امت رپورٹ:
معروف دفاعی تجزیہ نگار بریگیڈیئر (ر) آصف ہارون راجہ کا کہنا ہے کہ 9 مئی کو ہونے والا جلائو گھیرائو اور حملے فوج کو کمزور کرنے کا آخری کارڈ تھا، لیکن یہ منصوبہ ناکام بنا دیا گیا۔ اب وقت آگیا ہے کہ اس گھنائونے منصوبے پر عمل کرنے والوں، منصوبہ سازوں اور اکسانے والوں کے خلاف کسی رحم کے بغیر قانون کے مطابق کارروائی کی جائے۔
اپنے حالیہ دو مضامین میں بریگیڈیئر (ر) آصف ہارون کہتے ہیں۔ ’’اس سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ فوج دفاع کی پہلی اور آخری لائن ہے۔ ایک بار جب یہ لکیر اندر سے ٹوٹ جائے تو پھر پرفتن نعرے، خوشنما بیان بازی، بلند و بالا وعدے، کرشمہ اور مقبولیت کچھ بھی کام نہیں آتا ہے۔ ہمیں اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ پاکستان کو ایک متحرک اور مضبوط مسلح افواج سے نوازا گیا ہے جو کسی سے پیچھے نہیں اور دنیا نے دہشت گردی کے خلاف طویل ترین جنگ میں اس کی شاندار کارکردگی کو دیکھ کر اس کی تعریف اور اعتراف کیا ہے۔ 9 مئی کو آتش زنی شاید آخری ٹرمپ کارڈ تھا جو فوج کی بنیادیں ہلانے میں تقریباً کامیاب ہو گیا تھا۔
یہ انتہائی خطرناک منصوبہ، ماسٹر پلانرز کے مکمل تعاون اور بیک اپ سپورٹ کے بغیر شروع نہیں کیا جا سکتا تھا۔ماسٹر پلانرز جو کچھ عرصہ پہلے تک خوش ہوتے تھے، اب مایوس ہو چکے ہیں۔ انہوں نے اپنے پنجے دکھانا شروع کر دیے ہیں اور پاکستان کو سزا دینے کے لیے اپنے دانت تیز کر لیے ہیں۔ زلمے خلیل زاد، امریکی کانگریس کے اراکین، آئی ایم ایف، صیہونیوں کے اشارے پر، امریکی نیو کونز اور گولڈ اسمتھ اپنے چہیتے ( عمران )کو بچانے کے لیے اکٹھے ہو گئے ہیں۔ براہ راست حملہ جو کہ ایک انتہائی مہنگا آپشن ہے، لہٰذا ان کے لیے دستیاب بہترین طریقہ پاکستان کی معیشت کو پگھلا کر اسے ایک ناکام ریاست بنانا ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل اور فوج اور آئی ایس آئی کی کوششوں سے یہ منصوبہ ناکام ہوگیا ہے۔ سمندری طوفان کو بوتل میں بند کر دیا گیا ہے۔ منصوبہ سازوں، حوصلہ افزائی کرنے والوں، اکسانے والوں اور مجرموں کے گلے کا پھندا تنگ کر دیا گیا ہے اور ان کے فرار کے راستے مسدود ہو گئے ہیں۔ رحم کی اپیلوں کو مسترد کر دینا چاہیے۔ اللہ تعالٰی نے جزا اور سزا مقرر کی ہے اور جنت اور جہنم کو بنایا ہے۔آتش زنی کرنے والوں کے ساتھ اشتعال انگیزی اور منصوبہ سازوں کے لیے کوئی رحم نہیں کیا جانا چاہیے۔
پاکستان کے دوستوں کی مدد سے ڈوبتی ہوئی معیشت کو بچانے کی کوششیں جاری ہیں۔ کچھ اشارے اچھی امیدیں دے رہے ہیں۔ پاکستان کا وجود ایک معجزہ تھا، اس کی بقا ایک معجزہ ہے، اور ان شاء اللہ یہ موجودہ بحرانوں سے نکل جائے گا۔ لیکن عام حالات میں واپس آنے میں عمریں لگیں گی کیونکہ بغاوت کا جو زہر دو دہائیوں سے بوڑھے، ادھیڑ عمر اور نوجوان نسل کے ذہنوں میں پیوست تھا اس کے برے اثرات سے چھٹکارا پانے میں وقت درکار ہے۔‘‘
