عمران خان :
سندھ اور بلوچستان کے سرحدی علاقوں میں سرگرم کچے کے ڈاکوئوں نے نئے مسلح لشکر تشکیل دے دیے ہیں۔ یہ لشکر دونوں صوبوں کے سرحدی علاقے کی زمینوں اور جنگلات میں سرگرم مٹھو گروپ کی جانب سے تیار کیے گئے ہیں۔ جنہیں نصیر آباد اور جیکب آباد میں پولیس اہلکاروں اور افسران کو نشانہ بنانے کا ٹاسک دیا گیا ہے۔
پولیس حکام کو اپنے انٹیلی جنس ذرائع سے معلومات ملنے کے بعد آئی جی بلوچستان سمیت نصیر آباد ریجن کے 10 سے زائد تھانوں اور ڈی پی او دفاتر کو تھریٹ الرٹ بھی جاری کر دیا گیا ہے کہ ان علاقوں میں تعینات پولیس اہلکار اور افسران خصوصی سیکورٹی کے انتظامات کریں۔
’’امت‘‘ کو موصول ہونے والی دستاویزات سے معلوم ہوا ہے کہ گزشتہ روزڈی آئی جی نصیرآباد کی جانب سے ایک مراسلے کے ذریعے خصوصی تھریٹ الرٹ جاری کیا گیا ہے۔ جس میں ڈی آئی جی منیر احمد شیخ کی جانب سے مختلف اضلاع کے ایس ایس پیز اور ایس ایچ اوز کو خصوصی ہدایات جاری کی گئی ہیں۔
مراسلے میں بتایا گیا ہے کہ سندھ اور بلوچستان کے علاقوں جعفر آباد، نصیر آباد، جیکب آباد اور جھل مگسی کے اطراف اور کچے کی جاگیروں میں روپوش انتہائی بدنام زمانہ ڈاکو گینگ پولیس افسران و اہلکاروں پر حملوں کی منصوبہ بندی کر رہا ہے۔ مراسلے کے مطابق ڈاکوئوں کے گینگ کے سربراہ مٹھو شاہ نے اس ضمن میں خصوصی لشکر تشکیل دیے ہیں۔
پولیس حکام کے مطابق نصیر آباد ریجن سے بدنام زمانہ ڈاکو ماجد شاہ عرف مٹھو شاہ نے حالیہ کارروائیوں میں 6 پولیس اہلکاروں کو قتل کیا تھا۔ جبکہ متعدد متمول افراد کو اغوا کر کے جیکب آباد ریجن کے کچے کے علاقے میں رکھ کر بھاری تاوان بھی وصول کیا گیا۔ جس کے بعد پولیس کی جانب سے اس گینگ کے خاتمے کے لئے حالیہ دنوں میں سندھ پولیس کے جاری آپریشن میں حصہ لیتے ہوئے اوستہ محمد کے علاقے میں ڈاکو مٹھل شاہ کی موجودگی کی اطلاع پر کارروائی کرتے ہوئے ایک گاڑی کو آئی ای ڈی یعنی ایکسپلوزو ڈیوائس کے ذریعے دھماکہ خیز مواد سے نشانہ بنایا گیا تھا۔
اس کارروائی میں ماجد شاہ عرف مٹھو شاہ کا والد ہلاک ہو گیا۔ تاہم ماجد شاہ خود بچنے میں کامیاب ہو گیا۔ جس کے بعد ڈاکوئوں کا سرغنہ اپنے گینگ کے مخصوص حصے کے ساتھ جیکب آباد میں کچے کے ڈاکوئوں سے جا ملا اور اس وقت وہ سندھ پولیس کی جانب سے جاری آپریشن کے خلاف ڈاکوئوں کے ساتھ مل کر لڑ رہا ہے۔
پولیس ذرائع کا کہنا ہے کہ اس وقت ماجد شاہ عرف مٹھو شاہ نے کچے کے علاقے میں بھنگوار تیغیانی سمیت دیگر بدنام زمانہ ڈاکوئوں کے گروپوں سے اتحاد کرلیا ہے۔ جبکہ اپنے والد کی موت کا انتقام لینے کے لئے اس نے بھنگوار تیغیانی اور ڈاکوئوں کے دیگر گینگ سے کمک حاصل کرکے پولیس پر حملوں کے لئے نئی ٹیمیں بنا دی ہیں۔
