کاشف ہاشمی:
کراچی پولیس نے 9 مئی کے ہنگاموں میں ملوث پی ٹی آئی کے موسٹ وانٹڈ رہنمائوں کی پشت پناہی شروع کردی ہے اور لوگوں کو اشتعال دلوا کر ہنگامہ آرائی پر اکسانے والے پی ٹی آئی رہنمائوں کو تاحال پولیس گرفتار نہیں کر پائی ہے۔
ذرائع کے مطابق بعض پولیس افسران کی جانب سے ان افراد سے معاملات بھی طے کئے گئے ہیں اور پولیس کی تمام کارروائی کی اطلاعات انہیں پہلے سے ہی ہو جاتی ہے۔ جبکہ کچھ افراد کو پولیس کی جانب سے گزشتہ روز تقریب حلف برداری کے بعد حراست میں لیا گیا ہے۔
9 مئی کو پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے کراچی میں پر تشدد اور جلائو گھیرائوسے بھر پور مظاہرے کیے گئے تھے جس میں سرکاری املاک کے ساتھ ساتھ نجی املاک کو بھی نقصان پہنچایا گیا تھا۔ لوگوں سے لوٹ مار کی گئی تھی اور رینجرز سمیت پولیس کی چوکی کو بھی نذر آتش کیا گیا تھا، جس کے بعد قانون نافذ کرنے والے اداروں نے سی سی ٹی وی کی مدد سے ہنگامہ آرائی میں ملوث افراد کی شناخت کا عمل شروع کیا تھا اور پولیس کے علم میں یہ بات آئی تھی کہ لوگوں کو اکسانے اور جلائو گھیرائو کرنے پر آمادہ کرنے میں پاکستان تحریک انصاف کے کچھ رہنما جن میں حلیم عادل شیخ ،راجہ اظہر،فہیم خان ،عبدالرحمن ،گوہر خٹک ، اسد خٹک،عمر رحمن ،محمد صابر،محمد نوید، مہتمم شاہ سمیت دیگر افراد شامل تھے۔ جس پر پولیس نے ان سمیت دیگر 100صورت شناس ملزمان کے خلاف مقدمہ درج کرکے ان کی گرفتاری کا سلسلہ شروع کیا۔ مگر پولیس اب تک صرف چھوٹے کارکنان کو ہی گرفتار کر پائی ہے۔ جبکہ اس کھیل کے اصل ذمہ داران پولیس کی گرفت سے تاحال آزاد ہیں جن کی گرفتاری کے لئے پولیس کی جانب سے کوئی کوشش بھی نہیں کی گئی ہے۔ نا تو ان کے سی ڈی آر نکلوائے گئے ہیں اور نا ہی نامزد ملزمان کے موبائل فون کی کوئی لوکیشن چیک کی گئی ہے۔
پولیس ذرائع کا کہنا ہے کہ ماضی میں پی ٹی آئی کے رہنمائوں کے ساتھ پولیس افسران کے اچھے مراسم قائم ہو گئے تھے، جس کی وجہ سے پولیس کے بعض افسران انہیں اب بھی سہولت فراہم کر رہے ہیں اور ان ملزمان کو گرفتاری سے قبل ہی پولیس کی نقل و حرکت کی اطلاع کر دیتے ہیں۔ جس کی وجہ سے پی ٹی آئی کے بڑے رہنما پولیس کے ہاتھ نہیں لگ پائے ہیں۔
ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ یہ ملزمان اس وقت بلوچستان کے مختلف مقامات پر پناہ لئے ہوئے ہیں جو کہ سوشل ایپلی کیشن کے ذریعے اپنے اہلخانہ سمیت پارٹی کے مرکزی قائدین سے رابطے میں ہیں اور ان کی جانب سے ہی انہیں ابھی روپوش رہنے کی ہدایت دی گئی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ پولیس جن ملزمان کو گرفتاریوں سے بچا رہی ہے، اس کے بدلے پولیس ان سے بھاری رشوت اور ساتھ میں ان کی حکومت آنے کی صورت میں دیگر مراعات کے وعدے بھی لے رہی ہے۔
گزشتہ روز پولیس کی جانب سے بلدیاتی نمائندوں کی تقریب حلف برداری کے دوران بھی چھاپہ مار کارروائیاں کی گئی ہیں اور پولیس نے پاکستان تحریک انصاف کے بلدیاتی نمائندوں یوسی 5 کے منتخب چئیر مین شاہد انصاری اور وائس چئیر مین رائو وسیم کو تقریب حلف برداری کے بعد گرفتار کیا۔ اسی طرح پولیس نے پی ٹی آئی کے ایک اور وائس چئیر مین عبدالرحمن آفریدی کو بھی تقریب حلف برداری کے بعد حراست میں لیا جن پر شاہراہ فیصل پر بسوں کو آگ لگانے اور پولیس پر حملہ کرنے کا الزام ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ کراچی پولیس نے کراچی بھر سے اب تک صرف پاکستان تحریک انصاف کے چھوٹے کارکنان کو ہی حراست میں لیا ہے جن میں سے کچھ کی ضمانتیں ہو گئی ہیں اور کچھ جیل میں ہیں۔ جبکہ پی ٹی آئی کی جو اصل کراچی کی قیادت ہے جو کہ لوگوں کو اکسانے اور املاک کو نقصان پہنچانے پر آمدہ کرنے میں ملوث ہے۔ اسے پولیس تا حال گرفتار نہیں کر سکی ہے۔
