آپ کیسے ہمیں حکم دے سکتے ہیں کہ ہم اڈیالہ میں سماعت کریں، فائل فوٹو
آپ کیسے ہمیں حکم دے سکتے ہیں کہ ہم اڈیالہ میں سماعت کریں، فائل فوٹو

حراست کا ایک دن عمران پر صدی سے بھاری تھا

امت رپورٹ :
ایک دن کی حراست ’’انقلابی‘‘ عمران خان کے لیے ایک صدی سے کم نہیں تھی۔ مختصر ترین قید میں انہیں اپنی اہلیہ بشریٰ بی بی شدت سے یاد آتی رہیں۔ کپتان پر موت کا خوف اس قدر غالب تھا کہ ان کے کانوں میں اپنے ذاتی معالج ڈاکٹر فیصل کا یہ جملہ بار بار گونجتا رہا ’’یہ خوراک میں انسولین ملادیتے ہیں۔ جس سے اچانک جان لیوا دل کا دورہ پڑتا ہے‘‘۔

یہ ان باتوں کا خلاصہ ہے جو ان سے ملاقات کرنے والے وکیل شیر افضل مروت نے خود بتائیں۔ محض ایک دن کی حراست نے اکہتر سالہ خان کی مصنوعی خوبصورتی کا پول بھی کھول دیا تھا۔ کیمرے کی چکا چوند روشنی میں دمکنے والا چہرہ بری طرح مرجھا گیا تھا۔ تاہم جب عمران خان کو بدھ کی رات یہ خاموش پیغام ملا کہ جمعرات کی صبح انہیں سپریم کورٹ سے خصوصی رعایت ملنے والی ہے تو ان کا مرجھایا چہرہ کھل اٹھا اور ٹوٹے ہوئے اعصاب بحال ہوگئے۔

واضح رہے کہ منگل کے روز عمران خان کو القادر ٹرسٹ کیس کے سلسلے میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے احاطے سے گرفتار کیا گیا تھا۔ بدھ کو چیئرمین پی ٹی آئی کو احتساب عدالت میں پیش کیا گیا۔ جس نے ان کا آٹھ روزہ ریمانڈ منظور کیا تھا۔ احتساب عدالت میں ہونے والی سماعت کے موقع پر جج بشیر نے چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کی وکلا ٹیم کو ان سے طویل ملاقات کی اجازت دی۔ ملاقات کرنے والے وکلا میں شیر افضل مروت شامل تھے۔

بعد ازاں بدھ کو رات بارہ بجے کے بعد پی ٹی آئی کے آفیشل اکائونٹ پر ایک اسپیس میں شیر افضل مروت نے شرکت کی۔ جہاں ان سے عمران خان سے ہونے والی ملاقات کی تفصیلات دریافت کی گئیں تو ایک سوال پر انہوں نے اشارہ دے دیا تھا کہ جمعرات کو سپریم کورٹ سے عمران خان کی رہائی کا امکان ہے اور پھر ایسے ہی ہوا۔

بعد ازاں اینکر منیب فاروق کے انکشاف سے اس کی مزید تصدیق ہوگئی۔ منیب فاروق کا کہنا تھا، ان کی معلومات کے مطابق سپریم کورٹ نے اگرچہ عمران خان کی رہائی کا حکم آج (جمعرات) کو دیا ہے۔ تاہم یہ فیصلہ ایک روز پہلے ہوگیا تھا کہ عمران خان کو خصوصی رعایت ملنے جارہی ہے۔

ایک روزہ حراست میں عمران خان پر کیا گزری؟ یہ روداد بیان کرتے ہوئے شیر افضل مروت کا کہنا تھا ’’ہم لوگ احتساب عدالت کی سماعت کے حوالے سے بدھ کی صبح پولیس لائن پہنچ گئے تھے۔ جبکہ عمران خان کو نیب کی کسٹڈی سے نکال کر وہاں رات تین بجے ہی منتقل کیا جا چکا تھا۔ ہمیں عمران خان نے بتایا کہ ان پر کسی قسم کا جسمانی تشدد نہیں کیا گیا۔ تاہم ان کی نیند پوری نہیں ہوسکی ہے۔ کیونکہ انہیں رات تین بجے تک گاڑی میں بٹھاکر سڑکوں پر گھمایا جاتا رہا۔ بعد ازاں پولیس لائن منتقل کر دیا گیا۔ چار بجے کے قریب ان کی آنکھ لگ گئی تھی۔ بات چیت کے دوران کئی مواقع پر عمران خان جذباتی ہوگئے۔ نیب کورٹ میں سماعت کے دوران بھی وہ دو تین بار روسٹرم پر آئے اور انتہائی جذباتی ہوکر جج کو بتاتے رہے کہ کس طرح لندن ڈیل کے تحت ملک کو تباہ کیا جارہا ہے‘‘۔

