ارشاد کھوکھر:
سندھ کے سوا کروڑ سیلاب متاثرین کی امیدیں دم توڑنے لگی ہیں۔ صوبائی حکومت نے سیلاب زدگان کیلیے 20 لاکھ گھروں کی تعمیر و بحالی کا اعلان کیا تھا۔ لیکن 10 ماہ گزر جانے کے باوجود ایک گھر بھی تعمیر نہیں ہو سکا۔ بیشتر سیلاب متاثرین بے یار و مددگار مارے مارے پھر رہے ہیں۔ ایسے میں مون سون کی نئی بارشوں کا سلسلہ نئی قیامت ڈھانے کو تیار ہے۔ گھروں کی تعمیر کیلیے حکومت سندھ نے جو شرائط عائد کی ہیں۔ اس سے یہ خدشات بڑھ گئے ہیں کہ 75 فیصد سے زائد متاثرین کیلئے ایک کمرہ بھی تعمیر کرنا ممکن نہیں ہوگا۔
گھروں کی تعمیر کیلئے صرف ڈیڑھ فیصد متاثرین کو حکومت کی جانب سے فنڈز مل سکے ہیں۔ حکومت نے متاثرین کے گھروں کے لئے چار سالہ منصوبہ بنایا ہے۔ جس سے اس بات کے خدشات بڑھ رہے ہیں کہ ایک جانب گھر (کمرے) تعمیر ہو رہے ہوں گے تو دوسری جانب قدرتی آفات سے دیگر گھر مسمار ہوتے رہیں گے۔ اس کے علاوہ متاثرین کے گھروں کی تصدیقی عمل کی آڑ میں 30 ارب روپے سے زائد فنڈ سے حکومت کی چھتری کے نیچے کام کرنے والی این جی اوز ہی مستفید ہوں گی۔ بعض حلقوں کی جانب سے یہ خدشات بھی ظاہر کئے جارہے ہیں کہ ہو سکتا ہے موجودہ سیاسی حکومت محدود پیمانے پر ہی سہی اس منصوبے کو آئندہ انتخابی مہم کا حصہ بناکر فنڈز کے اجرا کے معاملے میں پک اینڈ چوز بھی کر سکتی ہے۔
واضح رہے کہ گزشتہ سال سندھ میں شدید بارشوں اور سیلاب کے باعث سڑکوں اور دیگر انفرااسٹرکچر، سرکاری عمارتوں، زرعی و آبپاشی کے نظام کے ساتھ بڑے پیمانے پر لوگوں کے گھر متاثر ہوئے تھے۔ متعلقہ حکام کا دعویٰ ہے کہ حکومتی رپورٹ میں یہ نشاندہی کی گئی ہے کہ صوبہ بھر کے مختلف اضلاع میں تقریباً بیس لاکھ گھر متاثر ہوئے۔ جن میں سے 6 لاکھ گھر جزوی طور پر اور 14 لاکھ گھر مکمل طور پر متاثر ہوئے۔
مذکورہ سروے رپورٹ تیار کرنے میں صرف ڈپٹی کمشنر، کمشنرز اور اسسٹنٹ کمشنرز پر مشتمل ضلعی انتظامیہ ہی شامل نہیں تھی۔ بلکہ سروے میں پاک فوج کے جوانوں کے ساتھ دیگر اداروں کو بھی شامل کیا گیا تھا۔ مذکورہ رپورٹ آنے کے بعد حکومت سندھ نے بلند و بانگ اعلان کیا کہ تمام متاثرین کو گھر تعمیر کرکے دیئے جائیں گے۔ اس کیلئے صوبائی حکومت کے زیر انتظام سندھ پیپلز ہائوسنگ کمپنی تشکیل دی گئی۔
مذکورہ گھروں کی تعمیر و بحالی کا تخمینہ ایک ارب 30 کروڑ ڈالر لگایا گیا۔ اُس وقت ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر 210 روپے تھی۔ جس کے باعث مذکورہ منصوبے کے اخراجات کا تخمینہ 330 ارب روپے لگایا گیا تھا۔ لیکن اس کے بعد ڈالر کی قیمت مزید بڑھ جانے سے یہ منصوبہ تقریباً 390 ارب روپے تک پہنچ چکا ہے۔
حکومت نے اس حوالے سے جو پالیسی واضح کی ہے۔ اس کے تحت جزوی طور پر متاثر ہونے والے گھروں کے مکینوں کو معاوضے کے طور پر ایک ایک لاکھ روپے دیئے جائیں گے۔ جبکہ مکمل طور پر تباہ ہونے والے گھروں کے مکینوں کو چار اقساط میں تین تین لاکھ روپے دیئے جائیں گے، کہ وہ اپنے گھر خود تعمیر کریں۔ مذکورہ منصوبے پر ہونے والے اخراجات کے حوالے سے عالمی بینک حکومت سندھ کو پچاس کروڑ ڈالر (تقریباً 150 ارب) روپے دے گی۔ اس میں سے عالمی بینک پہلی قسط کے طور پر دس کروڑ ڈالر حکومت سندھ کو جاری بھی کر چکی ہے۔
