امت رپورٹ:
تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی جانشینی کے اگرچہ بہت سے خواہش مند ہیں۔ ان میں شاہ محمود قریشی، اسد عمر اور پرویز خٹک سرفہرست رہے۔ تاہم تحریک انصاف کے ایک سے زائد ذرائع کا دعویٰ ہے کہ عمران خان اپنا جانشین مراد سعید کو بنانا چاہتے ہیں۔
سانحہ 9 مئی کے بعد اگرچہ صورتحال تبدیل ہوئی ہے۔ مراد سعید فوجی تنصیبات پر حملوں کے منصوبہ ساز کے طور پر پولیس کو مطلوب ہے اور تاحال مفرور ہے۔ لیکن مراد سعید کو اپنا جانشین بنانے سے متعلق عمران خان کی سوچ میں تبدیلی نہیں آئی ہے۔ واضح رہے کہ کچھ عرصہ پہلے عمران خان نے کہا تھا کہ اگر وہ گرفتار یا نااہل ہوگئے تو پارٹی کو وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی چلائیں گے۔ جو تھری ایم پی او کے تحت جیل میں تھے۔ تاہم منگل کے روز انہیں رہا کر دیا گیا۔ شاہ محمود قریشی نے اس آس پر تاحال نہ تحریک انصاف اور نہ پارٹی عہدہ چھوڑا ہے کہ اگلے ممکنہ سربراہ وہی ہوں گے۔
تاہم پی ٹی آئی ذرائع کا کہنا ہے کہ عمران خان کی گرفتاری یا نااہلی کی صورت میں پارٹی چلانے کے لئے عمران کے متبادل کے طور پر شاہ محمود قریشی کو کمان دینا قلیل مدتی منصوبہ ہے۔ طویل مدتی پلان یہی ہے کہ آگے چل کر عمران اپنی خواہش کے مطابق جانشینی مراد سعید کے حوالے کرنا چاہتے ہیں۔ شاہ محمود قریشی کبھی بھی عمران خان کے زیادہ قابل اعتماد ساتھی نہیں رہے ہیں۔
قریبی لوگ جانتے ہیں کہ وہ کبھی بھی چیئرمین پارٹی کی گڈ بک میں نہیں تھے۔ تاہم حالات کے جبر نے وقتی طور پر پارٹی سربراہی کے لئے ان کا راستہ ہموار کردیا ہے۔ جبکہ جانشینی کے دوسرے امیدوار اسد عمر کے بارے میں جب سے عمران خان کو یہ اطلاع ملی ہے کہ انہوں نے فرمائشی گرفتاری دی تھی اور یہ کہ وہ وکٹ کے دونوں اطراف کھیل رہے ہیں۔ جانشینی کے لئے ان کے امکانات معدوم ہو چکے ہیں۔ اسی طرح پرویز خٹک پر بھی اب عمران خان پہلے کی طرح اعتماد نہیں کرتے اور خود پرویز خٹک بھی پچھلے کافی عرصے سے چیئرمین کی انتہا پسند پارٹی پالیسیوں پر خوش نہیں تھے۔ اب اسد عمر اور پرویز خٹک دونوں اپنے پارٹی عہدوں سے دستبردار ہو چکے ہیں۔ ایسے میں شاہ محمود قریشی کے لئے وقتی طور پر میدان کھلا ہے۔
تحریک انصاف میں مراد سعید کے عروج اور عمران خان کے منظور نظر بننے تک کے معاملے سے آگاہ ذرائع نے بتایا کہ دو ہزار گیارہ تک مراد سعید کو پارٹی میں کوئی نہیں جانتا تھا۔ وہ پشاور یونیورسٹی میں تحریک انصاف کے طلبا ونگ آئی ایس ایف کی بنیاد رکھنے والوں میں سے ایک تھا۔ لہٰذا پارٹی کے سیاسی معاملات سے اس کا کوئی لینا دینا نہیں تھا۔
