شاہ محمود قریشی کی حد تک پینل کوڈسیکشن 100ثابت نہیں ہوا، فائل فوٹو
شاہ محمود قریشی کی حد تک پینل کوڈسیکشن 100ثابت نہیں ہوا، فائل فوٹو

شاہ محمود قریشی ڈیل کے تحت رہا ہوئے

احمد خلیل جازم :
دو روز قبل تحریک انصاف کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی لگ بھگ ایک ماہ اڈیالہ جیل راولپنڈی میں گزار کر لاہور ہائی کورٹ پنڈی بینچ کے حکم پر رہا ہوگئے ہیں۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ شاہ محمود قریشی ڈیل کے ذریعے باہر آئے ہیں۔ اور وہ ڈیل ہے، تحریک انصاف کو لیڈ کرنا۔ ورنہ وہ سب سے پہلے پریس کانفرنس کرنے والوں میں شامل ہوتے۔

ادھر اڈیالہ جیل ذرائع کا کہنا ہے کہ اس ایک ماہ کے دوران شاہ محمود قریشی کے ساتھ متعدد اہم لوگوں نے ملاقاتیں کیں۔ یہ ملاقاتیں ان کے سیل میں ہوتی رہیں اور جیل میں موجود دفاتر میں بھی ہوئیں۔ ان سے ملاقاتیں کرنے والے کون لوگ تھے؟ اس بارے تفصیلات معلوم نہیں۔ لیکن بہرحال یہ بات طے ہے کہ شاہ محمود قریشی سے ملاقات کرنے والے اکثر لوگ پہلے بھی تحریک انصاف کے رہنمائوں سے ملاقاتیں کر چکے ہیں۔

سینئر تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ شاہ محمود نے اپنی رہائی کے وقت کہا کہ، انصاف کا جھنڈا ان کے ہاتھ میں ہے۔ دراصل وہ کہنا چاہتے ہیں کہ تحریک انصاف کا جھنڈا ان کے ہاتھ میں ہے۔ جیل میں بعض لوگوں نے انہیں یہ گارنٹیاں دی ہیں کہ باہر آکر وہ تحریک انصاف کو لیڈ کریں۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے پریس کانفرنس نہیں کی۔ اس وقت جیل میں متعدد کارکنان کے علاوہ سینئر لیڈر شپ میں صرف شہریار آفریدی ہیں۔ جو ڈیتھ سیل نمبر ایک میں قید ہیں۔ ان کے بارے کہا جارہا ہے کہ ان کی طبعیت خراب ہے۔

سینٹرل جیل راولپنڈی جسے عام طور پر اڈیالہ جیل کہا جاتا ہے، اس کے ذرائع نے بتایا کہ، شاہ محمود قریشی اور شہریار آفریدی سے ڈھکی چھپی ملاقاتیں ہوئی ہیں۔ جب کہ تحریک انصاف کے بعض لوگوں نے بھی شاہ محمود قریشی سے ملاقاتیں کی ہیں۔

شاہ محمود قریشی پر تحریک انصاف چھوڑ جانے والے رہنمائوں کے علاوہ کسی نے پریس کانفرنس کرنے پر دبائو نہیں ڈالا۔ بلکہ شاہ محمود قریشی کے ساتھ جیل میں نرم رویہ رکھا گیا۔ انہیں کسی نے تنگ نہیں کیا، انہوں نے جیل میں ٹھیک وقت گزارا۔ جب کہ شہر یار آفریدی جیل میں تنگ ہیں۔ اڈیالہ جیل میں قیدی کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ صرف تین سیل جنہیں ڈیتھ سیل کہا جاتا ہے، ان میں سے آفریدی ایک نمبر میں قید ہیں۔ یہ اسپیشل سیلز دہشت گردوں کے لیے مختص تھے۔ جب انہیں ہائی سیکورٹی جیل ساہیوال بھجوایا گیا، تو اس وقت سے یہ سیلز خالی پڑے ہیں۔

ان میں سے ہر سیل کے مختلف کمرے ہیں، جن میں چھ سے آٹھ لوگ آسانی سے رہ سکتے ہیں۔ شہریار آفریدی کو پیٹ کے امراض لاحق رہے۔ لیکن مجموعی طور پر ان کی طبیعت بہتر ہے۔ شاہ محمود قریشی البتہ جیل میں بالکل صحت مند رہے۔ ان دونوں رہنمائوں کو جیل میس کا کھانا ہی ملتا رہا۔ آج کل جیل کے میس کا کھانا بہت بہتر ہوتا ہے، اس حوالے سے جیلوں میں بہت سختی کی گئی ہے۔ روزانہ تازہ روٹی اور سالن کی دیگیں پکتی ہیں جو سینئر جیل اہلکار اپنی زیر نگرانی تیار کراتے ہیں۔

میس کا کھانا پہلے سینئرز کے سامنے پیش کیا جاتا ہے اور ان کی اپروول کے بعد قیدیوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ اس لیے تحریک انصاف کے تمام رہنمائوں کو بھی وہی کھانا اور فلٹر شدہ پانی دیا جاتا ہے جو تمام قیدی استعمال کرتے ہیں۔ اس وقت رالپنڈی ریجن میں نو مئی کے واقعات کے میں گرفتار ملزمان مختلف جیلوں میں قید ہیں، جن میں سے اکثر پر توڑ پھوڑ جلائو گھیرائو اور پولیس کے کام میں مداخلت کے پرچے درج ہیں۔ یہ ملزمان اٹک، راولپنڈی، چکوال، اور گجرات کی جیلوں میں ہیں۔

شہریار آفریدی کے سیل پر چوبیس گھنٹے پہرہ ہوتا ہے اور دن رات دو سے چار مرتبہ سینئر افسران وزٹ کرتے ہیں۔ ڈاکٹر بھی دن میں ایک بار ان کا چیک اپ ضرور کرتا ہے۔ شہریار آفریدی جیل کاٹنے پر خاصہ دل گرفتہ ہیں۔ اور باربار کھانے اور پانی کی شکایت کرتے ہیں۔ جب کہ وہ رات کو نیند نہ آنے کی شکایت بھی کرتے رہتے ہیں۔ شاہ محمود قریشی نے ایسی کوئی شکایت نہیں کی تھی۔

دوسری جانب اسلام آباد کے سینئر صحافیوں کا کہنا ہے کہ شاہ محمود قریشی ڈیل کے ذریعے ہی باہر آئے ہیں۔ ورنہ انہیں دوبارہ گرفتار کرکے جیل میں ڈالنا کوئی مشکل نہ تھا۔ اس وقت تحریک انصاف کے چیئرمین کے سر پر نااہلی کی تلوار لٹک رہی ہے۔ جب کہ وہ شاہ محمود کو اپنی نااہلی کی صورت میں پارٹی سنبھالنے عندیہ بھی دے چکے ہیں۔

شاہ محمود قریشی نے اسی وجہ سے پریس کانفرنس نہیں کی۔ ورنہ شاہ محمود قریشی سب سے پہلے پریس کانفرنس کرکے باہر آجاتے۔ یہ بات درست نہیں ہے کہ انہیں کوئی پارٹی لینے کو تیار نہیں ہے، بلکہ وہ خود تحریک انصاف کو لیڈ کرنے کے دیرینہ خواب کی تعبیر پوری ہوتے دیکھ رہے ہیں۔