چیئرمین پی ٹی آئی کی حاضری سے استثنیٰ کی درخواست دائرکردی۔ فائل فوٹو
چیئرمین پی ٹی آئی کی حاضری سے استثنیٰ کی درخواست دائرکردی۔ فائل فوٹو

عمران خان کی پارٹی چھوڑنے والوں کو گالیاں

امت رپورٹ :
مکافات عمل کے شکار عمران خان کی مایوسی آخری حدوں کو چھو رہی ہے۔ وہ پارٹی چھوڑنے والوں کو نہ صرف سخت برا بھلا کہہ رہے ہیں۔ بلکہ شدت جذبات میں گالیاں بھی دینے لگتے ہیں۔ اس برے وقت میں انہیں پرانے پرخلوص ساتھی یاد آنے لگے ہیں۔ ان میں اکبر ایس بابر سرفہرست ہیں۔ چیئرمین پی ٹی آئی خصوصی پیغام لانے والے شاہ محمود قریشی پر برس پڑے۔

اسلام آباد میں تحریک انصاف کے اندرونی ذرائع نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ عمران خان آج کل اپنی رہائش گاہ زمان پارک لاہور میں آنے والے مٹھی بھر لوگوں کے سامنے دل کی بھڑاس نکالنے میں مصروف ہیں۔ خاص طور پر پارٹی کی ٹاپ لیڈر شپ کی طوطا چشمی پر وہ سخت برہم ہیں۔ جنہوں نے ان کے ساتھ جینے مرنے کی قسم کھائی تھی۔ وہ انہیں برے القاب سے پکارتے ہیں اور بعض اوقات غصے میں آکر گالیاں دینے لگتے ہیں۔ ساتھ ہی وہ اکبر ایس بابر کا نام لے کر کہتے ہیں کہ اگر وہ ان کی بات پر عمل کرلیتے تو آج انہیں یہ دن نہ دیکھنا پڑتا۔

واضح رہے کہ اکبر ایس بابر کا شمار پی ٹی آئی کے بانی رہنمائوں میں ہوتا ہے۔ تحریک انصاف اور عمران خان کے خلاف مشہور زمانہ فارن فنڈنگ کیس بھی ان کی پہچان ہے۔ جو انہوں نے پارٹی میں ہونے والی کرپشن کے خلاف 9 برس پہلے دائر کیا تھا۔ پارٹی سے ان کی یہ بغاوت حق پر مبنی تھی۔ شروع میں وہ اس کرپشن اور بیرون ملک سے آنے والے ناجائز پیسے کے بارے میں پارٹی کے اندر رہ کر چیئرمین عمران خان کو اس کے نتائج سے آگاہ کرنے کی کوشش کرتے رہے۔ لیکن جب پارٹی چیئرمین اس کرپشن پر آنکھیں کھولنے کے لئے تیار نہیں ہوئے تو آخرکار اکبر ایس بابر نے علم بغاوت بلند کیا اور یہ معاملہ الیکشن کمیشن میں لے گئے۔ اب پارٹی کے خلاف اس غیر ملکی فنڈنگ کا کیس ثابت ہوچکا ہے۔ بس ذمہ داران کی سزائوں کا تعین ہونا باقی ہے۔

پی ٹی آئی سیکریٹریٹ اسلام آباد کے ایک اہم ذمہ دار نے بتایا کہ انہیں زمان پارک لاہور میں موجود ایک پارٹی عہدیدار کا فون آیا تھا۔ جو نوجوان ہے اور پارٹی کی پرانی قیادت سے زیادہ واقف نہیں۔ یہ عہدیدار پوچھ رہا تھا کہ اکبر ایس بابر ماضی میں عمران خان کے کتنے قریب تھے؟ پی ٹی آئی سیکریٹریٹ اسلام آباد کے ذمہ دار کے بقول اس نے لاہور کے پارٹی عہدیدار کو اکبر ایس بابر سے پی ٹی آئی کی وابستگی اور فارن فنڈنگ کیس سے لے کر دیگر تفصیلات بتائیں کہ کیسے ایک وقت میں وہ عمران خان کے سب سے قابل اعتماد ساتھی ہوا کرتے تھے اور ساتھ ہی لاہور کے عہدیدار سے استفسار کیا وہ یہ سب کیوں دریافت کر رہے ہیں تو عہدیدار کا کہنا تھا کہ دراصل پچھلے ایک ہفتے کے دوران کم از کم تین مواقع پر عمران خان نے اکبر ایس بابر کا ذکر کیا ہے۔

