احمد خلیل جازم :
ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد جہانگیر جدون نے ذاتی وجوہات کی بنیاد پر اپنا استعفیٰ صدر مملکت کو بھجوا دیا ہے۔ سینئر وکیل جہانگیر جدون نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں حکومت کی طرف سے بہت اہم ترین مقدمات کی پیروی کی اور اس ضمن میں وہ بہت عمدہ دلائل دیتے رہے۔ اسی لیے یکایک ان کے اس فیصلے نے ہر کسی کو حیران کر دیا ہے۔
ذرائع کے مطابق ان کے حکومت کے ساتھ صحافیوں پر تشدد کے کیس کے حوالے سے تنازعات چل رہے تھے۔ جبکہ بعض سینئر تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ان کا آئی جی اسلام آباد کے ساتھ تنازعہ شدت اختیار کرگیا تھا۔ ایک اور اہم ترین بات ان کے قریبی ذرائع نے یہ بتائی کہ جیسے ہی وزیر اعظم نے اسمبلیوں کی مدت ختم ہونے کا اعلان کیا، تو اسی وقت جہانگیر جدون نے طے کرلیا تھا کہ وہ مزید اس عہدے پر کام نہیں کریں گے۔ دوسری جانب اسی حوالے سے ایک اور اہم استعفیٰ بھی شاید جلد سامنے آجائے۔
جہانگیر جدون کے ساتھ حکومتی تنازعات میں سے سب سے اہم تنازع آئی جی اسلام آباد کے حوالے سے سامنے آیا تھا۔ ایک سینئر کورٹ رپورٹر کا کہنا ہے کہ ’’جس وقت نو مئی کے واقعات کے بعد پکڑ دھکڑ شروع ہوئی تو تحریک انصاف کے کافی رہنما جیلوں میں بند ہوئے۔ اور ان کے مقدمات اسلام آباد ہائی کورٹ میں چلائے گئے۔
اس موقع پر تحریک انصاف کا جو بھی لیڈر ضمانت پر رہا ہوتا تو اسے تین ایم پی او کے تحت دوبارہ گرفتار کرلیا جاتا تھا۔ جسٹس میاں گل زیب حسن اور جسٹس ارباب محمد طاہر کی عدالت میں یہ کیس چل رہے تھے۔ اسی تناظر میں عدالتی احکامات کی حکم عدولی کی وجہ سے آئی جی اسلام آباد اور سیکریٹری داخلہ کے خلاف ڈاکٹر شیریں مزاری کے کیس میں توہین عدالت کا شو کاز نوٹس جاری کیا گیا تھا۔ جس وقت آئی جی اسلام آباد، شوکاز نوٹس کے حوالے سے عدالت میں پیش ہوئے تو ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد جہانگیر جدون بھی اسی عدالت میں پیش ہوئے تھے۔
انہوں نے اس وقت کہا تھا کہ وہ آئی جی اسلام آباد کے وکیل نہیں ہیں۔ اسی لیے وہ عدالت کو اس شوکاز نوٹس کا جواب نہیں دے رہے۔ جو آئی جی اسلام آباد کو دیا گیا ہے۔ آئی جی اسلام آباد نے کمرہ عدالت میں جہانگیر جدون سے کہا تھا کہ، اگر آپ کے کچھ اور معاملات ہیں تو بعد میں بیٹھ کر ڈسکس کیے جا سکتے ہیں۔ لیکن آپ کو اس وقت مجھے عدالت کے سامنے ڈیفینڈ کرنا چاہیے۔ چونکہ آپ وفاق کی جانب سے پیش ہو رہے ہیں اور وفاق کے ہی وکیل ہیں۔ لیکن جہانگیر جدون نے پھر بھی اس کیس سے معذرت کرلی تھی۔
عدالت کے سامنے دونوں کے درمیان اس بات پر تلخی بھی ہوئی تھی۔ چنانچہ اس وقت سے چلتا یہ سلسلہ آگے بڑھتا گیا۔ بعد میں صحافیوں کے کیس میں بھی جہانگیر جدون نے آئی جی اسلام آباد کو سپورٹ نہیں کیا۔ بلکہ صحافیوں کے موقف کو تسلیم کیا۔ چنانچہ آئی جی اسلام آباد نے جہانگیر جدون کو پولیس کی طرف سے جو تھوڑی بہت سیکورٹی دی تھی۔ وہ بھی واپس لے لی‘‘۔
اسلام آباد ہائی کورٹ جرنلسٹ ایسوسی ایشن کے سابق صدر اور کورٹ رپورٹر ثاقب بشیر نے اس تناظر میں ’’امت‘‘ کو بتایا کہ ’’ایک وجہ تو صریحاً آئی جی اسلام آباد شوکاز نوٹس والی تھی۔ جس کے بارے میں آپ کہہ رہے ہیں۔ دوسری اہم وجہ ہم صحافیوں پر پولیس کی جانب سے تشدد کیخلاف ایک رٹ پٹیشن تھی۔ جس میں آئی جی اسلام آباد عدالت میں پیش ہوتے تھے اور انہوں نے رپورٹ پیش کی تھی، تو کورٹ کے سامنے ہم صحافیوں کا جو موقف تھا، جہانگیر جدون نے اس کی مکمل سپورٹ کی تھی اور ہماری پٹیشن کو تسلیم کیا تھا۔ حالانکہ یہ بہت کم ہوتا ہے کہ پولیس یا پراسیکویشن کسی موقف کو تسلیم کرلے۔
اس وقت ہمیں اطلاعات ملی تھیں کہ ہماری حمایت میں جہانگیر جدون کے موقف کو ہائی کورٹ میں بیٹھی کسی اہم شخصیت نے بھی پسند نہیں کیا تھا۔ بعد ازاں حکومت نے بھی جہانگیر جدون سے اس حوالے سے ناراضی کا اظہار کیا تھا۔ ہمارا کیس بنیادی طور پر پولیس تشدد کے خلاف تھا کہ جب ہائی کورٹ اسلام آباد میں چیئرمین پی ٹی آئی کی انٹری ہو رہی تھی تو اس کے احاطے کے اندر پولیس نے صحافیوں اور خاص طور پر مجھ پر تشدد کیا تھا۔ ہم اس پر پولیس کے خلاف ایف آئی آر کرانا چاہتے تھے۔ جو اب تک درج نہیں ہوسکی۔ اسی لیے ہم وہ کیس ہائی کورٹ میں لے کر آئے تھے۔ یہ ملٹی پل چیزیں ایک ساتھ چل رہی تھیں، جو جہانگیر جدون کے استعفے کی وجہ بنی‘‘۔