عمران خان :
کراچی کے مختلف علاقوں میں جعلی زرعی ادویات تیار کرنے والے کارخانوں کا انکشاف ہوا ہے۔ انتہائی مضر صحت کیمیکلز سے تیار زرعی ادویات کو شہرکے علاوہ اندرون سندھ اور جنوبی پنجاب بھی سپلائی کیا جارہا ہے۔
یوں یہ مضر صحت زرعی ادویات کراچی کے مضافاتی علاقوں ملیر، میمن گوٹھ، گڈاپ اور گڈاپ میں پیدا ہونے والی فصلوں کے ساتھ اندرون سندھ اور جنوبی پنجاب کی فصلوں پر بھی استعمال کی جارہی ہے۔ ماہرین صحت کے مطابق فصلوں پر مضر صحت کیمیکلز سے تیار زرعی ادویات کے چھڑکاؤ سے اس کا اثر پھلوں اور سبزیوں میں رہ جاتا ہے، جس سے معدے اور جگر کے مختلف امراض کے ساتھ نفسیاتی اثرات بھی مرتب ہوتے ہیں۔ اس انکشاف کے بعد یہ سوال پیدا ہوگیا ہے کہ کیا ہمیں سبزیوں اور پھلوں کی شکل میں زہر کھلایا جا رہا ہے؟۔
’’امت‘‘ کو دستیاب اطلاعات کے مطابق شہر میں جعلی زرعی ادویات تیار کرنے کے کئی کار خانے کھلے عام چلائے جا رہے ہیں جہاں سے بڑی مقدار میں جعلی زرعی ادویات (پیسٹی سائیڈ) اور فرٹیلائزر تیار کر کے ملیر ،حب اور اندرون سندھ کے علاقوں میں سپلائی کی جا رہی ہے۔ شہر میں کئی ایسے غیر قانونی کارخانے قائم ہیں جہاں پر فصلوں سے کیڑے مکوڑوں، سنڈیوں اور فاضل جڑی بوٹیوں کو ختم کرنے کے لیے جعلی زرعی ادویات تیار کر کے ان کو کراچی سمیت اندرون سندھ کے علاقوں میں سپلائی کیا جا رہا ہے۔
ان جعلی زرعی ادویات میں سنڈیوں اور جڑی بوٹیوں کے خاتمے کے لئے استعمال کی جانے والے زنک ایسڈ اور زنک سلفیٹ کو سرے سے شامل ہی نہیں کیا جارہا بلکہ ان دونوں اہم اجزا کی جگہ موٹی ریت پر چونا کی تہہ چڑھادی جاتی ہے اور مصنوعی خوشبو کا چھڑکاؤ کردیا جاتا ہے تاکہ اس میں سے زنک ایسڈ اور زنک سلفیٹ جیسی مہک آئے۔ بعد ازاں اس جعلی زرعی دوا کو اصلی دوا کی قیمت پر فروخت کردیا جاتا ہے۔
’’امت‘‘ کو معلوم ہوا ہے کہ اس وقت جعلی زرعی ادویات اور فرٹی لائزر تیار کرنے کے بیشتر چھوٹے بڑے کارخانے منگھو پیر ،سرجانی ٹائون ،میمن گوٹھ ،گلشن معمار ، بن قاسم اور بھینس کالونی میں قائم ہیں۔
اس ضمن میں ماہر امراض معدہ ڈاکٹر ساجد عباس نے رابطہ کرنے پر ’’امت‘‘ کو بتایا کہ سیزن کی سبزیوں اور پھلوں کی کاشت کے دوران چونکہ انہیں مضر اور فالتو جڑی بوٹیوں اور کیڑے مکوڑوں سے محفوظ رکھنا ضروری ہوتا ہے اس لئے انہیں تلف کرنے کے لیے مختلف قسم کی مستند زرعی ادویات کا چھڑکائو کیا جاتا ہے لیکن یہ پیسٹی سائڈ ادویات چونکہ مختلف قسم کے زہریلے مادوں پر مشتمل ہوتی ہیں اس لیے ان کی مخصوص مقدار ہی استعمال کی جاتی ہے جبکہ لائسنس یافتہ کمپنیاں اپنی خاص خوراک کے مطابق اس میں کیمیکل استعمال کرتی ہیں لیکن اگر یہ ادویات جعلی یا زیادہ استعمال کی جائیں تو ان کے ثرات کچے پھلوں اورسبزیوں کے اندر جا سکتے ہیں جس سے انسانی صحت پر مضر اثرات رونما ہوسکتے ہیں۔شہری پھلوں اور سبزیوں کو صاف پانی سے اچھے طریقے سے دھو کر استعمال کریں تاکہ ان زہریلے مادوں کے اثرات کو کم سے کم کیا جاسکے۔
’’امت ‘‘ کی معلومات کے مطابق شہر کے مضافاتی علاقوں ملیر،گڈاپ اور حب میں وسیع اراضی پر سبزیوں سمیت مختلف پھلوں اور فصلوں کی کاشت کی جاتی ہے۔ ان میں سے زیادہ تر فصلوں پر یہی جعلی ادویات استعمال کی جارہی ہیں۔ جعلی زرعی ادویات قائم کرنے والے مختلف کارخانوں کے خلاف متعدد تھانوں میں کئی مقدمات درج ہیں تاہم عملی کارروائی نہ ہونے کی وجہ سے یہ کارخانے مسلسل چل رہے ہیں۔ منگھو پیر کے علاقے میں چنگی ناکے سے فور کے سرجانی کی طرف جانے والی سڑک پر پرانے پولٹری فارمز کے خالی پلاٹوں پر بھی یہ کام دھڑلے سے کیا جارہا ہے۔
