کاشف ہاشمی :
کراچی میں نا بالغ اور کمسن بچے، بچیوں سے زیادتی کے کیسز میں گزشتہ چند برسوں کے دوران تشویش ناک اضافہ ہوا ہے۔ پچھلے برس دو ہزار بائیس میں اس نوعیت کے رپورٹ ہونے والے کیسز کی تعداد دو سو سے زائد تھی۔ تاہم مختلف سوشل تنظیموں کے بقول اصل تعداد اس سے کہیں زیادہ رہی۔ چوں کہ بیشتر کیسز رپورٹ نہیں ہو پاتے۔
اسی طرح رواں برس کے پہلے چھ ماہ کے دوران بھی بچے اور بچیوں سے زیادتی کے رپورٹ ہونے والے کیسز کی تعداد ستائیس سو ہوچکی ہے۔ المناک پہلو یہ ہے کہ زیادتی کے بعد بچوں اور بچیوں کو قتل کرنے کے قبیح رجحان میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔
یہ بھی تشویش ناک پہلو ہے کہ زیادتی کے زیادہ تر ملزمان پولیس کی گرفت میں آنے سے بچ نکلتے ہیں۔ اس نوعیت کے واقعات کی روک تھام کیلئے کراچی پولیس کی جانب سے ان ملزمان کی گرفتاری کے لیے ٹیمیں تشکیل دی گئیں اور ان ٹیموں نے ہیومن انٹیلیجنس کی مدد سے رواں برس بچوں اور بچیوں کے ساتھ بدفعلی و زیادتی میں ملوث 19 افراد کوگرفتار کیا۔ تاہم ملزمان کی بڑی تعداد اب بھی قانون کی گرفت سے باہر ہے۔
شہر میں دل دہلادینے والے کچھ ایسے بھی واقعات ہوئے جن میں بچے و بچیوں کے ساتھ زیادتی کے بعد انہیں بے دردی سے قتل بھی کیا گیا۔ امسال کے ماہ رمضان میں سرجانی ٹائون سیکٹر 36 میں 6 سالہ بچی شہناز لاپتا ہوئی تھی جس کی لاش گٹر سے برآمد ہوئی تھی۔ بچی کی لاش کو ضابطے کی کارروائی کے لیے اسپتال منتقل کیا گیا تھا جہاں پولیس سرجن ڈاکٹر سمعیہ کا کہنا تھا کہ بچی سے زیادتی کے شواہد ملے ہیں۔ بچی کو زیادتی کا نشانہ بنانے کے بعد قتل کیا گیا۔
مذکورہ واقعہ ماہ اپریل کو پیش آیا تھا۔ ڈاکٹر نے بتایا تھاکہ سفاک ملزمان نے قتل سے قبل بچی کو بدترین زیادتی کا نشانہ بنایا تھا۔ پولیس سرجن کا کہنا تھا کہ بچی کے خون کے نمونے حاصل کیے گئے تھے۔ لواحقین کا کہنا تھا کہ شہناز افطار سے قبل گھر سے نکلی اور واپس نہیں آئی۔ گھر کے اطراف اور خاندان میں رات بھر بچی کو تلاش کیا لیکن کچھ پتا نہ چلا ۔شدت غم سے نڈھال والدہ کا کہنا تھا کہ صبح 8 بجے اسے اپنی بچی کی لاش گٹر سے ملی۔ مقتولہ بچی کی والدہ نے حکومت سے انصاف کا مطالبہ کیا جس پرگورنر سندھ کامران ٹیسوری نے واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے کمشنر کراچی سے رپورٹ طلب کی۔
ماہ مارچ کو ملیر کے علاقے شاہ ٹائون پپری میں معصوم بچی کی لاش ملی تھی۔ چھ سالہ فریحہ کے قتل میں ملوث ملزم انتظار حسین کو بن قاسم پولیس نے گرفتار کرلیا۔ ملزم نے بچی کو زیادتی کے بعد قتل کردیا تھا۔ مقتولہ کی لاش کو بوری میں بند کرکے موٹر سائیکل پر نالے میں پھینکنے والا سہولت کار ملزم کا دوست اللہ رکھا کو بھی گرفتار کیا گیا۔ اس حوالے سے ایس ایس پی سردار حسن نیازی کا کہنا تھاکہ پولیس نے چوبیس گھنٹے کے دوران ہی سفاک ملزم اور اس کے ساتھی کو گرفتارکرلیا تھا۔
ملزم نے دوران تفتیش انکشاف کیا کہ بچی کو جھانسہ دے کر لے گیا اور بچی کے ساتھ زیادتی کی جس کے بعد گلا دبا کر قتل کر دیا۔ اس سے قبل 11 مارچ کو کراچی کے علاقے کورنگی میں 9 سالہ خصوصی بچے کو زیادتی کے بعد قتل کر دیا گیا تھا۔ جبکہ پولیس نے دو افراد کو حراست میں لے لیا تھا۔ زمان ٹائون پولیس نے بتایا تھا کہ بچے کی لاش پارکنگ میں کھڑی سوزوکی کلٹس کار کی پچھلی نشست سے برآمد ہوئی۔ بچے کا جسم نیلا پڑا ہوا تھا اور منہ سے جھاگ نکل رہا تھا۔ لواحقین نے پولیس کو بیان دیتے ہوئے کہاکہ مقتول بچے کا ذہنی توازن درست نہیں تھا۔ بچہ کل صبح سے لاپتہ تھا اور گم ہونے کے بعد زمان ٹائون میں رپورٹ درج کرائی تھی۔ پولیس سرجن نے بتایا کہ بچے کے ساتھ زیادتی کے شواہد ملے ہیں۔ لاش سے نمونے حاصل کرلیے گئے۔