اس وقت پاکستان تحریک انصاف کے اہم رہنما کراچی سے باہر ہیں اور زیادہ تر رہنمائوںنے بلوچستان کے مضافاتی علاقوں میں پناہ لے رکھی ہے جس کے بارے میں کراچی پولیس کے بعض افسران کو بھی علم ہے۔ مگر پولیس اس معاملے میں خاموشی اختیار کئے بیٹھی ہے۔ جبکہ بعض پی ٹی آئی رہنمائوں کو ایم کیو ایم کے سلیپر سیلز کی جانب سے بھی معاونت فراہم کی جا رہی ہے اور ان کی جانب سے پی ٹی آئی کے کئی رہنمائوں کو خفیہ پناہ گاہیں بھی فراہم کی گئی ہیں جس کی ہدایت ان کارکنان کو ڈائریکٹ لندن سے الطاف حسین کی جانب سے ملی ہیں۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ ایم کیو ایم لندن اس معاملے میں پی ٹی آئی رہنمائوں کو مکمل مدد فراہم کر رہی ہے اور اپنے کراچی میں موجود وفاداروں کو بھی ہدایت دی ہے کہ ہر ممکن مدد پی ٹی آئی کے ان افراد کو فراہم کی جائے جن پر پولیس کی جانب سے مقدمات قائم کئے گئے ہیں۔ اس وقت پولیس کے ان سیلوں کی جانب سے مقدمات میں ملوث ملزمان سے بھاری رشوتیں وصول کی جا رہی ہیں جنہیں سندھ حکومت اور پولیس کے اعلی افسران نے ان ملزمان کی گرفتاری کا ٹاسک دیا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ پولیس کی جانب سے پی ٹی آئی کی اعلی قیادت کو اس وقت تک گرفتار نہیں کیا جائے گا جب تک وہ اپنی قبل از گرفتاری ضمانتیں حاصل نا کر لیں یا ان کے ساتھ حکومتی سطح پر کوئی ڈیل نا ہو جائے۔
اس کے ساتھ ساتھ پی ٹی آئی کے جن کارکنان کی جانب سے موبائل فون اور شہریوں کی سے نقدی چھینی گئی تھی انہیں بھی کراچی پولیس اب تک گرفتار نہیں کر سکی ہے اور جن شہریوں کی نجی املاک جس میں موٹر سائیکلیں شامل ہیں کو پی ٹی آئی کارکنان کی جانب سے نذر آتش کیا گیا تھا ان کو بھی حکومت کی جانب سے تاحال کوئی ریلیف فراہم نہیں کیا جا سکا ہے۔ شہریوں کی جانب سے روزانہ کی بنیاد پر تھانوں کی چکر لگائے جا رہے ہیں مگر وہاں بھی ان کی کوئی شنوائی نہیں ہو رہی ہے اور نا ہی انہیں کوئی جواب دیا جا رہا ہے کہ ان کی جو موٹر سائیکلیں جلائی گئی تھیں ان کا معاوضہ انہیں کون دے گا ،
اسپیشل برانچ ذرائع کا کہنا ہے کہ اگر کراچی پولیس ٹیکنیکل بنیادوں پر کام کرے اور ساتھ ساتھ ہیومن انٹیلی جنس کا استعمال کرے تو جو پی ٹی آئی کے رہنما فرار ہیں انہیں پولیس 24گھنٹوں میں گرفتار کر سکتی ہے اور پولیس کو بخوبی علم ہے کہ اس وقت کون کون سے رہنما کہاں موجود ہیں مگر پولیس کی جانب سے اپنے نامعلوم مفاد کی بنا پر ان کے خلاف کوئی کارروائی عمل میں نہیں لائی جا سکی ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ پولیس نے اب تک اس صورتحال سے خوب فائدہ اٹھایا ہے اور کروڑوں روپے ملزمان کو سہولت فراہم کرنے کی مد میں کما چکی ہے۔ اس معاملے میں اب سندھ حکومت کی جانب سے سی ٹی ڈی کی مدد لینے کا فیصلہ کیا گیا ہے اور سی ٹی ڈی کو اپنے تمام وسائل بروئے کار لاتے ہوئے مقدمات میں ملوث ملزمان کو گرفتار کرنے کا ٹاسک دیے جانے کا امکان ہے۔