پولیس کی جانب سے جاری کردہ ہدایات میں پورے ریجن کے تھانوں کو احکامات دیے گئے ہیں کہ اس دوران علاقے میں داخل ہونے والی نئی گاڑیوں پر کڑی مانیٹرنگ رکھی جائے اور ان کا ڈیٹا لیا جائے۔ جبکہ بازاروں اور پبلک مقامات پر گشت بڑھا دیا جائے۔ نیز گشت کے دوران پولیس اہلکار انتہائی احتیاط سے کام لیتے ہوئے چوکس رہیں۔ پولیس افسران اپنے دفاتر اور رہائش گاہوں سے آتے جاتے احتیاط کریں اور اطراف کی گاڑیوں اور افراد پر خصوصی نظر رکھنے کے ساتھ ساتھ اپنی زیر استعمال گاڑیوں کے نمبرز رجسٹرڈ کروالیں۔
باوثوق ذرائع نے بتایا کہ بلوچستان سے جھل مگسی، ڈیرہ مراد جمالی، سوئی اور اطراف کے علاقوں سے پنجاب اور سندھ میں کشمور، جیکب آباد اور ملتان ریجن کے پنجاب کے شہروں صادق آباد، خان پور، رحیم یار خان اور اطراف کے علاقوں کے علاوہ دریائے سندھ کے پورے ڈیلٹا کے علاقوں میں اس وقت سرگرم درجنوں بدنام زمانہ ڈاکوئوں کے گینگز کے خلاف سندھ اور پنجاب پولیس کا آپریشن جاری ہے۔ جس میں سینکڑوں پولیس افسران اور اہلکار حصہ لے رہے ہیں۔ تاہم عرصہ دراز سے تینوں صوبوں کے ان سرحدی علاقوں کا اثر رسوخ اب تک اندرون سندھ خصوصی طور پر گھوٹکی، ڈہرکی، کندھ کوٹ، کشمور، شکار پور، میر پور ماتھیلو، سکھر، لاڑکانہ، جیکب آباد اور خیر پورکے تھانوں کی حدود میں موجود جاگیروں اور جنگلات کے علاقوں تک بڑھ چکا ہے۔
ذرائع کے مطابق اس وقت بھی ڈکیت گروپوں نے درجنوں شہریوں کو کراچی، بلوچستان، پشاور اور پنجاب کے علاقوں سے اغوا کر کے کچے کے جنگلات میں مغوی رکھا ہوا ہے اور ان کے بدلے تشدد کے ذریعے تاوان طلب کیا جا رہا ہے۔ علاقہ پولیس کے ذرائع کی جانب سے ان ڈاکوئوں کے حوالے سے انتہائی دلچسپ معلومات فراہم کی گئی ہیں۔ جن کے مطابق کئی دہائیوں پر مشتمل ڈاکوئوں کے اس سلسلے کو اب ان علاقوں کی معاشرتی زندگی کا حصہ بنادیا گیا ہے۔ اس میں مقامی وڈیروں، چوہدریوں اور سرداروں کے علاوہ مختلف اوقات میں یہاں سے الیکشن جیتنے والے قومی اور صوبائی اراکین اسمبلیوں کا بھی بہت عمل دخل ہے۔ جنہوں نے اپنے سیاسی مقاصد کے حصول، مخالفین سے نمٹنے اور اراضیوں پر قبضوں کے لئے ان ڈاکوئوں کو نہ صرف استعمال کیا۔ بلکہ انہیں پناہ گاہیں دیتے رہے۔ جبکہ ان کے خلاف ہونے والے آپریشن اور پولیس کارروائیوں کو کچھ وقت کے بعد رکوایا جاتا رہا۔
اس وقت صورت حال یہ ہے کہ ان علاقوں کے دیہاتوں اور گوٹھوں میں کوئی گائوں ایسا نہیں جس میں متعدد گھر ایسے ڈاکوئوں کے نہ ہوں۔ جنہیں 50 یا 60 سال کچے میں سرگرم رہنے کے بعد عمرہ اور حج کرانے کے بعد ان کے سارے کیس ختم نہ کرائے گئے ہوں۔ اور مزید یہ کہ ان کے ساتھ رشتہ داریاں بناکر انہیں معزز شہری بھی بنا دیا گیا۔ اب یہی ماضی کے ڈاکو سیاسی جماعتوں کے وڈیروں اور امیدواروں کے لیے پولنگ ایجنٹ اور ووٹ دلوانے کا کام کر رہے ہیں۔ اس طرح سے اس پورے سلسلے کے ذریعے ایک ایسا معاشرتی نظام بنا دیا گیا ہے۔ جس میں ڈاکو رچ بس گئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مہینوں سے جاری آپریشن کے باجود دریائے سندھ کے دو آبے کے اس جنگلاتی علاقوں میں ڈاکوئوں کے ٹھکانے ختم نہیں کیے جاسکے ہیں۔