صوبائی حکومت نے مذکورہ منصوبے کیلئے مزید فنڈنگ کیلئے دیگر ڈونر ایجنسیز وغیرہ سے امیدیں وابستہ کی تھیں۔ لیکن اب تک اس میں خاطر خواہ پیش رفت نہیں ہوسکی۔ جبکہ وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ یہ اعلان بھی کر چکے ہیں کہ مذکورہ منصوبے پر صوبائی حکومت بھی اپنے وسائل سے پچاس ارب روپے فراہم کرے گی۔ اس طرح اس منصوبے کیلئے مطلوبہ باقی ایک سو 90 ارب روپے کے فنڈز کا بندوبست ہونا ابھی باقی ہے۔ لیکن اس حوالے سے خود حکومتی اعداد و شمار کو دیکھا جائے تو اس منصوبے کی لاگت 390 ارب روپے نہیں بلکہ 515 ارب روپے سے بھی زیادہ بنتی ہے۔
ان میں سے مکمل تباہ ہونے والے فی گھر کو تین لاکھ روپے کے حساب سے دیئے جائیں تو، ان کی لاگت 420 ارب روپے اور جزوی طور پر متاثرہ فی گھر کا معاوضہ ایک لاکھ روپے کے حساب سے ہو تو ان کی لاگت 60 ارب روپے ہوتے ہیں اور باقی تقریبا 35 ارب روپے کے انتظامی اخراجات اس کے علاوہ ہیں۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ مذکورہ پروجیکٹ کیسے آگے بڑھے گا اور مکمل ہوگا کہ جس کی فنڈنگ ہی پوری نہیں ہے۔
مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ صوبائی حکومت نے مذکورہ منصوبے کے تحت مکمل تباہ ہونے والے گھروں کے متاثرین کو فی کس تین لاکھ روپے فراہم کرنے کے لئے جو شرائط عائد کی ہیں۔ اس میں یہ بھی شامل ہے کہ ان متاثرین کو ہی فنڈز دیئے جائیں گے جن کے پاس کم از کم دو سو چالیس مربع گز فٹ کا پلاٹ ہو۔ یعنی اس سے متاثرین کا گھر نہیں صرف ایک کمرہ ہی تعمیر ہو سکے گا۔ جس کے لئے پہلی قسط کے طور پر 75 ہزار روپے متعلقہ متاثرین کو دیئے جائیں گے۔ اس سے وہ متعلقہ کمرے کی تعمیر کے حوالے سے ڈی پی سی تک تعمیرات کا کام مکمل کریں گے تو پھر دوسری قسط کی مد میں انہیں ایک ایک لاکھ روپیہ ملے گا۔ جس سے وہ اپنے گھروں کی تعمیرات کا کام لینٹر (چھت) تک لے جائیں گے۔ جب وہ کام مکمل ہوگا تو پھر انہیں چھت ڈالنے کے لئے ایک لاکھ روپیہ دیا جائے گا۔ جس کے بعد انہیں گھر کی فنشنگ وغیرہ کیلئے باقی 25 ہزار روپے دیئے جائیں گے۔ اور یہ فنڈز انہیں اس صورت میں ملیں گے جب متعلقہ این جی اوز وغیرہ اس بات کی تصدیق کرے گی کہ پہلی قسط کے لئے جو رقم جاری ہوئی۔ اس سے کام معیار کے مطابق ہوا یا نہیں۔
