عمران خان :
لندن سے چوری ہو کر کراچی میں رجسٹرڈ ہونے والی 35 کروڑ کی بنٹلے کا اسکینڈل حتمی مرحلے میں داخل ہوگیا۔ کسٹمز ٹربیونل کی سماعتوں میں ملوث ملزمان پر جعلسازی ثابت ہوگئی۔ تاہم دوسری جانب اسی کیس میں فوجداری دفعات کے تحت مقدمہ میں اب تک ملزمان بااثر ہونے کی وجہ سے قانون کی گرفت سے باہر ہیں۔
مذکورہ کار بالآخرواپس برطانیہ واپس بھجوانے کے لئے وزارت خارجہ کے سپرد کرنے کا فیصلہ دے دیا گیا۔ کسٹمز ٹربیونل کے اس فیصلے سے ثابت ہو گیا ہے کہ برطانیہ سے چوری شدہ اس بیش قیمت کار کو کراچی منتقل کرنے والے ملزمان نے اسے ایکسائز اینڈ رجسٹریشن ڈپارٹمنٹ کے کرپٹ افسران کی ملی بھگت سے جعلی اور غیر قانونی طریقے سے رجسٹرڈ کروایا تھا۔ تاہم محکمہ ایکسائز ٹیکسیشن اینڈ ایم آرونگ کے ان کرپٹ افسران کے خلاف اب تک کوئی کارروائی نہیں کی گئی جبکہ ابتدائی معطلی کے بعد انکوائری کو دبا دیا گیا۔
موصول ہونے والی دستاویزات کے مطابق کسٹم اپیلٹ ٹربیونل کراچی نے لندن سے چوری ہونے والی قیمتی کار بیٹلے مولسین وی 8 کو برطانوی ایجنسی کے علم میں لاکر بلغاریہ کے سفارت خانے کے حوالے کرنے کا تحریری حکم جاری کردیا۔
سفارت خانے کے تحریری انکار کے بعد یہ گاڑی وزارت خارجہ کے سپرد کی جائے گی۔ ستمبر 2020ء میں برطانوی خفیہ ایجنسی کی اطلاع پر ڈیفنس فیز 2 کے ایک بنگلے سے کسٹم حکام نے 30 کروڑ سے زائد مالیت کی کار برآمد کر کے مقدمہ درج کیا تھا۔ برطانوی خفیہ ایجنسی کا کہنا تھا کہ یہ کار لندن سے چوری کر کے کراچی منتقل کی گئی۔ جب کہ مقدمے میں نامزد ملزمان کا کہنا تھا کہ گاڑی بلغاریہ کے سفارت خانے کے نام پر منتقل کی گئی۔ تاہم وہ فوری طور پر درآمدی دستاویزات ظاہر نہیں کر سکے۔
کسٹم اپیلٹ ٹربیونل میں چیئر مین محمد عارف خان اور ممبر عبد الباسط چودھری پر مشتمل بینچ نے جمیل شفیع ولد شفیع احمد کی کسٹم اپیل 2352/2022/2581-K کو مسترد کرتے ہوئے فیصلہ دیا ہے کہ مولسین وی 8 کار برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی اور برطانوی ہائی کمیشن اسلام آباد کے علم میں لا کر حوالے کی جائے۔ کیونکہ اگر گاڑی چوری کی ظاہر کی گئی ہے تو یہ پاکستان کی ملکیت نہیں ہو سکتی۔ لیکن اگر یہ گاڑی بلغاریہ کے سفارت خانے کے نام پر منگوائی گئی تو اس گاڑی کو سفارت خانے کے حوالے کرنے کے لئے بھی نیشنل سینٹرل بیور اور نیشنل کرائم ایجنسی کو آگاہ کیا جائے اور اگر بلغاریہ کا سفارت خانہ تحریری طور پر اس گاڑی کو قبضے میں لینے سے انکار کرتا ہے تو اسے وزارت خارجہ کے حوالے کیا جائے، لیکن اس کے لئے بھی برطانوی ایجنسی کو آگاہ کیا جائے۔ یہ گاڑی کسی بھی صورت چوری کر کے پاکستان منتقل کرنے والوں کے حوالے نہیں کی جائے۔
واضح رہے کہ برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی کی جانب سے اطلاع ملی تھی کہ معروف گاڑی ساز ادارے بیٹلے مولسین کی وی ایٹ ویرینٹ کی گاڑی جس کا وی آئی این SCBBA63Y7FC001375 ہے لندن سے چوری ہو کر کراچی پہنچی ہے اور اس وقت ڈیفنس کی 10 اسٹریٹ کے مکان نمبر 15 بی میں موجود ہے۔ کسٹم حکام کے مطابق انٹیلی جنس ایجنسی کی بتائی گئی جگہ کی نگرانی کی گئی تو غیرملکی لگژری گاڑی وہیں موجود پائی گئی۔ کسٹم ایکٹ 1968 کے تحت متعلقہ حکام نے جوڈیشل مجسٹریٹ سے سرچ وارنٹ حاصل کرنے کے بعد گاڑی کی برآمدگی کیلئے کارروائی کی تھی۔ کسٹم حکام کی ٹیم نے مکان کے مالک جمیل شفیع کی موجودگی میں کپڑا ہٹا کر دیکھا تو بیٹلے گاڑی موجود تھی۔ گاڑی پر 2020ء کی رجسٹریشن نمبر پلیٹ 279-BRS لگی تھی۔
