ایک ماہ تک نظربندی کے آرڈر میں توسیع کا بھی امکان ہے، فائل فوٹو
 ایک ماہ تک نظربندی کے آرڈر میں توسیع کا بھی امکان ہے، فائل فوٹو

اڈیالہ جیل میں نظربند انصافی رہنمائوں کی حالت پتلی

احمد خلیل جازم :
پی ٹی آئی کے وائس چیئرمین اسد عمر کے ہمراہ سینئر قیادت اس وقت اڈیالہ جیل کی چار چکیوں میں قید ہے۔ ان کی حالت بظاہر تسلی بخش قرار دی جا رہی ہے۔ تاہم گرمی اور ناکافی سہولیات کی وجہ سے سب کی حالت پتلی ہے۔ شاہ محمود قریشی نے پیٹ کے امراض کی شکایت کرنا شروع کردی ہے۔

واضح رہے کہ نو مئی کو جو کچھ ملک میں ہوا۔ اس تناظر میں تحریک انصاف کی لیڈر شپ کی گرفتاریاں ہوئیں اور جڑواں شہروں میں انتشار پھیلانے والوں کو ڈی سی کے حکم پر ایک ماہ کے لیے نظر بند کردیا گیا۔ تاکہ مزید ان کی وجہ سے جڑواں شہروں میں فتنہ و فساد نہ پھیلے۔

قانونی ماہرین کے مطابق ضلع کے ڈپٹی کمشنرز کو 3 ایم پی اور اور 16 ایم پی او کے اختیارات حاصل ہیں۔ ان اختیارات کے تحت نقص امن کے خطرے پر کسی بھی شہری کو بغیر وجہ بتائے زیادہ سے زیادہ تین ماہ تک نظر بند کیا جا سکتا ہے۔ نقص امن کے خطرے کے تحت اسی اختیار کو استعمال کرتے ہوئے تحریک انصاف کی لیڈر شپ اڈیالہ جیل کے اسپیشل سیل نمبر چار میں نظر بند ہے اور ایک ماہ تک نظر بندی کا آرڈر جاری کیا گیا ہے۔

بعد میں ڈی سی کی مرضی ہو تو اس میں مزید توسیع بھی کی جاسکتی ہے۔ اس ایکٹ کو ہائی کورٹ میں اپیل کرکے ختم کرایا جاسکتا ہے۔ لیکن ہائی کورٹ بھی کم ہی ان اختیارات میں دخل دیتا ہے کہ یہ انتظامی معاملہ ہے۔ البتہ سیاسی نظر بندیوں میں ہائی کورٹ مداخلت کرتا ہے جیسے گزشتہ دو روز قبل لاہور سے گرتفار سترہ خواتین کو اسی ایکٹ کے تحت ہائی کورٹ سے رہائی ملی۔ ادھر گزشتہ روز اتوار کو فوجی ہیڈ کوارٹر پر حملہ کرنے والے 264 افراد کو بھی گرفتار کیا گیا ہے۔ جنہیں آج عدالتوں میں پیش کرکے اڈیالہ جیل منتقل کیے جانے کا امکان ہے۔

اڈیالہ جیل کے ذرائع نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ اس وقت اڈیالہ جیل میں پی ٹی آئی کی سینئر قیادت میں شاہ محمود قریشی، اسد عمر، جمشید چیمہ، شیریں مزاری، مسرت جمشید چیمہ، ملیکہ بخاری اور فلک ناز سمیت پندرہ سے بیس رہنما نظر بند ہیں۔ جبکہ دیگر انصافی حملہ آور کارکنان کو جوڈیشل ریمانڈ پر اڈیالہ جیل سے ریجن کی دیگر جیلوں میں منتقل کردیا گیا ہے۔