زیادہ تر بچوں کے ساتھ زیادتی و قتل کے واقعات شہر کے مضافاتی علاقوں میں رپورٹ ہوئے جن میںبن قاسم، شاہ لطیف، قائدآباد، کورنگی، سرجانی، بلدیہ و دیگر علاقے شامل ہیں۔ کراچی پولیس کے ریکارڈ کے مطابق رواں برس 228 بچوں کے اغوا کے کیسز رپورٹ ہوئے ہیں۔ اس حوالے سے پولیس کا کہنا ہے کہ بچوں کے اغوا کی مختلف وجوہات سامنے آئی ہیں جن میں اغوا برائے تاوان، اغوا، بچوں کی حوالگی کے دوران لڑائی جھگڑے کی وجہ سے، دشمنی و دیگر شامل ہیں۔ تاہم بچوں کے اغوا پر چائلڈ پروٹیکشن سیل نے کاروائیاں کرتے ہوئے 21 اغوا کاروں کو گرفتار کیا۔
ماہ فروری میں لیاری جنرل اسپتال کی جانب سے ایک رپورٹ پولیس حکام کو ارسال کی گئی تھی جس میں بتایا گیا تھا کہ گزشتہ 20 روز میں جنسی زیادتی کے 5 کیسز رپورٹ ہوئے، جس میں سے 3 بچیوں نے دوران علاج دم توڑ دیا۔ لیاری جنرل اسپتال کے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ کی جانب سے محکمہ صحت سندھ کو جمع کرائی گئی تھی کہ رپورٹ میں تین بچیوں کے ساتھ زیادتی کی تصدیق ہوئی ہیں۔ رپورٹ کے مطابق دو بچیوں کو ابتدائی علاج کے بعد اسپتال سے ڈسچارج کیا گیا تھا۔ 3 بچیاں دوران علاج دم توڑ گئیں۔
چار بچیوں کو لیاری جبکہ ایک کو بلدیہ سے لایا گیا تھا۔ ذرائع کے مطابق بچیوں کو اسپتال لایا گیا تو وہ خون سے لت پت تھیں۔ متاثرہ بچیوں کی عمریں 2 سال سے چودہ سال ہیں۔ دو سالہ بچی کو 18 جنوری کو لایا گیا۔ 3 سالہ بچی کو 23 جنوری جبکہ 10 سالہ بچی کو 24 جنوری کو لایا گیا، تینوں بچیاں علاج سے قبل ہی دم توڑ گئی تھیں۔ پولیس رپوٹس کے مطابق بچیوں کے والدین اور دیگر اہل خانہ نے مقدمہ درج کرنے سے انکار کر دیا اور زبردستی لاشیں اور زندہ بچ جانے والی بچیوں کو گھر لے گئے۔ لواحقین اسپتال کے عملے اور پولیس کے ساتھ تعاون کرنے کو تیار نہیں تھے۔
واضح رہے کہ کراچی میں گزشتہ ڈیڑھ سال کے دوران خواتین سے زیادتی کے کیسز میں اضافہ ہوا ہے۔رپورٹس کے مطابق کراچی میں خواتین سے زیادتی کے کیسز میں ہولناک اضافہ ہوا ہے۔ گزشتہ ڈیڑھ سال میں ریپ کیسز کی شرح 41 فیصد تک بتائی گئی تھی۔ رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ جولائی 2021ء سے دسمبر 2022ء تک زیادتی کے 426 کیسز عدالت پہنچے جن میں سے صرف 55 کیسز کے ملزمان کو سزا ہوسکی ہے۔ رپورٹ کے مطابق کراچی میں ضلع شرقی،جنوبی،کورنگی اور ملیر میں ریپ کیسز کی شرح زیادہ رہی ہے۔
ادھر ماہر نفسیات ڈاکٹر خان حسن آفریدی کا کہنا ہے کہ بچے اور بچیوں سے زیادتی کے بیشتر ملزمان نفسیاتی مریض ہوتے ہیں۔ اس طرح کے نفسیاتی مریض خود بھی ایسے عمل سے گزر چکے ہوتے ہیں اور انہیں ’’بدلا‘‘ لینے کی خواہش تنگ کرتی ہے۔ ان کا کہنا تھا معاشرے میں کئی طرح کے امراض ہیں اس ہی طرح دماغی امراض بھی پائے جاتے ہیں جس کی آگاہی لوگوں کو کم ہوتی ہے۔ کچھ ایسے امراض بھی ہیں جس کو ’سائیکوسس‘ کہا جاتا ہے۔ عام الفاظ میں اس کو برین کینسر کہیں تو غلط نہیں۔ دوسری جانب بچوں کے ساتھ زیادتی میں ملوث منشیات کے عادی افراد بھی ہوتے ہیں۔ بچوں کے ساتھ زیادتی میں ملوث افراد کو دیکھا گیا ہے کہ وہ بچوں کا قتل اس وجہ سے کردیتے ہیں کہ ثبوت نہ ملیں اور وہ بچ جائیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ بچوں میں اس کی آگاہی ہونی چاہیے کہ جب کوئی ان کو بہلا پھسلا کر ساتھ لے جانا چاہے، یا راہ چلتے نازیبا حرکت کرے تو وہ فوری طور پر مدد کے لیے چیخ و پکار کریں۔