رپورٹ کے مطابق گاڑی کے چیسز نمبر کا معائنہ کیا گیا تو اس بات کا یقین ہو گیا کہ وہ برطانیہ سے چوری کی گئی گاڑی ہی ہے، تمام تصدیق کے بعد مکان مالک جمیل شفیع سے گاڑی کی رجسٹریشن سے متعلق قانونی دستاویزات مانگی گئیں۔ جمیل شفیع نے متعلقہ حکام کو بتایا کہ اس نے نوید بلوانی نامی شخص سے گاڑی خریدی ہے اور اس سے یہ تحریری معاہدہ کیا گیا تھا کہ وہ نومبر 2022ء تک اس گاڑی کو متعلقہ اداروں سے قانونی طور پر کلیئر کرائیں گے۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ جمیل شفیع کے غیر اطمینان بخش بیان اور قانونی دستاویزات نہ ہونے کی بنیاد پر گاڑی کو تحویل میں لیا گیا تھا۔ بعد ازاں گاڑی کو قانونی کارروائی مکمل کرنے کیلئے ہیڈ کوارٹرز منتقل کر دیا گیا تھا۔
کسٹم کی ٹیم قانونی کارروائی کو آگے بڑھا رہی تھی کہ اسی دوران ایک شخص آیا اور اس نے اپنا تعارف نوید بلوانی کے نام سے کرایا تھا۔ حکام نے نوید بلوانی سے گاڑی کے قانونی دستاویزات طلب کئے جو وہ فراہم نہ کر سکا، دونوں ملزمان گاڑی کی قانونی ملکیت سے متعلق دستاویزات فراہم نہ کر سکے۔ جمیل شفیع نے گاڑی کی خریداری کا ایک معاہدہ دکھایا لیکن اس میں بھی قانونی طور پر ستم تھا۔ دوران تفتیش نوید بلوانی نے انکشاف کیا کہ گاڑی کا سودا نوید یامین اور جمیل شفیع کے درمیان ہوا تھا وہ تو صرف ایک ضامن کی حیثیت سے اس سودے کو مکمل کر رہا تھا، اس کے بدلے اسے کمیشن ملنا تھا۔
نوید یامین ہی نے جمیل شفیع سے نقد اور پے آرڈر کی شکل میں رقوم لی تھیں۔ نوید بلوانی نے مزید بتایا کہ گاڑی کی سندھ کے محکمہ موٹر رجسٹریشن ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن سے جانچ پڑتال کرائی گئی تھی، محکمے کی ویب سائٹ کے مطابق گاڑی محکمہ موٹر رجسٹریشن ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن میں رجسٹر ڈ تھی۔ محکمہ موٹر رجسٹریشن ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن میں گاڑی کی رجسٹریشن سراسر قانون کے خلاف تھی کیونکہ اس کیلئے وزارت خارجہ کی اجازت اور پاکستان کسٹمز کی جانب سے این اوسی کا اجرا اور ٹیکس و ڈیوٹی کی ادائیگی کی رسیدیں جمع کرانا لازمی ہوتا ہے۔
رپورٹ کے مطابق گاڑی کی مشکوک رجسٹریشن اس بات کا اشارہ کرتی ہے کہ محکمہ موٹر رجسٹریشن ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن کا ہی کوئی اہلکار ان کا سہولت کار ہے۔ یاد رہے کہ جب گاڑی پاکستان لائی گئی تھی تو اس وقت اس کی قیمت 2 لاکھ 66 ہزار 320 ڈالر تھی جو 4 کروڑ 14لاکھ 39 ہزار 322 روپے بنتی ہے۔ اس وقت اس گاڑی کی درآمدی قیمت روپے کی قدر گرنے کے باعث 5 کروڑ 85 لاکھ 90 ہزار 301 روپے ہو چکی ہے۔ اس کے بعد کسٹمز ڈیوٹی سیلز ٹیکس، ایڈیشنل سیلز ٹیکس اور فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی سمیت سات مختلف اقسام کے ٹیکسز بھی اس گاڑی پر لاگو ہوتے ہیں، جس کے بعد اس کی موجودہ قیمت 30 کروڑ 74 لاکھ سے تجاوز کر جاتی ہے۔