یہاں تیار ہونے والی جعلی زرعی ادویات اور کھاد نہ صرف اندرون سندھ بلکہ جنوبی پنجاب کے شہروں صادق آباد اور رحیم یار خان تک سپلائی کی جارہی ہے ۔ان شہروں میں آم اور تربوز سمیت دیگر پھلوں اور سبزیوں کی بڑی مقدارکاشت کرکے ملک بھر میں سپلائی کی جا تی ہے۔ اسی علاقے میں ایک پلاٹ پر جعلی زرعی ادویات کا کارخانہ چلانے والے مہدی جعفری نامی شخص اور اس کے بیٹے حسنین جعفری کے خلاف منگھو پیر تھانے میں مختلف اوقات میں تین مقدمات درج ہو چکے ہیں۔تاہم اس کے باوجود بھی یہ مذموم دھندہ رک نہیں سکا ہے۔
’’امت‘‘ کی تحقیق کے مطابق جعلی زرعی ادویات تیار کر نے کے لئے فیکٹری مالکان نے مختلف قسم کے کیمیکل اور اس کی مصنوعی خوشبویات اسٹاک کر رکھی ہیں جو تیاری میں استعمال کی جاتی ہیں۔ ان جعلی ادویات کو مختلف معروف برانڈز کے نام کی پیکنگ میں مارکیٹ میں فروخت کیا جاتا ہے۔
جعلی کھاد اور جعلی زرعی ادویات تیار کرنے کے لئے ان دوائوں کو تیار کرنے کے لئے ملزمان نے کراچی کے صنعتی ایریاز میں کارخانے قائم کر رکھے ہیں۔ گڈاپ ،منگھو پیر اور بن قاسم کے علاقوں سے ہی بیرون شہر جانے والی سڑکیں گزرتی ہیں اس لئے ان علاقوں سے اس سامان کو راتو رات بیرون شہر منتقل کرنا آسان ہوتا ہے جبکہ گندے نالے قریب ہونے کے باعث کیمیکل والے پانی کی نکاسی کا معاملہ بھی آسان ہوجاتا ہے اور شہری علاقوں کے قریب بجلی گیس کی دستیابی بھی کوئی مسئلہ نہیں۔ جن علاقوں میں یہ جعلی کار خانے قائم ہیں وہاں ان کار خانوں سے خارج ہونے والے کیمیکل والے زہریلے پانی کی وجہ سے شدید ماحولیاتی آلودگی بھی پھیل رہی ہے۔کیونکہ یہ ادویات اور کھاد تیار کرنے والی فیکٹریوں کے لئے 1973ء کے آڈیننس میں خاص معیار اور قواعد و ضوابط مقرر کئے گئے ہیں تاہم جعلی کھاد اور زرعی ادویات تیار کرنے والے چھوٹے چھوٹے کار خانوں میں کسی بھی قانون اور قاعدے کا خیال نہیں رکھا جا رہا۔
’’امت ‘‘ کو انتہائی زمہ دار ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ اس شہر میں جعلی زرعی ادویات اور کھاد تیار کرنے والے 25 سے زائد کار خانے قائم ہیں۔ ڈی اے ٹی فرٹیلائزرکی فی بوری 12 ہزار سے زائد روپے میں فروخت کی جا رہی ہے اور اس طرح سے ایک جانب تو ایک بوری پر ہزاروں روپے اضافی رقم کمائی جا رہی ہے اور دوسری جانب زہریلی اور مضر صحت (اسپوریس ) کھاد تیار کر کے ماحولیاتی آلودگی اور انسانی صحت کے لئے خطرات پیدا کیے جارہے ہیں۔
ذرائع کے بقول شاہ لطیف ٹاؤن، بھینس کالونی اور صالح محمد گوٹھ میں جعلی کھاد تیار کرنے والے کئی کار خانے دن رات کام کر رہے ہیں اور ان سے خار ج زہر آلود کیمیکل والے پانی کو سیوریج نالوں کے ذریعے ایک جانب ملیر ندی میں بہایا جا رہا ہے تو دوسری جانب بھینس کالونی کے عقبی علاقے سے گزار کر سمندر میں نکاسی کی جا رہی ہے۔ ایسے کار خانوں میں 5 افراد سے لے کر 10 افراد تک کام کر تے ہیں اور مکسر مشین کے علاوہ ڈرایئر مشین سے چھوٹے پیمانے پر جعلی کھاد تیار کرنے کا کام مسلسل کیا جا رہا ہے۔