نواز طاہر :
کراچی سے لاہور جانے والی کراچی ایکسپریس کی ایک بوگی میں آتشزدگی کے نتیجے میں کمسن بچوں سمیت سات افراد لقمہ اجل بن گئے۔ یہ آتشزدگی محض حادثہ ہے یا غفلت، یا پھر کسی باقاعدہ منصوبہ بندی کا نتیجہ ہے۔
اس حوالے سے تین پہلوئوں سے تحقیقات شروع کر دی گئی ہیں۔ جبکہ اس واقعے کی تحقیقات کیلیے ریلوے کے فیڈرل انسپکٹر جنرل اسلام آباد سے سکھر پہنچ گئے ہیں۔ اس حادثے میں جاں بحق خاتون اور چار بچے ایک حساس ادارے کے افسر کے خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔ لہذا اس امر کو بھی خارج امکان قرار نہیں دیا جارہا کہ حساس ادارے کے افسر کے خاندان کو باقاعدہ ٹارگٹ کیا گیا ہو۔
جبکہ ذرائع کا کہنا ہے کہ تقریباً تمام ٹرینوں میں اے سی کوچز کے ایئرکینڈیش پلانٹ پرانے اور اس کے پینل بوسیدہ ہو چکے ہیں۔ صرف اے سی بزنس کلاس ہی نہیں بلکہ اے سی سلیپر اور اسٹینڈرڈ کے پینل بھی ایسے ہی چل رہے ہیں اور زیادہ تر کے بلور چلتے چلتے رک جاتے ہیں یا پھر ہیٹ پکڑ لیتے ہیں۔ یہ امر خارج از امکان نہیں کہ کراچی ایکسپریس کی کوچ میں آگ بھی ایئر کنڈیشنڈ پینل سے لگی ہو۔ کیونکہ آگ لگنے کے بعد پوری بوگی میں پھیلی۔ شارٹ سرکٹ کا امکان بھی نظر انداز نہیں کیا جا رہا۔ تاہم اس کا امکان کم ہے۔
کراچی سے لاہور جانے والی پندرہ اپ کراچی ایکسپریس کی کوچ نمبر سترہ (ایئر کنڈیشنڈ بزنس کلاس) میں رات ساڑھے بارہ بجے کے قریب اچانک آگ بھڑک اٹھی۔ جس نے دیکھتے ہی دہکھتے پوری کوچ کو لپیٹ میں لے لیا اور مسافر جان بچانے کے لیے دوسری کوچ کی جانب بڑھے۔ اسی دوران ستّر سالہ رابعہ بیگم نے جان بچانے کیلیے چلتی ٹرین سے چھلانگ لگا دی۔ جبکہ اس وقت ٹرین ابھی رک رہی تھی۔ آتشزدگی کے ساتھ ہی ریل کے عملے نے ہنگامی طور پر ٹرین روک لی تھی۔ لیکن آگ قابو سے باہر ہوچکی تھی۔
بتایا جاتا ہے کہ رابعہ بیگم نے اپنے ساتھ سفر کرنے والے بچوں کو بھی اٹھانے کی کوشش کی۔ لیکن وہ گہری نیند کی آغوش میں ہونے کے باعث بروقت اٹھ نہ سکے اور نہ ہی موت نے انہیں مہلت دی۔ ستّر سالہ رابعہ بیگم کراچی ایکسپریس پر مارگلہ اسلام آباد کیلئے نواسے اور پوتیوں کے ساتھ روانہ ہوئی تھیں۔ پانچ افراد پر مشتمل یہ کنبہ کوچ کے ابتدائی کیبن میں سوار تھا۔ جن میں بائیس سالہ مس انیتا دختر محمد اکرام، دس سالہ عبدالرحمان ولد محمد کامران، پانچ سالہ فاطمہ دختر محمد کامران، نو سالہ مریم دختر محمد کامران شامل تھے۔ یہ بچے ملک کے ایک حساس ادارے کے افسر کا خاندان سے تھے۔ اس حادثے میں پچاس سالہ محمد ندیم اور ایک بچہ بھی جاں بحق ہوا ہے۔ لیکن ان دونوں کی تاحال شناخت نہیں ہوسکی۔
ریلوے حکام کے مطابق متاثرہ ٹرین کو ٹنڈو مستی کے مقام پر روک دیا گیا تھا۔ جہاں متاثرہ کوچ باقی ٹرین سے الگ کی گئی اور اب اس کی تحقیقات شروع کر دی گئی ہیں۔ جس کیلئے فیڈرل انسپکٹر اسلام آباد سے سکھر پہنچ گئے ہیں۔ تاہم ابتدائی انکوائری رپورٹ بھی تاحال جاری نہیں کی گئی البتہ ریکارڈ محفوظ کرلیا گیا ہے۔
ذرائع کے مطابق ابتدائی تحقیقات اس نکتے پر کی جارہی ہیں کہ آگ کسی تمباکو نوش مسافر کی سگریٹ سے تو نہیں لگی۔ شارٹ سرکٹ کو بھی تحقیقات کا حصہ بنایا گیا ہے۔ تاہم شارٹ سرکٹ کا امکان کم ظاہر کیا جارہا ہے۔ لیکن صورتحال اس کے برعکس دکھائی دیتی ہے۔ یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ زیادہ کوچوں کے ایئر کنڈیشنڈ پلانٹ پرانے اور ان کے پینل بوسیدہ ہوچکے ہیں۔ جن کی مرمت کے بجائے انہیں تاروں کے ٹوٹے اور جوڑ لگا کر کام چلایا جارہا ہے۔
