھی قرار دیا ہے۔دوسری طرف اس سے بھی بڑا صدمہ ایوان صدر میں بیٹھ کر فارورڈ بلاک بنانے والے بیرسٹرسلطان کو پہنچا ہے جو اس سارے عمل کے دوران ایک طرف اپنی سیاسی کشتیاں جلا کر تحریک انصاف کے حریف بن کر سامنے آئے تو دوسری جانب اپوزیشن اتحاد کے ساتھ مذاکرات میں سخت ترین شرائط رکھ کر ممکن ہوتے معاہدے کو ناممکن بنا دیا اور اپنا سیاسی مستقبل بھی داؤ پر لگا دیا کیونکہ اب صدر آزاد کشمیر کے خلاف مواخذے کی تحریک کی گونج سنائی دے رہی ہے ۔
واضح رہے کہ بیرسٹرسلطان نے پیپلزپارٹی کے چوہدری یاسین کو وزیراعظم کو قبول کرنے سے صاف انکار کر دیا تھا،حالانکہ انہیں پی ڈی ایم متفقہ امیدوار کے طور پر نامزد کر چکی تھی۔اس کے بجائے وہ چوہدری رشید کو عبوری وزیر اعظم بنانا چاہتے تھے تاکہ چند ماہ بعد ان کی جگہ لے سکیں۔ ذرائع کے مطابق اسی پی ڈی ایم سے انوار الحق کا معاہدہ کرانے میں چوہدری یاسین نے اہم کردار ادا کیا اور اس طرح بیرسٹرسلطان کے فارورڈ بلاک کے بجائے چوہدری انوار الحق کا فارورڈ گروپ پوزیشن کی مدد سے اقتدار میں آ گیا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اس سارے معاملے میں پیپلز پارٹی کی مرکزی قیادت کا خاموش کردار بھی اہم رہا ہے جن سے چوہدری یاسین کے علاوہ فیصل آباد سے تعلق رکھنے والے سیاسی داؤ پیچ کے ماہر چوہدری ریاض بھی ہدایات لیتے رہے ہیں ۔
یہ امر قابل ذکر ہے کہ پیر الیاس کی معزولی کے بعد آزاد کشمیر میں تحریک انصاف بری طرح ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو گئی تھی اور بیک وقت کئی چھوٹے بڑے فارورڈ گروپ کام کر رہے تھے جن میں بیرسٹر سلطان ،چوہدری انوار الحق ،خواجہ فاروق اور تنویر الیاس کے گروپ شامل ہیں۔تاہم آج کی حقیقت یہی ہے کہ چوہدری انوار الحق بڑے بڑے گھاگ سیاستدانوں کو پچھاڑ کر ایوان اقتدار میں پہنچ گئے ہیں۔واضح رہے کہ نو منتخب وزیر اعظم آزاد کشمیر کا تعلق میرپور ڈویژن کے ضلع بھمبر سے ہے۔وہ ایک مضبوط سیاسی اور عسکری خاندانی پس منظر رکھتے ہیں اور آزاد کشمیر کی سیاست میں انہیں ایک سنجیدہ اور معاملہ فہم سیاستدان کے طور پر لیا جاتا ہے۔انوار الحق نے 1996 میں اپنے سیاسی سفر کا آغاز کیا اور کئی بار قانون ساز اسمبلی کے رکن منتخب ہو چکے ہیں۔انہوں نے ابتدائی تعلیم سینٹ میری کانونٹ اسکول راولپنڈی سے حاصل کی ۔اس کے بعد ان کا خاندان لاہور منتقل ہو گیا اور انہوں نے گورنمنٹ کالج لاہور سے گریجویشن کے بعد پنجاب یونیورسٹی لا کالج سے ایل ایل بی کی ڈگری حاصل کی۔1991 میں انوار الحق بار ایٹ لاء کے لیے لندن گئے تاہم والدہ کی طبیعت خراب ہونے پر تعلیمی سلسلہ ادھورا چھوڑ کر واپس آگئے۔