عہدیدار کے بقول اگرچہ زمان پارک آنے والوں کی تعداد اب آٹے میں نمک کے برابر رہ گئی ہے۔ لیکن جو مٹھی بھرلوگ بھی وہاں آرہے ہیں ان کے سامنے عمران خان پارٹی چھوڑنے والوں کو سخت برا بھلا کہتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ’’ان کی خاطر (پارٹی چھوڑنے والی صف اول کی قیادت) میں نے اکبر ایس بابر جیسے ہیرے بندے سے اپنے تعلقات خراب کرلئے۔ میری اس سے کوئی ذاتی لڑائی نہیں تھی۔ وہ مجھے کہتا تھا کہ یہ سارے فراڈیئے،کرپٹ اور دو نمبر لوگ ہیں جو مسلسل مال بنارہے ہیں۔ میںان سے دور رہوں۔ افسوس میں نے اکبر ایس بابر کی باتوں پر دھیان نہیں دیا اور آج اس کی کہی ہوئی ہر بات درست ثابت ہو رہی ہے۔ یہ (غیر پارلیمانی لفظ) دس منٹ کا دبائو بھی برداشت نہ کر سکے اور مجھے چھوڑ کر چلے گئے‘‘۔

ادھر پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان اور وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی کے مابین ہونے والی ملاقات کی اندرونی کہانی کے مطابق ملتان کے گدی نشین، عمران خان کے پاس یہ پیغام لے کر گئے تھے کہ وہ کچھ عرصے کے لئے پارٹی معاملات سے الگ ہوجائیں۔ تاکہ وہ حالات بہتر بنانے کے لئے بات آگے بڑھا سکیں۔ ملاقات کی تفصیلات سے آگاہ پی ٹی آئی ذرائع نے بتایا کہ اس بات پر عمران خان بھڑک اٹھے اور انہوں نے شاہ محمود قریشی کی کلاس لیتے ہوئے ان کی اس تجویز کو سختی سے ردکر دیا۔ یعنی رسی جل گئی لیکن اب تک بل نہیں گیا ہے۔ ذرائع کے بقول چیئرمین پی ٹی آئی کو اندازہ تھا کہ شاہ محمود قریشی کیا پیغام لانے والے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ شاہ محمود قریشی کو زمان پارک کی رہائش گاہ میں بنائے گئے نیلے پینٹ والے اس چھوٹے دڑبے نما اسٹوڈیو تک محدود رکھا گیا۔ جہاں بیٹھ کر عمران خان تقریباً ہر دوسرے روز قوم سے نام نہاد خطاب کی ویڈیو ریکارڈ کراتے ہیں۔ ذرائع کا یہ بھی کہنا تھا کہ شاہ محمود قریشی کے ساتھ قریباً سوا گھنٹے تک ہونے والی ملاقات کے دوران بھی عمران خان نے پارٹی چھوڑنے والے رہنمائوں کے خلاف دل بھر کر بھڑاس نکالی اور اکبر ایس بابر کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ وہ انہیں غلط سمجھتے رہے، جو آج بھی اپنے موقف پر کھڑے ہیں لیکن یہ (گالی) میرا ساتھ چھوڑ گئے۔ قصہ مختصر، یہ ملاقات شاہ محمود قریشی کی توقعات کے برعکس ناکام رہی اور انہیں مایوس لوٹنا پڑا۔ مایوسی ایسی تھی کہ انہوں نے واپسی پر میڈیا سے بھی بات نہیں کی اور اترے چہرے کے ساتھ چلتے بنے۔

