4 مئی 2017کو آرمی چیف اور وزیراعظم کی ملاقات میں طے پانے والا فارمولا (جسے فوری طورپر روبہ عمل آنا تھا) تاخیر کاشکار ہوگیا۔ وزیراعظم کے دِل میں ترازو ‘‘ریجیکٹڈ’’ کے تیرِنیم کش سے بدستور لہو رِستا رہا، دَرد فزوں ہوتا رہا۔ جنرل باجوہ کے بیٹے سعد قمر کے توسط سے آنے والے پیغامات کا درجۂِ حرارت بھی بڑھنے لگا۔ 8 مئی کو ملنے والا پیغام تھا _ ‘‘ہم نے اپنی طرف سے بہت کوشش کرلی۔ اب کچھ کرنے کی ذمہ داری دوسرے فریق پر ہے۔’’ طرفین کے اعصاب کڑی کمان کی کَسی تانت کی طرح تنے جارہے تھے ۔ وقت دم سادھے کھڑا تھا کہ پہلے کون آنکھ جھپکتا ہے۔
8 مئی ہی کی شام اطلاع ملی کہ کل گیارہ بجے وزیراعظم نے ایک اہم میٹنگ بلائی ہے۔ خواجہ آصف، احسن اقبال، چوہدری نثار علی خان، اسحاق ڈار، شاہد خاقان عباسی، سعدرفیق، پرویز رشید، برجیس طاہر، آصف کرمانی، فواد حسن اور میں، وزیراعظم کے دفتر میں بیٹھے ایک دوسرے سے استفسار کرتے رہے کہ اس ہنگامی میٹنگ کا ایجنڈا کیا ہے ؟ اتنے میں مریم نواز اور ٹھیک گیارہ بجے وزیراعظم بھی آگئے۔ تلاوت کے بعد کسی تمہید کے بغیر بولے ۔ معذرت خواہ ہوں کہ آپ کو ایمرجنسی میں بلانا پڑا۔ آپ جانتے ہیں کہ ڈان کی خبر کو کس طرح سب سے بڑا قومی بحران بنا دیاگیا ہے۔ ہماری ہرممکن کوشش کے باوجود ہنگامہ جاری ہے۔ ان کی ضد پر ہم نے پرویز رشید کے خلاف کارروائی کی۔ اُس وقت کہتے تھے کہ اس کے ساتھ ہی یہ معاملہ ختم ہوجائے گا۔ پھر اتنی بڑی کمیٹی بنادی۔ اس کی ساری سفارشات بھی ہم نے مان لیں جو سب ناجائز تھیں۔ پھر یہ ‘ریجیکٹڈ’ (Rejected) کا ٹویٹ آگیا۔ کیا فائدہ ہوا ہماری نرمی کا؟ انہوں نے اِسے ہماری کمزوری اور بُزدلی سمجھا۔ اور سچی بات یہ ہے کہ میں بھی اسے کمزوری اور بُزدلی ہی خیال کرتا ہوں۔۔۔’’ وہ بے تکان بولے جارہے تھے۔ اچانک میری طرف اشارہ کرتے ہوئے کہنے لگے ۔اس معاملے میں عرفان صدیقی صاحب نے بھی خاصا اہم کردار ادا کیا ہے۔ جنرل باجوہ کسی زمانے میں اِن کے شاگرد رہے ہیں۔ میری اور آرمی چیف کی ملاقات بھی ہوئی۔ کچھ باتیں طے پاگئیں۔ آج چوتھا یا پانچواں دِن ہے۔ کسی ایک پر عمل نہیں ہوا۔ میں اِسے اپنی اور اپنے منصب کی توہین خیال کرتا ہوں۔ یہ صورتِ حال میرے لئے ناقابلِ برداشت ہوچکی ہے۔۔ آپ کو بلایا ہے کہ اس توہین پر ہمارا ردّعمل کیا ہو؟