فواد چوہدری کو اڈیالہ جیل سے اسلام آباد منتقل کردیا گیا ہے۔ جہاں وہ ہائوس اریسٹ ہیں۔ پی ٹی آئی کی مرکزی سینئر نائب صدر شیریں مزاری کو بھی دو روز قبل اسلام آباد میں ان کی رہائش گاہ سے حراست میں لے کر اڈیالہ جیل منتقل کیا گیا۔ یہ سب لوگ نقص امن کے خطرے کے باعث ایک ماہ کے لیے نظر بند ہیں۔ چونکہ یہ انصافی رہنما سیل نمبر چار کی چار چکیوں میں نظر بند ہیں اور انہیں کوئی ایکسٹرا سہولت فراہم نہیں کی گئی۔ اس لیے اکثر رہنما گرمی اور مچھروں سے تنگ ہیں۔

ذرائع کے مطابق ان میں سے زیادہ بری حالت شاہ محمود قریشی کی ہے۔ ایک سوال پر ذرائع نے بتای کہ اس اسپیشل سیل کی چار چکیاں 8×12 سائز کی ہیں۔ جس میں چھ سے سات لوگ نظر بند ہیں۔ انہیں فرش پر سونا پڑتا ہے اور چھت پر صرف ایک پنکھا لگا ہوا ہے۔ جیل کے عام قیدیوں کی طرح انہیں بھی کمبل چادر کی سہولت دی گئی ہے۔ البتہ جیل حکام ان کے طبی معائنہ پر زور دے رہے ہیں اور جیل اسپتال کا عملہ ڈاکٹر سمیت روزانہ ان کی صحت کی جانچ کیلئے موجود ہوتا ہے۔

چوہدری جمشید چیمہ کا بلڈ پریشر ہائی رہا۔ لیکن جیل اسپتال کے عملے کی توجہ سے وہ اب نارمل ہوچکا ہے۔ جبکہ خواتین کے وارڈ میں شیریں مزاری پر خصوصی توجہ دی جارہی ہے کہ وہ جیل میں زیادہ چیخ وہ پکار کر رہی ہیں اور بار بار جیل حکام کو دھمکیاں لگا رہی ہیں۔ فلک ناز کی حالت بھی ناگفتہ ہے اور انہیں ساری رات نیند نہیں آتی‘‘۔

کھانے کے حوالے سے ان ذرائع کا بتانا تھا کہ ’’جیل میں کھانے کا معیار اچھا ہے۔ اور ان تمام سیاسی قیدیوں کو جیل کے لنگر کا کھانا ہی پیش کیا جا رہا ہے۔ باہر سے کھانا لاکر دینے پر مکمل پابندی ہے اور کوئی ایکسٹرا چیز بھی باہر سے لاکر انہیں نہیں دی جارہی۔ سیاسی قیدیوں کو البتہ مشقتی دیا جاتا ہے اور کھانا بھی الگ دیا جاتا ہے۔ لیکن وہ اس صورت میں ہوتا ہے جب وہ کسی مقدمے میں سزا پانے کے بعد بی کلاس میں آتے ہیں۔ تاہم تمام پی ٹی آئی کے قید رہنمائوں کو عام قیدیوں کی طرح ہی ٹریٹ کیا جارہا ہے۔ کیونکہ یہ کسی مقدمے میں سزا یافتہ نہیں۔ بلکہ ایک ماہ کے لیے نظر بندی پر جیل آئے ہوئے ہیں۔

سیل نمبر چار کے باہر جیل اسٹاف کی ایکسٹرا ڈیوٹیاں ان قیدیوں پر لگائی گئی ہیں اور ان کی چکیوں کے باہر ہر وقت دو اہلکار موجود ہوتے ہیں، جو دن رات ڈیوٹی دیتے ہیں۔

اسی اسپیشل سیل کے مختصر سے احاطے میں انہیں آدھے گھنٹے کے لیے روزانہ چہل قدی کے لیے باہر نکالا جاتا ہے۔ اس کے بعد پھر چکی میں بند کردیا جاتا ہے۔ سپرٹنڈنٹ جیل روزانہ خصوصی طور پر انہیں دیکھنے آتا ہے اور ان کی حالت پر مفصل رپورٹ طلب کرتا ہے۔ جبکہ ڈی آئی جی پنڈی ریجن بھی ان کی رپورٹ لے رہے ہیں۔ تاکہ جیل میں ان کو کوئی ناخوشگوار واقعے کا سامنا نہ کرنا پڑے۔