ایک اہم پی ٹی آئی عہدیدار نے بتایا ’’آئی ایس ایف سے وابستہ مراد سعید کی حیثیت جلسوں میں زندہ باد مردہ باد کا نعرہ لگانے والوں سے بڑھ کر نہیں تھی۔ میں ان دنوں پی ٹی آئی اسلام آباد کے دفتر کو سنبھالا کرتا تھا اور عمران خان کے بہت قریب تھا۔ لہٰذا پارٹی کے زیادہ تر رہنمائوں کو چیئرمین سے ملنا ہوتا یا ان سے کوئی کام ہوتا تو وہ مجھ سے رابطہ کیا کرتے تھے۔
ان دنوں عامر محمود کیانی نے اپنا ریئل اسٹیٹ کا دھندا تیز کر رکھا تھا اور وہ مختلف ہائوسنگ سوسائٹیز بنا رہا تھا۔ ان میں سے ہی ایک سوسائٹی میں اسد قیصر نے بھی پلاٹ خریدا تھا۔ اس مد میں اس نے عامر کیانی کو پچھتر لاکھ روپے دیئے تھے۔ لیکن وہ انہیں پلاٹ کا قبضہ نہیں دے رہا تھا۔ اس سلسلے میں صوابی سے اکثر اسد قیصر کا میرے پاس اسلام آباد آنا ہوا کرتا تھا۔ وہ منتیں کرتے تھے کہ عامر کیانی سے میں انہیں پلاٹ کا قبضہ دلادوں۔ اسد قیصر کے ساتھ اکثر مراد سعید بھی ہوا کرتا تھا۔ تاہم میں مراد سعید کو دفتر میں نہیں آنے دیتا تھا۔ لہٰذا اسد قیصر اسے باہر چھوڑ کر آیا کرتے تھے اور مراد سعید باہر گھوم پھر کر یا گاڑی میں بیٹھ کر انتظار کرتا‘‘۔
پارٹی عہدیدار کے مطابق پھر ایک روز اچانک ایک ایسی خبر آئی جس نے پارٹی کے اندر بہت سوں کو حیران کر دیا۔ معلوم ہوا کہ دو ہزار تیرہ میں انٹرا پارٹی الیکشن میں مراد سعید بھی خیبرپختونخوا سے صوبائی صدر کے امیدوار کے طورپر الیکشن لڑ رہا ہے۔ اس عہدے کے لئے پارٹی کے دو ہیوی ویٹ اسد قیصر اور پرویز خٹک بھی آمنے سامنے تھے۔
ان ہاتھیوں کے درمیان ’’آئی ایس ایف کے ایک چھوکرے‘‘ کا پارٹی کے اعلیٰ عہدے کے لئے الیکشن لڑنا حیران کن بات تھی۔ لیکن اس سے بھی زیادہ حیرانی اس وقت ہوئی جب پارٹی کے حلقوں میں یہ باز گشت سنائی دی کہ عمران خان یہ کہتے پھر رہے ہیں کہ وہ نوجوان قیادت کو آگے لانا چاہتے ہیں۔ لہٰذا الیکشن میں یہ لڑکا جیتے گا اور یہ سب کے لئے سرپرائز ہوگا۔ سب حیران تھے کہ پارٹی میں اور بھی درجنوں متحرک نوجوان کارکنان ہیں۔
مراد سعید کے لئے عمران خان کی اتنی نوازش اور اسے صوبائی صدر کے عہدے پر دیکھنے کی خواہش سب کے لئے اچھنبا تھی۔ الیکشن ہوگیا۔ تاہم عمران خان کی خواہش پوری نہ ہوسکی اور مراد سعید ہار گیا۔ الیکشن میں دل کھول کر پیسہ چلا۔ خاص طور پر پرویز خٹک نے بہت مال لگایا تھا۔ پرویز خٹک کا خاص بندہ باہر گاڑی میں پیسے لے کر بیٹھا تھا اور جو بھی ووٹ کے لئے آتا۔ اس گاڑی سے ہوکر اندر جاتا تھا۔ اس کے باوجود پرویز خٹک معمولی فرق کے ساتھ اسد قیصر سے یہ الیکشن ہار گئے۔ یوں اسد قیصر دوسری بار صوبائی صدر بن گئے۔ اس انٹرا پارٹی الیکشن میں مراد سعید کو ستائیس سے زائد ووٹ پڑے تھے۔