دو کے سوا سب نے تحمل کا مشورہ دیا۔ مذاکراتی ٹیم کو متحرک کرنے کا کہا۔ وزیراعظم کی بدن بولی کہہ رہی تھی کہ وہ تہیۂِ طوفاں کئے بیٹھے ہیں۔ میٹنگ ختم ہوگئی۔ میرا بازو تھامے رہائشی حصے کے ڈرائنگ روم میں آگئے۔ اسحاق ڈار، پرویز رشید اور فواد کوبھی بلالیا۔ تھوڑی دیر پہلے کی گفتگو کے تسلسل میں ایک اور شعلہ بار تقریر کی۔ یکایک بولے ۔ ‘‘صدیقی صاحب! کاغذ قلم لیں۔’’ میں نے میز پر دھرا پیڈ اٹھایا۔ جیب سے قلم نکالا۔ بولے ۔آج کی میٹنگ کے حوالے سے پریس ریلیز تیار کریں۔ بتائیں کہ سینئر قیادت سے مشورے کے بعد وزیراعظم نے ‘‘ریجیکٹڈ’’ کے ٹویٹ کو فوج کے حلف کے منافی اور توہین آمیز قرار دے کر ضروری کارروائی کا فیصلہ کیا ہے۔ لکھیں کہ ایک ماتحت ادارے کی طرف سے ایسا غیرآئینی اقدام ریاست کے خلاف جنگ ہے۔’’ لمحہ بھر کو رُکے تو میں نے کہا ۔ ‘‘میاں صاحب ! میرے خیال میں اس طرح کا پریس ریلیز۔۔۔’’ انہوں نے مجھے بات پوری نہ کرنے دی۔ بولے ۔ ‘‘صدیقی صاحب ! بہت ہوگئی۔ پچھلے دَس دِن سے برداشت کئے بیٹھا ہوں۔۔ ’’ پریس ریلیز میں ڈھیر سارا بارود بھرنے کے بعد بولے ۔ ‘‘ابھی کمپوز کروا کے جاری کردیں۔’’ اُٹھتے ہوئے کہنے لگے ۔ ‘‘ جاری کرنے سے پہلے مجھے دکھادیں۔’’
فواد کے کمرے میں بیٹھ کر میں نے پریس ریلیز تیار کرکے کمپوزر کے حوالے کیا۔ فواد سے اپنے خدشات کا اظہار کیا تو وہ کہنے لگا ‘‘ سَر میں نے کبھی پی۔ایم کو اس قدر غصّے میں نہیں دیکھا۔ اگر انہوں نے آپ کی بات نہیں مانی تو کسی کی نہیں مانیں گے۔ اَب ہونے دیں جو ہونا ہے۔’’ تبھی میں نے اور فواد نے ایک حکمتِ عملی تراشی۔ اندر سے حسین نواز کو بلایا۔ اُسے اعتماد میں لیا۔ اور یہ کہ میری طرف سے اپنی والدہ سے بھی التماس کریں کہ وہ بھی آجائیں۔
وزیراعظم نے پریس ریلیز کی ایک کاپی ہاتھ میں لی۔ فواد حسن نے بلند آواز میں خواندگی کی۔ میاں صاحب بولے ‘‘ٹھیک ہے۔ اِشو کردیں۔’’ میں نے ایک بار پھر درسِ حکمت کا باب کھولا۔ دوچار جملے ہی کہے تھے کہ وزیراعظم بولے ‘‘صدیقی صاحب ! اب اِن باتوں کا وقت گزر چکا ہے۔’’ بیگم کلثوم نواز بھی حسین اور مریم کے ساتھ بیٹھی تھیں۔ سب کچھ سنتی رہیں۔ پھر بولیں ‘‘صدیقی صاحب نے آپ کو ہمیشہ مخلصانہ مشورہ دیا ہے۔ میرا بھی یہی خیال ہے کہ اِس پریس ریلیز سے معاملات بہت خراب ہوجائیں گے۔۔ آپ کم ازکم ایک دِن صبر کرلیں جو کام آج ہوسکتا ہے، وہ کل بھی ہوجائے گا۔’’ نوازشریف اُٹھ کھڑے ہوئے۔ اپنے مزاج کے برعکس نہ کسی سے سلام نہ دعا۔ خودکلامی کے انداز میں بولتے ہوئے اندر کو چل دیے ‘‘جو مرضی ہے کریں آپ لوگ۔ پتہ نہیں کب تک یہ تماشا لگا رہے گا۔ کب تک ہم یہ ذلّتیں برداشت کرتے رہیں گے۔
