محمد علی :
برطانیہ کے مشرق میں ساحل سے 12 کلو میٹر دور واقع دنیا کا سب سے چھوٹا ملک محض دو ستونوں پر ٹکا ہوا ہے۔ ’’سی لینڈ‘‘ نامی اس ملک کی آبادی 33 نفوس پر مشتمل ہے اور اس کا مجموعی رقبہ صرف ایک ایکڑ پر محیط ہے۔ ایک اور دلچسپ امر یہ ہے کہ اس ملک کی اپنی کرنسی بھی ہے، جسے سی لینڈ ڈالر کہا جاتا ہے۔
جبکہ یہاں بسنے والے افراد اپنا الگ سیاہ رنگ کا پاسپورٹ بھی رکھتے ہیں۔ یہ ننھی ریاست سابق برطانوی فوجی پیٹرک رائے بیٹس نے قائم کی تھی، جنہوں نے خود کو ’’پرنسپلٹی آف سی لینڈ‘‘ کا بادشاہ اور اپنی اہلیہ یوان کو ملکہ ڈیکلیئر کیا۔ جبکہ رائے کی وفات کے بعد ان کے صاحبزادے مائیکل نے ریاست کا کنٹرول سنبھالا۔ بتایا جاتا ہے کہ پرنس رائے کا سارا خاندان جدید ہتھیاروں سے لیس ہے۔
ایک بار برطانوی ماہی گیروں نے اپنی کشتی کی مرمت کیلئے غیر دانستہ طور پر سی لینڈ کا رخ کیا تھا تو یہاں کے رہائشیوں نے زبردست فائرنگ کرکے انہیں بھگا دیا تھا۔ اس چھوٹے سے ملک سی لینڈ کی اپنی فوج، پرچم اور قومی ترانہ بھی ہے۔ یہی نہیں، سی لینڈ نے اپنی ایک فٹ بال ٹیم بھی بنا رکھی ہے اور انہیں امید ہے کہ وہ ایک دن فیفا ورلڈکپ ضرور کھیلیں گے۔
یہاں کے لوگ انگریزی زبان پر مکمل عبور رکھتے ہیں۔ اور مہینے بھر کے راشن کی خریداری کیلیے برطانیہ آتے جاتے رہتے ہیں۔ اس ملک کی آمدن ایک آن لائن گفٹ اسٹور سے ہوتی ہے، جس پر یہاں کے نوادرات فروخت کیلیے موجود ہیں۔ اس کے علاوہ سی لینڈ کی چین، شرٹس، قلم، مگ اور دیگر چیزیں بھی فروخت ہوتی ہیں۔
دراصل یہ ملک بین الاقوامی سمندر کے اندر سیمنٹ سے بنا ایک پلیٹ فارم ہے، جسے برطانیہ دوسری جنگ عظیم کے دوران طیارہ شکن توپوں کے لیے استعمال کرتا تھا۔ جب 1943ء میں اس قلعہ کو تعمیر کیا گیا تو اسے روف ٹاورز کا نام دیا گیا تھا۔
جرمنی سے جنگ ختم ہوئی تو برطانیہ یہاں سے توپیں اتار کر لے گیا اور پلیٹ فارم کو ترک کر دیا۔ موقع دیکھ کر 1967ء میں برطانوی فوج کے ایک میجر پیٹرک وائے بیٹس نے اس جگہ پر قبضہ کر کے وہاں آزاد ریاست بنانے کا اعلان کر دیا اور اپنی بیوی سمیت اس قلعہ پر آ کر آباد ہوگئے۔
انہوں نے سی لینڈ نامی ریاست کا اعلان کر کے خود یہاں کا بادشاہ بن کر اپنی بیوی کو ملکہ کا خطاب دے دیا۔ 1975ء میں بیٹس نے سی لینڈ کا آئین، جھنڈا، قومی ترانہ اور پاسپورٹ جاری کر دیا، لیکن اس کے باوجود ابھی تک کسی ملک نے سرکاری طور پر اسے تسلیم نہیں کیا۔ یہاں تک کہ برطانیہ نے بھی نہیں جہاں سی لینڈ کے زیادہ تر شہری اصل میں رہتے ہیں۔
1987ء میں برطانیہ نے اپنی سمندری رسائی کو تین میل سے بڑھا کر 12 میل کر دیا اور یوں سی لینڈ اس کی حدود کے اندر آ گیا، لیکن سی لینڈ کے شہزادہ اس سے متفق نہیں ہیں۔ سی لینڈ کے شہزادے مائیکل بیٹس نے بی بی سی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ سی لینڈ نے کبھی خود کو تسلیم کرانے کی ضرورت محسوس نہیں کیْ ریاست بننے کے لیے آپ کو صرف مونٹیویڈیو کنونشن کے معیار پر پورا اترنا پڑتا ہے جس کے مطابق آبادی، علاقہ، حکومت اور دوسری ریاستوں کے ساتھ بات چیت میں داخل ہونے کی صلاحیت ہے۔
رپورٹ کے مطابق پہلی بار جب لوگوں کو اس ملک کا علم ہوا تو لوگوں نے یہاں آباد باشندوں کو بہت زیادہ امداد فراہم کی۔ بعد ازاں مختلف ممالک سے سیاح بھی یہاں آنا شروع ہو گئے۔ اس چھوٹے سے ملک کے بارے میں ایک ویب سائٹ بھی بنائی گئی ہے۔
https://sealandgov.org/ پر پرنسپلٹی آف سی لینڈ کی ویب سائٹ دیکھی جا سکتی ہے۔ اس کے ساتھ ہی فیس بک پر پرنسپلٹی آف سی لینڈ کے نام سے ایک پیج بھی بنایا گیا ہے۔ اس چھوٹے سے ملک کا دعویٰ ہے کہ اس کا تنظیمی ڈھانچہ حقیقت پر مبنی ہے۔