اس سلسلے میں تعمیرات کے شعبے کے ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ بات ممکن ہی نہیں کہ 75 ہزار روپے سے گھر یا کمرے کی ڈی پی سی کا کام مکمل ہوسکے۔ اس کیلئے کم از کم ڈیڑھ سے دو لاکھ روپے درکار ہوں گے۔ اسی طرح باقی تعمیراتی کام کا مکمل ہونا بھی حکومت کی جانب سے دیئے جانے والے فنڈز سے ممکن نہیں۔ ایک کمرے کی تعمیر پر 6 سے 8 لاکھ روپے تک کے اخراجات ہوں گے۔ اس سے یہ بات عیاں ہوجاتی ہے کہ مذکورہ اسکیم کے تحت صرف ان متاثرین کو فنڈز مل سکیں گے جو اپنی جیب سے بھی تین سے پانچ لاکھ روپے خرچ کرنے کی سکت رکھتے ہوں۔ جبکہ جن افراد کے گھر مکمل تباہ ہوئے ہیں۔ ان میں سے نوے فیصد افراد ایسے ہیں جن کی دو وقت کی روٹی کھانے کی بھی سکت نہیں۔ سیلاب اور بارشوں میں ان کا سب کچھ تباہ ہو چکا۔ وہ افراد حکومت کی تین لاکھ کی فنڈنگ حاصل کرنے کے لئے مزید رقم کہاں سے لائیں گے کہ ان کا گھر یا کمرہ تعمیر ہو سکے۔
بظاہر حکومت نے متاثرین کے گھروں کے فنڈز کی تقسیم میں شفافیت رکھنے کے لئے یہ شرط بھی عائد کی ہے کہ متعلقہ متاثرین کو سب سے پہلے اپنے نام پر بینک میں اکائونٹ کھلوانا پڑے گا۔ اب صورتحال یہ ہے کہ سیدھے سادے دیہاتیوں کو بینک اکائونٹ کھولنے کے لئے فارم تک پُر کرنے نہیں آتا اور نہ ہی متعلقہ کمرشل بینک اس کام میں زیادہ دلچسپی لے رہے ہیں کہ ان کے اکائونٹس کھولنے کیلئے اضافی عملہ مقرر کیا جائے۔ یہی سبب ہے کہ 20 لاکھ میں سے اب تک صرف پچاس ہزار یعنی ڈھائی فیصد متاثرین بینک اکائونٹس کھلواسکے ہیں۔
مذکورہ منصوبہ التوا کا شکار ہوجانے کی ایک وجہ یہ بھی بن سکتی ہے کہ ضلعی انتظامیہ نے پاک فوج کے جوانوں کے ساتھ مل کر متاثرہ گھروں کا جو سروے کیا تھا۔ اس پر انحصار کرکے آگے بڑھنے کے بجائے صوبائی حکومت نے متاثرہ گھروں کی ازسر نو تصدیق کیلئے صوبائی حکومت کی چھتری کے نیچے کام کرنے والے این جی او سندھ رورل سپورٹ آرگنائزیشن (سرسو) کو یہ ذمہ داری دی ہے اور فنڈز کا اجرا اس سے مشروط کیا ہے کہ سرسو کی انتظامیہ جن گھروں کے تباہ ہونے اور متاثر ہونے کی تصدیق کرے گی۔ انہیں ہی فنڈز دیئے جائیں گے۔ دس ماہ گزر چکے ہیں۔ لیکن ابھی تک صورتحال یہ ہے کہ مذکورہ این جی او کی انتظامیہ صرف 9 لاکھ گھروں کی ازسر نو ویری فکیشن کرسکی ہے۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ یہ کام کتنا لمبا کھینچا جائے گا۔
اس کے علاوہ سب سے اہم بات یہ ہے کہ حکومت کی رپورٹ میں جن 20 لاکھ گھروں کے متاثر ہونے کی تصدیق کی گئی ہے۔ ان میں سے تقریباً پچاس فیصد یعنی دس لاکھ گھروں کے متاثرین ایسے بھی ہیں جو اپنا بچا کھچا سامان بیچ کر اور قرضہ وغیرہ لے کر بچوں کے لئے کچی پکی غیر معیاری ہی سہی چھت تعمیر کرچکے ہیں۔ اور وہ اس آسرے پر ہیں کہ انہیں حکومت کی جانب سے جب فنڈنگ ہوگی تو وہ قرضہ وغیرہ ادا کردیں گے۔ ایسے میں متاثرہ گھروں کی ازسرنو تعمیر کی جو شرط عائد کی گئی ہے۔
اس میں مذکورہ دس لاکھ گھروں کے متاثرین کا کیا ہوگا۔ متعلقہ این جی او کی انتظامیہ ان متاثرین کی کچے اور غیر معیاری تعمیرات کو دیکھ کر کیا اس بات کی تصدیق کرے گی کہ ان کے گھر بھی متاثر ہوئے تھے۔ یا یہ متاثرین رُل جائیں گے اور ان کے نام متاثرین کی فہرست میں سے نکال دیئے جائیں گے۔ یا پھر ’’لین دین‘‘ ہوگی۔ یعنی اس صورتحال میں سب سے زیادہ پریشان مذکورہ متاثرین ہی ہوں گے۔