سب کچھ اچانک ہوا؟
آزاد کشمیر قانون ساز اسمبلی کے اسپیکر چوہدری انوارالحق اپوزیشن جماعتوں پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کی حمایت سے 53 رکنی ایوان میں 48 ووٹوں کے ساتھآزادکشمیر کے 15ویں وزیراعظم منتخب ہو گئے ہیں۔
بدھ اور جمعرات کی درمیانی شب ایک بجے کے بعد شروع ہونے والے قانون ساز اسمبلی کے اجلاس میں نئے قائد ایوان کے لیے ووٹنگ کا شیڈول دیا گیا لیکن مقررہ وقت میں ان کے مقابل کسی بھی امیدوار نے کاغذات جمع نہیں کرائے تاہم ضابطے کے مطابق ووٹنگ کے نتیجے میں 53 کے ایوان میں چوہدری انوار الحق کے حق میں 48 ووٹ ڈالے گئے۔ ووٹنگ کے نتائج کا اعلان رات سوا دو بجے کیا گیا۔ووٹنگ کے دوران پانچ ارکان غیرحاضر تھے جن میں مسلم کانفرنس کے سردار عتیق احمد، جموں کشمیر پیپلز پارٹی کے سردار حسن ابراہیم، علی شان سونی اور شاہدہ صغیر شامل ہیں۔ شاہدہ صغیر معزول وزیر اعظم تنویر الیاس کے مرحوم بھائی صغیر چغتائی کی اہلیہ ہیں۔
جموں کشمیر پیپلز پارٹی کے سردار حسن ابراہیم پہلے ہی اس عمل سے لاتعلقی کا اعلان کر چکے تھے جبکہ سردار تنویر الیاس خان 11 اپریل کو عدالت سے نااہل قرار دیے جانے کے بعد اپنی اسمبلی رکنیت سے محروم ہو چکے ہیں۔دوسری طرف چوہدری انوار الحق کے وزیراعظم منتخب ہونے کے بعد سردار تنویر الیاس خان نے ایک بیان میں بطور صدر تحریک انصاف جموں کشمیر اس انتخاب سے لاتعلقی کا اظہار کیا ہے۔پارٹی پوزیشن کے مطابق قانون ساز اسمبلی کی 53 نشستوں میں سے 31 تحریک انصاف، 12 پیپلز پارٹی جبکہ سات نشستیں مسلم لیگ ن کی ہیں۔ مسلم کانفرنس اور جموں کشمیر پیپلز پارٹی کی ایک ایک نشست ہے۔قائد ایوان منتخب ہونے کے لیے 27 ووٹ درکار تھے۔بدھ کو نئے قائد ایوان کے انتخاب کے لیے ووٹنگ کا شیڈول جاری ہونے سے قبل انوار الحق نے سپیکر کے عہدے سے استعفیٰ دیا اور اس کے بعد ان کا نام وزیراعظم کے طور پر دیا گیا۔انوار الحق کا تعلق پاکستان تحریک انصاف سے ہے تاہم جمعرات کو طویل مشاورت کے بعد ان کی قیادت میں بننے والے پی ٹی آئی کے فاروڈ بلاک کے اپوزیشن جماعتوں پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نواز کے ساتھ معاملات طے پا گئے تھے۔
اس کے ساتھ ہی ریاستی دارالحکومت مظفرآباد میں ایک ہفتے تک مسلسل جاری رہنے والی جوڑ توڑ کے بعد بالآخر قائد ایوان کے انتخاب کا مرحلہ طے پا گیا ہے۔پی ٹی آئی کے منحرف اراکین اسمبلی کے فاروڈ بلاک میں چوہدری انوار الحق، اظہر صادق، ماجد خان، اکبر ابراہیم، رفیق نیئر، چوہدری ریاض، کوثر تقدیس گیلانی، پیر مظہر سعید، جاوید بٹ، ملک ظفر اقبال، انصرابدالی اور سردار محمد حسین شامل تھے۔