آصف ہارون مزید کہتے ہیں ’’فوجی تنصیبات اور شہدا کی یادگاروں پر حملوں کے پیچھے چھپے مقاصد میں سے ایک فوجی جوانوں کو مشتعل کرنا اور انہیں مشتعل افراد پر اندھا دھند فائرنگ کرنے پر مجبور کرنا تھا۔ بالکل اسی طرح جیسے مئی دو ہزار چودہ میں لندن پلان کے تحت پنجاب پولیس کو مشتعل کرنے کے لیے اندر سے چلائی گئی اور جواب میں اسے گولی چلانے پر مجبور کیا گیا۔ طاہر القادری نے لاہور کے قلب میں واقع اپنے منہاج القرآن کو نوگو ایریا میں تبدیل کر دیا تھا، جہاں مسلح عسکریت پسند بھی تعینات تھے۔
جون دو ہزار چودہ میں پولیس کے ہاتھوں چودہ افراد کی ہلاکت کو سب سے بڑا ایشو بنا کر کربلا جیسے قتل عام کے طور پر پیش کیا گیا۔ وزیراعظم، وزیراعلیٰ پنجاب، رانا ثناء اللہ، نون لیگی دور حکومت کے سینئر وزراء اور آئی جی پنجاب کے خلاف ایف آئی آر درج کی گئی تھیں۔ جس نے پی ٹی آئی اور پاکستان عوامی تحریک کو اسلام آباد تک لانگ مارچ شروع کرنے کا سبب دیا جو ایک سو چھبیس دن کے دھرنے پر ختم ہوا۔ ماڈل ٹاؤن قتل عام کا ڈھول پاکستان عوامی تحریک نے دو ہزار انیس تک بجایا۔ لیکن تحریک انصاف جو آج تک اس کا ڈھول پیٹتی رہی، اپنے پونے چار سالہ دور میں یہ ثابت کرنے میں ناکام رہی کہ یہ سب کچھ مسلم لیگ ن کی کارستانی تھی۔
9 مئی دو ہزار تیئیس کو بھی اسی مقصد کے ساتھ آرمی چیف اور فوج کے خلاف ایک شیطانی مہم شروع کرنے اور جنرل عاصم کو مستعفی ہونے پر مجبور کرنے کی منصوبہ بندی کی گئی تھی۔ لیکن یہ خوفناک منصوبہ ناکام ہو گیا۔
منصوبہ سازوں کو یہ دیکھ کر مایوسی ہوئی کہ تقریباً تمام بلوائیوں کے ساتھ ساتھ کئی اکسانے والوں کو سی سی ٹی وی فوٹیج، کیمروں اور نادرا ریکارڈ کے ذریعے شناخت کر کے گرفتار کر لیا گیا اور جب تفتیش کاروں کو زمان پارک کی بو آنے لگی اور انہوں نے نشاندہی کی کہ گھر کے اندر چھپے ساٹھ سے زائد سخت گیر عسکریت پسند 9 مئی کی تباہی میں براہ راست ملوث تھے تو وہ گھبرا گئے۔ شہداء کی یادگاروں اور قبروں کی بے حرمتی کے باعث لوگوں کے بڑھتے ہوئے غصے نے ان کی پر یشانی بڑھا دی۔ ان شواہد نے حکومت کو کریک ڈاؤن شروع کرنے اور بلوائیوں کے ساتھ آہنی ہاتھوں سے نمٹنے کی ایک حقیقی وجہ فراہم کی۔ کریک ڈاؤن کے چند ہی دنوں میں، پی ٹی آئی کے رہنماؤں نے پارٹی کو چھوڑنا شروع کر دیا۔ دو ہفتوں میں، سب سے بڑی، مضبوط اور مقبول ترین پارٹی ایک ڈھانچے میں سمٹ کر رہ گئی ہے اور قوی امکان ہے کہ یہ تین حصوں میں تقسیم ہوجائے گی۔ اگر پی ٹی آئی ٹوٹ پھوٹ سے بچ بھی جاتی ہے تو جس کے خلاف نیب اور دیگر عدالتوں میں ڈیڑھ سو کیسز زیر التوا ہیں، شاید اتنا خوش نصیب ثابت نہ ہو۔