میں نے بیگم صاحبہ کا شکریہ ادا کیا۔ فواد کے کمرے میں آکر پریس ریلیز کی ساری کاپیاں کاغذکرش کرنے والی مشین میں ڈالیں جس کی گررگرر مجھے مترّنم موسیقی جیسی لگی۔ گھرآتے ہوئے میں نے سعد قمر باجوہ کو ٹیکسٹ کیا ۔ ‘‘بابا کو بتادو! صورت حال اَب میری دسترس سے نکل چکی ہے۔ ’’ اگلے دِن ، 10 مئی کو جنرل باجوہ وزیراعظم سے ملے۔ اُسی دِن نیا حکومتی اعلامیہ جاری ہوگیا۔ اس میں عسکری تالیفِ قلب کے لئے پرویز رشید کی معزولی کا دِل کُشا جملہ بھی شامل کرلیاگیا۔ سرِشام جنرل آصف غفور نے پریس کانفرنس میں ‘‘ریجیکٹڈ’’ کا ٹویٹ واپس لے لیا۔ معذرت غیرضروری سمجھی گئی۔
بظاہر تصادم ٹل گیا لیکن نوازشریف سے نجات اور عمران خان کی تخت نشینی کو الہامی صداقت سمجھنے والی متروکہ املاک اور عشق میں لت پت ادارہ جاتی کرداروں نے ولولۂِ تازہ کے ساتھ انگڑائی لی۔ ‘‘ریجیکٹڈ’’ ٹویٹ کی واپسی پلٹن میدان میں جگجیت سنگھ اروڑا کے سامنے ہتھیار ڈالنے سے بھی بڑی ذلّت، بڑا سانحہ قرار دے دیا گیا۔ ہواؤں کا رُخ دیکھتے ہوئے جنرل قمر جاوید باجوہ اُس جنگی بیڑے کا حصہ بن گئے جس کاناقوس چھ برس قبل جنرل پاشا نے بجایا تھا۔ ثاقب نثار، باجوہ صاحب کے صرف ایک ماہ بعد چیف جسٹس بن چکے تھے۔ بندوق اور ہتھوڑے کا ‘‘عقدِسہولت’’ متحرک ہوا۔ جولائی 2017میں نوازشریف کو گھر بھیج دیا گیا۔ 2018کے انتخابات میں انتخابی تاریخ کی سب سے بڑی دھاندلی کرتے ہوئے پی۔ٹی۔آئی کی فتح کشید کرلی گئی۔ عمران خان کی بارات بینڈ باجے کے ساتھ وزیراعظم ہاؤس لائی گئی۔ جہاں وزارتِ عظمی کی عروسۂِ خوش جمال حیاباختہ دوشیزہ کی طرح گھونگھٹ سے منہ نکالے کھلکھلا کر ہنس رہی تھی۔ مبتلائے عشق منصوبہ ساز اس بندوبست کی چھتّرچھایا بن گئے۔ کانٹا خان صاحب کے پاؤں میں چبھتا تو لہو کسی اور کے دِل سے رِستا۔ ایک پیج ہی نہیں، ایک ایک سطر اور ایک ایک لفظ ‘‘مَن توشدم تو مَن شُدی’ کی تصویر بن گئے۔ یہاں تک کہ سراب نما خواب ٹوٹ گیا۔
پاناما اور ڈان لیکس جیسے فتنہ تراشوں نے پاکستان کے عالمی مرتبہ ومقام میں کتنے مورپنکھ ٹانکے، بائیس کروڑ عوام کے زخموں کی کتنی مرہم کاری کی، معیشت کے عارض وگیسو کس قدر سنوارے، منصفانہ احتساب کی کتنی اُجلی روایات قائم کیں، فوج کی عزت وآبرو میں کتنا اضافہ کیا ، خود اپنے نام وناموس کوکون سے چار چاند لگائے اور آخری ضرب کاری لگانے والے ثاقب نثار اور قمر باجوہ کو یہ کشورکشائی کس بھاؤ پڑ رہی ہے؟ ‘‘عبرت سرائے دہر’’ کی اس داستان کے لئے کالم نہیں، کتاب چاہیے۔