اس منصوبے کی افادیت کا اندازہ اس بات سے بھی بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ ابھی تک ڈی پی سی تک گھروں کی تعمیر کیلئے محض 25 ہزار متاثرین کو پہلی قسط مل سکی ہے۔ اور صرف پانچ ہزار افراد کو دوسری قسط مل سکی ہے۔ دس ماہ گزرنے کے باوجود بھی بیس لاکھ گھروں میں سے ایک گھر بھی نہیں تعمیر ہوسکا۔ صرف ڈیڑھ فیصد افراد کو چار قسطوں میں سے پہلی اور دوسری قسط کی رقم مل سکی ہے تو باقی 98 عشاریہ 5 فیصد گھروں کی تعمیر کب اور کیسے ممکن ہوگی اور متاثرین کب تک یونہی بے یارومدگار رہیں گے۔
ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس منصوبے میں صوبائی حکومت جان بوجھ کر بھی تاخیری حربے استعمال کر رہی ہے۔ کیونکہ حکومت کے پاس مذکورہ منصوبے کے لئے مطلوبہ پورے فنڈز نہیں۔ اب تک مذکورہ منصوبے کے لئے تقریباً سولہ ارب روپے جاری ہوچکے ہیں۔ جن میں سے متاثرین کو صرف دو ارب 38 کروڑ روپے تک ملے ہیں۔ بعض ذرائع کا یہ بھی کہنا تھا کہ ہو سکتا ہے گھروں کی تعمیر کے معاملے کو اب انتخابی مہم کا حصہ بنایا جائے اور پہلے مرحلے میں صرف ان متاثرین کو اہمیت دی جائے جس سے سندھ کی حکمران پارٹی کی ووٹ کی امیدیں وابستہ ہوں۔ لیکن پھر بھی یہ بات ممکن نہیں کہ رواں سال 25 فیصد متاثرین بھی اس سے مستفید ہوسکیں۔
یہ بات ذہن میں رہے کہ بیس لاکھ گھر متاثر ہونے سے تقریباً سوا کروڑ افراد چھت سے محروم ہوئے۔ کیونکہ مردم شماری کے اعدادوشمار کے مطابق سندھ میں فی گھر کی آبادی اوسطاً 6 افراد پر مشتمل ہے۔ اور سب سے اہم اور دکھ کی بات یہ ہے کہ یہ منصوبہ چار سال میں مکمل ہونے کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔ رواں سیزن کے دوران بھی مون سون کی شدید بارشوں کی پیشن گوئی ہے اور آنے والے باقی برسوں میں بارشوں کا سلسلہ کیا رہتا ہے، یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا۔ جس سے یہ خدشات مزید بڑھ رہے ہیں کہ آئندہ چار برس میں یہ معاملہ صرف بیس لاکھ گھروں کے متاثر ہونے تک محدود نہیں رہے گا۔
خدانخواستہ یہ ہوسکتا ہے کہ ایک طرف گھر تعمیر ہو رہے ہوں اور دوسری طرف دیگر گھر تباہ ہو رہے ہوں۔ ایسے میں ان گھروں کی تعمیر کا منصوبہ کہاں جاکے تھمے گا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس کا بہتر حل یہ ہے کہ صوبائی اور وفاقی حکومت سنجیدگی سے اس معاملے کو اولین ترجیح دیں۔ گھروں کی تعمیر کیلئے متاثرین کو یکمشت رقم دی جائے اور فنڈز میں بھی اضافہ کیا جائے۔ دی جانے والی رقم گھروں کی تعمیر پر ہی صرف ہونے کیلئے مانیٹرنگ کا نظام موثر بنایا جائے۔
ذرائع نے یہ بھی بتایا کہ مذکورہ منصوبے میں تیس ارب روپے سے زائد رقم مانیٹرنگ اور سروے وغیرہ کی خدمات کے بدلے متعلقہ این جی اوز کو ادائیگی کیلئے بھی مختص کی گئی ہے۔ گھروں کی تعمیر کے منصوبے کا کیا حشر ہوتا ہے۔ وہ الگ بات۔ لیکن یہ بات طے ہے کہ اس سے متعلقہ این جی اوز سب سے زیادہ مستفید ہوں گی۔