ریل کے الیکٹرک اسٹاف میں شامل ایک اہلکار نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ صرف اے سی بزنس کلاس ہی نہیں بلکہ اے سی سلیپر اور اسٹینڈرڈ کے پینل بھی ایسے ہی چل رہے ہیں اور زیادہ تر کے بلور چلتے چلتے رک جاتے ہیں یا پھر ہیٹ پکڑ لیتے ہیں۔ یہ امر خارج از امکان نہیں کہ یہ آگ بھی ایئر کنڈیشنڈ پینل سے لگی ہو۔ کیونکہ آگ لگنے کے بعد پوری بوگی میں پھیلی ہے۔ جس کے بعد بلور بھی آگ کے پھیلائو کا موجب بنے اور ٹرین کی رفتار نے آگ کو مزید بڑھکا دیا۔ ٹرین جلد رکنے سے مزید نقصان بچ گیا۔ ورنہ یہ آگ دوسری بوگیوں تک بھی پھیل سکتی تھی۔
ذرائع نے بتایا کہ یہ سانحہ شارٹ سرکٹ سے بھی ہو سکتا ہے۔ لیکن شارٹ سرکٹ کے کچھ اثرات دوسری منسلک بوگی تک بھی جاتے ہیں۔ جس کی نشاندہی نہیں ہو رہی۔ یہاں یہ امر بھی قابلِ ذکر ہے کہ ایک سال قبل جعفر ایکسپریس کی پاور وین بھی جل گئی تھی۔ جبکہ اس کے جلنے سے چار روز پہلے اس کی موٹروں کا آئل لیک ہونا شروع ہوگیا تھا اور اسے بمشکل روہڑی اسٹیشن پر لاکر تھوڑی بہت مرمت کی گئی تھی اور پھر روانہ کردی گئی۔ اسی سب پاور جین جل گئی تھی۔ اس وقت مسافروں نے خانیوال اور ملتان کے درمیان شعلے دیکھے تھے اور جب عملے نے چیک کیا تھا تو ایک الیکٹرک تار کے لوہے سے ٹکرانے کے باعث آتشزدگی کی وجہ بتائی گئی تھی۔ مگر ریل کے عملے نے پوری جانچ پڑتال نہیں کی تھی اور ٹرین اللہ کے آسرے پر لاہور پہنچی تھی۔ ریلوے کے عملے کے مطابق مرمت کے شعبے پر حکام کی کوئی توجہ نہیں۔ یہ صرف اہلکاروں کی مدد سے چل رہی ہے۔ اگر کوئی غیر ملک ہو تو یہ کوچیں ٹریک پر آہی نہیں سکتیں۔ ان کے الیکٹرک شعبے کے بہت سے کام ہونے والے ہیں۔
حالیہ حادثے کے بارے میں ریلوے کی چیف ایگزیکیٹو افسر ارشد خٹک سے گفتگو کی گئی تو ان کا کہنا تھا کہ فوری طور پر یہ نہیں کہہ سکتے کہ آگ کیسے لگی۔ مختلف امکانات اور وجوہات ہوسکتی ہیں۔ انہوں نے ریل کے عملے کی غفلت کو خارج از امکان قرار دیا اور کہا کہ اس افسوسناک حادثے کی تحقیقات کے بعد ہی اصل صورت حال سامنے آئے گی۔ تحقیقات کیلئے فیڈرل انسپکٹر سکھر روانہ ہوچکے ہیں۔ اس سے پہلے اندازے کی بنیاد پر وجہ خیال کرنا غیر مناسب ہے۔ ایک سوال پر ارشد خٹک کا کہنا تھا کہ ’’ہم بحیثیت ذمہ دار ٹرانسپورٹر، میجر صاحب کے گھر جا کر تعزیت کا اظہار کریں گے۔ جن کے خاندان میں اموات ہوئیں۔ ان کے جسد خاکی ورثا کے حوالے کر دیئے گئے ہیں۔ البتہ ایک بچہ اور پچاس سالہ شخص ندیم کے ورثا کی تلاش جاری ہے۔ جس کیلئے ان کا ڈی این اے کروایا جائے گا‘‘۔
دوسری جانب ریلوے کی پریم یونین کے صدر شیخ محمد انور کا کہنا ہے کہ ٹرینیں، اللہ کے آسرے پر چل رہی ہیں۔ حادثات کی انکوائری کی جاتی ہے تو کسی غریب کو ذمہ دار قرار دے دیا جاتا ہے۔ اصل ذمہ دار وہ ہوتا ہے جو مجموعی نگران ہوتا ہے۔ ریل میں مرمت کے امور پر توجہ نہیں دی جاتی۔ رننگ اسٹاف نے جیسے تیسے کام چلانا ہوتا ہے‘‘۔ یہاں یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ کراچی کینٹ کی پرانی واشنگ لائن کی جانب بنے دونوں پلیٹ فارموں پر سامان کی چیکنگ کا کوئی نظام نہیں اور یہ ٹرین بھی اسی پلیٹ فارم سے چلی تھی۔ اس امر کو بھی خارج امکان قرار نہیں دیا جارہا کہ حساس ادارے کے خاندان کو باقاعدہ ٹارگٹ کیا گیا ہو۔