آصف ہارون کہتے ہیں ’’حقیقی آزادی کا اونی تصور ہوا میں اڑ گیا۔ زیادہ تر نام نہاد شیر جیلوں میں ہیں جبکہ دیگر ’’جہادی‘‘ روپوش ہو چکے ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے تک اونچے گھوڑے پر سوار عمران خان بڑے تکبر سے کہہ رہے تھے کہ پی ڈی ایم کے لیڈر تو ہاتھ ملانے کے بھی قابل نہیں،اب وہ ان سے بات کرنے کو ترس رہے ہیں۔ شدید مشکلات اور فرار کا راستہ مسدود دیکھ کر عمران خان کی ڈائریکشن پر پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا نیٹ ورک نے جعلی خبروں، کہانیوں، ویڈیو وآڈیو کلپس اور ٹویٹر پیغامات کا ایک نیا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔ پاکستان اور بیرون ملک سے کام کرنے والے پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا کے وسیع نیٹ ورک کے ذریعے نیا جھوٹا بیانیہ بنانے کی کوشش کی جارہی ہے۔
اس نئے بیانیے کا مقصد پی ٹی آئی کے شرپسندوں کی توڑ پھوڑ پر پردہ ڈالنا، منصوبہ سازوں اور اکسانے والوں کے کردار کو چھپانا اور سارا الزام حکومت اور ریاستی اداروں کی ٹوکری میں ڈالنا ہے۔ قتل عام کی مذمت کرنے کے بجائے وہ سوال پوچھ رہے ہیں کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں نے حملہ آوروں کو کیوں نہیں روکا اور فوجی تنصیبات کو جل کر راکھ ہونے سے بچانے کے لیے گولیاں کیوں نہیں چلائیں؟
اس حقیقت کے باوجود کہ 9 مئی کو فوج، پولیس اور نیم فوجی دستوں کی فائرنگ سے کوئی جانی نقصان نہیں ہوا، عالمی میڈیا پاک فوج کے جوانوں کی جانب سے شہریوں کو ہلاک کرنے کی نشاندہی کر رہا ہے۔ یہ کہانی پی ٹی آئی کی پہلے سے تیار کی گئی حکمت عملی کے مطابق تھی تاکہ اسے سانحہ ماڈل ٹاؤن کی طرح سیاسی فائدے کے لیے استعمال کیا جا سکے۔ [
یہ سوالات بھی لوگوں کے ذہنوں میں شکوک و شبہات ڈالنے کے لیے شرارت سے پوچھے جا رہے ہیں اور یہ تاثر دیا جا رہا ہے کہ یہ ایجنسیوں کی طرف سے پی ٹی آئی کو پھنسا کر اس پر پابندی لگانے کا بڑا جال تھا۔ لیکن یہ بیانیہ آگے نہ بڑھ سکا، چونکہ جمع کیے گئے شواہد فول پروف ہیں۔ ایک اور بیانیہ چلایا جا رہا ہے کہ پولیس پی ٹی آئی سے وابستہ لڑکیوں اور خواتین کے گھروں پر چھاپے مارتے ہوئے ان کے ساتھ بدتمیزی کر رہی ہے۔ اور پولیس حراست کے دوران بعض کے ساتھ زیادتی کی گئی۔ اس جھوٹے بیانئے کو بغیر تصدیق کے عالمی میڈیا نے بھی ہاتھوں ہاتھ لیا۔ لیکن خود پی ٹی آئی کی گرفتار خواتین نے یہ کہہ کر اس بیانئے کے غبارے سے ہوا نکال دی ہے کی جیل میں ان کے ساتھ کوئی بدسلوکی نہیں کی جارہی ہے۔‘‘