یہ ریکارڈ پر ہے کہ پارٹی میں ہونے والی دو نمبریوں اور کرپشن کے خلاف اکبر ایس بابر نے دو ہزار دس میں ہی آواز اٹھانی شروع کر دی تھی۔ اس سلسلے میں عمران خان کے ساتھ بالمشافہ ملاقاتوں کے علاوہ وائس میسجز اور ای میلز کے ذریعے بھی وہ پارٹی چیئرمین کی توجہ ان معاملات کی طرف دلانے کی کوشش کرتے رہے۔ لیکن اس وقت عمران خان ہوا کے گھوڑے پر سوار تھے اور پوری طرح اپنے اردگرد جمع ان رہنمائوں کے زیر اثر تھے۔ جن میں سے بیشتر اب ان کا ساتھ چھوڑ کر جا چکے ہیں۔ عمران خان کو اکبر ایس بابر کی جانب سے گیارہ ستمبر دو ہزار گیارہ کو کی گئی ای میل اب ریکارڈ کا حصہ ہے۔ جس میں انہوں نے پارٹی کے اندر ہونے والی بدعنوانیوں پر کھل کر بات کی تھی۔

’’امت‘‘ کو دستیاب سات صفحات پر مشتمل اس ای میل میں ایک جگہ عمران خان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا گیا تھا ’’پی ٹی آئی کا مرکزی دفتر کرپشن کی لپیٹ میں ہے۔ اسے پارٹی کے چند بے ایمان اور نااہل رہنما مافیا کی طرح چلا رہے ہیں۔ جبکہ بزنس پارٹنر شپ کی وجہ سے پارٹی کی ٹاپ لیڈر شپ مفادات کے سنگین تصادم کی صورتحال میں ہے۔ لیکن توجہ دلانے کے باوجود آپ (عمران خان) نے ان معاملات کی تفصیلات طلب کرنے اور آزادانہ تحقیقات کے بجائے یہ کہہ کر الٹا دفاع کیا کہ کاروباری شراکت دار ہونے کی وجہ سے عامر کیانی اور سیف اللہ نیازی پر الزام نہیں لگایا جاسکتا۔ کیا یہ سچ نہیں کہ ڈاکٹر عارف علوی، عمر چیمہ، اسد قیصر، ڈاکٹر مہمند اور چند دیگر سینئر پی ٹی آئی عہدیداران نے آپ کی بنی گالہ رہائش کے قریب عامر کیانی کے پروجیکٹ میں لاکھوں روپے کی سرمایہ کاری کی۔ پارٹی کے ایک بانی رہنما کرنل (ر) یونس علی رضا نے عامر کیانی پر دھوکہ دہی کے سنگین الزامات لگائے۔ لیکن آج تک ان الزامات کی تحقیقات نہیںکی گئیں‘‘۔

قریباً بارہ برس قبل عمران خان کو بھیجی گئی اس ای میل میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ کم از کم ایک لاکھ پینتیس ہزار ڈالر پی ٹی آئی کے امریکی بینک اکائونٹ سے بھیجے گئے جو ملک بھر میں پی ٹی آئی کے ضلعی دفاتر کھولنے کے لئے منگوائے گئے تھے۔ لیکن اس رقم سے آج تک ایک بھی ضلعی دفتر نہیں کھولا گیا۔ پی ٹی آئی نے ایک بار بھی اپنے اکائونٹس کا پرفارمنس آڈٹ نہیں کرایا۔ جو پولیٹیکل پارٹیز رولز دو ہزار دو کی سنگین خلاف ورزی ہے۔ جبکہ مرکزی سیکریٹریٹ کے تنخواہ دار ملازمین کے بینک اکائونٹس کو مختلف ذرائع سے چندہ اکٹھا کرنے کے لئے استعمال کیا گیا اور ان اکائونٹس کو بھی جان بوجھ کر چھپایا گیا۔ یہ بھی پولیٹیکل پارٹیز رولز کی صریح خلاف ورزی ہے۔ یہ سب کچھ پی ٹی آئی کی سینئر قیادت کی ملی بھگت سے ہو رہا ہے۔ جو پارٹی کے مرکزی سیکریٹریٹ کے معاملات چلا رہی ہے۔