یعنی فتحیاب امیدوار کے مقابلے میں ووٹوں کی یہ تعداد نصف تھی۔ اس بات نے بھی سب کو حیران کیا۔ پرویز خٹک پیسے لگانے کے باوجود صوبائی صدارت کا الیکشن ہارگئے تو انہیں ایڈجسٹ کرنے کے لئے پارٹی کے مرکزی سیکریٹری جنرل کے عہدے پر الیکشن لڑایا گیا۔ اس پر بھی بہت پیسہ چلا۔ خاص طور پر بلوچستان سے بڑی تعداد میں ووٹ خریدے گئے۔ پرویز خٹک کو کامیاب کرانے کے لئے یہ پیسے جہانگیر ترین نے دیئے تھے۔
الیکشن میں دھاندلی اور پیسے چلانے کا شور ہوا تو اس کی تحقیقات کے لئے ٹریبونل بنایا گیا۔ جس کی سربراہی جسٹس (ر) وجیہ الدین احمد کو دی گئی۔ جسٹس (ر) وجیہ نے انکوائری کرکے ثابت کیا تھا کہ انٹرا پارٹی الیکشن میں کھل کر پیسہ چلایا گیا۔ عمران خان کے امریکہ والے ایک دوست رفیع خان نے باقاعدہ اپنا دستخط شدہ حلف نامہ جسٹس وجیہ کو دیا تھا۔ جس میں اعتراف کیا گیا تھا کہ اس نے جہانگیر ترین کی ایما پر پرویز خٹک کے لئے ووٹ خریدنے کی خاطر اپنے ہاتھوں سے نقد رقوم تقسیم کی تھیں۔
بلوچستان سے ووٹ خریدنے کے لئے یہ پیسے الیکشن سے ایک روز پہلے ایک ہوٹل میں بیٹھ کر بانٹے گئے تھے۔ ان شواہد کی روشنی میں جسٹس وجیہ نے پرویز خٹک، جہانگیر ترین اور نادر لغاری سمیت چار مرکزی رہنمائوں کو پارٹی سے نکال دیا تھا۔ تاہم عمران خان نے یہ حکم سنانے والے ٹریبونل کو ہی تحلیل کر دیا۔ یہ تنازعہ اتنا بڑھا کہ الٹا جسٹس وجیہ کو پارٹی چھوڑنا پڑگئی تھی۔
خیبرپختونخوا سے تعلق رکھنے والے ایک اور پی ٹی آئی عہدیدار کے بقول پارٹی میں اچانک اہم بن جانے والا مراد سعید جب عمران خان کی خواہش کے برعکس صوبائی صدارت کا الیکشن ہارگیا تو اس کا ازالہ کرنے کے لئے پارٹی چیئرمین نے اسے قومی اسمبلی کا ٹکٹ جاری کر دیا۔ یوں دو ہزار تیرہ کا الیکشن لڑ کر مراد سعید پہلی بار رکن قومی اسمبلی بنا۔
پارٹی کے بیشتر لوگ مراد سعید پر عمران خان کی نوازشات پر حیران تھے۔ لیکن کسی میں سوال کرنے کی جرات نہیں تھی۔ دو ہزار تیرہ کا الیکشن جیتنے کے بعد ہی پارٹی میں مراد سعید کا اصل عروج شروع ہوا اور اس کا بنی گالہ آنا جانا بڑھ گیا تھا۔ دو ہزار اٹھارہ میں بھی اسے قومی اسمبلی کا ٹکٹ دیا گیا اور ایک بار پھر وہ رکن پارلیمنٹ بن گیا۔
اس بار اسے ایک سے زائد وزارتوں کا قلمدان بھی ملا۔ جبکہ اس کا شمار عمران خان کے انتہائی قریبی لوگوں میں ہونے لگا اور عمران خان خود بھی پارٹی میٹنگز میں مراد سعید کی تعریفیں کرتے دکھائی دیتے اور پارٹی کے سینئر ترین رہنما یہ سب کچھ دیکھ کر حیران ہوتے۔ عہدیدار کے بقول مراد سعید کے ان ہی عروج کے دنوں میں عمران خان کی سابقہ اہلیہ ریحام خان کی کتاب منظر عام پر آئی تو کئی رہنمائوں کے چہروں پر سوالیہ نشان ضرور دکھائی دیتے تھے۔ لیکن کوئی اس پر کھل کر بات نہیں کرتا تھا۔