شیر افضل مروت کے بقول عمران خان نے یہ بات بھی دوہرائی کہ ان کے ذاتی معالج اور شوکت خانم کے ڈاکٹر فیصل نے انہیں بتایا تھا کہ یہ لوگ خوراک میں انسولین ڈال کر کھلا دیتے ہیں۔ جو دھیرے دھیرے اثر انداز ہوتی ہے اور پھر اچانک ہارٹ اٹیک ہوجاتا ہے۔ انہوں نے مقصود چپڑاسی کے ساتھ بھی ایسا ہی کیا تھا۔ اس دوران کئی بار انہوں نے اپنے سینے پر ہاتھ بھی پھیرا اور کہا کہ انہیں صبح سے سینے کے مقام پر درد ہو رہا ہے۔ ساتھ ہی تاکید کی کہ تم لوگ یہ بات میڈیا پر بھی اجاگر کرو۔ ساتھ ہی جج بشیر سے درخواست کرو کہ ڈاکٹر فیصل کو ان تک رسائی دی جائے۔ اس خواہش کا اظہار عمران خان نے پانچ چھ بار کیا۔ جس پر وکلا نے جج بشیر سے یہ درخواست کی تو انہوں نے کہا کہ وہ اپنے تحریری حکم میں یہ بات لکھ دیں گے۔

ملاقات کی روداد بیان کرتے ہوئے شیر افضل مروت کا مزید کہنا تھا ’’عمران خان نے اس خواہش کا بھی شدت سے اظہار کیا کہ ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی سے کسی طرح ان کی بات کرادی جائے۔ خان کی سب سے بڑی خواہش یہی تھی کہ وہ اپنی بیگم سے بات کرلیں۔ تاہم بدقسمتی سے ہمیں یہ موقع نہیں مل سکا کہ بشریٰ بی بی سے ان کی بات کرا دیتے۔ حالانکہ میں سیکورٹی اہلکاروں سے چھپاکر موبائل فون بھی عدالت کے اندر لے گیا تھا‘‘۔ یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ کئی ماہ جیل میں رہنے والے نواز شریف بستر پر مرگ پر موجود اپنی اہلیہ کلثوم نواز سے ٹیلی فون پر بات کرنے کی اجازت مانگتے رہے تھے۔ لیکن انہیں اجازت نہیں ملی تھی۔ حتیٰ کہ کلثوم نواز خالق حقیقی سے جا ملیں۔ تاہم عمران خان کو ایک دن کی قید میں ہی اپنی اہلیہ یاد آنے لگیں۔

اسپیس کے شرکا میں سے ایک نے جب شیر افضل مروت سے دریافت کیا کہ وکلا عمران خان اور دیگر پارٹی قیادت کی رہائی کے لئے کیا کر رہے ہیں تو ان کا کہنا تھا ’’پی ٹی آئی کی صف اول کی قیادت زیادہ سے زیادہ دو دن میں باہر آجائے گی۔ ہم نے پٹیشنز دائر کر دی ہیں۔ جہاں تک عمران خان کی رہائی کا معاملہ ہے تو میں اپنے ’’تجربے‘‘ کی بنیاد پر کہہ سکتا ہوں کہ آج جمعرات کو ان کی رہائی ہوجانی چاہیے‘‘۔

اپنی اس پیشن گوئی کو اگرچہ شیر افضل مروت نے قانونی و آئینی رائے سے جوڑا تھا۔ لیکن بین السطور میں واضح ہوگیا تھا کہ جمعرات کے روز عمران خان کو ریلیف دینے کا فیصلہ کرلیا گیا ہے۔ چیئرمین پی ٹی آئی کو نہ صرف چیف جسٹس پاکستان کی جانب سے غیر متوقع اور حیران کن ریلیف ملا۔ بلکہ اس امکان کو ختم کرنے کے لیے کہ مبادا انہیں عدالت سے باہر نکلتے ہی دوبارہ گرفتار نہ کرلیا جائے۔ سپریم کورٹ کا تحفظ بھی فراہم کر دیا گیا۔

فیصلے میں کہا گیا کہ عمران خان کو نہایت احترام کے ساتھ پولیس لائن کے گیسٹ ہائوس میں رکھا جائے اور گپ شپ لگانے کے لئے پسند کے لوگوں کی کمپنی بھی فراہم کی جائے۔ ذرائع کا دعویٰ ہے کہ اگر عمران خان کو یہ پروٹیکشن نہ ملتی تو حکومت نے انہیں سپریم کورٹ سے نکلتے ہی ایم پی او کے تحت دوبارہ حراست میں لینے کی تیاری کرلی تھی۔