حاشر عظیم :
پی ٹی آئی اور عمران خان کو بچانے کے لیے یہودی اور قادیانی لابی کی مشترکہ کوششوں کا سلسلہ جاری ہے۔ بلکہ اس میں تیزی آچکی ہے۔ اس پلان کے کرتا دھرتا یہودی النسل امریکی رکن کانگریس بریڈشرمین اور پاکستانی نژاد قادیانی ڈاکٹر آصف محمود ہیں۔
پینسٹھ ارکان کانگریس کی جانب سے امریکی وزیر خارجہ انتونی بلنکن کو خط لکھوانے سے لے کر اسرائیلی نمائندہ سے پاکستان مخالف بیان دلانے سمیت اب تک ہونے والی تمام تر کوششوں میں ناکامی کے بعد یہ دونوں متعصب افراد ایک اور ڈرامہ رچانے کی تیاری کر رہے ہیں۔ اس سلسلے میں کپیٹل ہل پر ’’پاکستان میں انسانی حقوق اور جمہوریت‘‘ کے عنوان سے ایک نام نہاد اجلاس چھبیس جولائی کو منعقد کیا جا رہا ہے۔ جس میں پاکستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا گھسا پٹا جھوٹا بیانیہ دہرایا جائے گا۔
مقصد ایک ہی ہے کہ کسی طرح اپنے چہیتے عمران خان، اس کی پارٹی اور خاص طور سانحہ 9 مئی کے کرداروں کو بچانے کیلئے پاکستان پر دباؤ بڑھایا جائے۔ لوگوں کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے بظاہر اجلاس کے ایجنڈے کے بارے میں منتظمین کی طرف سے کہا جا رہا ہے کہ ’’ہم پاکستان کے بہتر مستقبل کے لیے اس کے ڈھائی سو ملین عوام کی آواز بننا چاہتے ہیں‘‘۔
بھلا ان سے کوئی پوچھے کہ پاکستان کے عوام نے ان سے یہ مطالبہ کب کیا ہے؟ اور یہ کہ ان کے پیٹ میں یہ مروڑ کیوں اٹھ رہا ہے؟ انسانی حقوق پر اجلاس بلانا ہے تو اسرائیل اور بھارت سے آغاز کیوں نہیں کرتے؟۔
یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ اقوامِ متحدہ میں اسرائیلی خاتون نمائندہ کی جانب سے پاکستان کے خلاف بیان کے پیچھے بھی یہودی بریڈشرمین اور قادیانی ڈاکٹر آصف محمود کی کوششیں کارفرما تھیں۔ ’’امت‘‘ کو دستیاب معلومات کے مطابق عمران خان کی درپردہ حمایت کرنے والے اسرائیل کو یہودی اور قادیانی لابی نے باور کرایا کہ اپنے چہیتے اور اس کی پارٹی کو بچانے کے لیے اس بار کھل کر سامنے آنا پڑے گا۔ چنانچہ ہزاروں فلسطینیوں کے قاتل اور غاصب اسرائیل کی نمائندہ نے اقوامِ متحدہ میں پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی پر مبنی بیان دیا۔ حتیٰ کہ بعد میں اسرائیل کے سرکاری ٹوئٹر اکاونٹ پر بھی اسی نوعیت کی ہرزہ سرائی کی گئی۔
یاد رہے کہ جنیوا میں انسانی حقوق کے اجلاس کے موقع پر اقوام متحدہ میں اسرائیل کی مستقل نمائندہ آدی فرجون نے پاکستان میں انسانی حقوق کے حوالے سے پروپیگنڈا کرتے ہوئے کہا تھا کہ جبری گمشدگیوں، تشدد، پرامن احتجاج کے خلاف کارروائیوں اور مذہبی اقلیتوں کے خلاف پرتشدد واقعات پر اسرائیل کو تشویش ہے۔ تاہم ترجمان دفتر خارجہ نے منہ توڑ جواب دیتے ہوئے الزام کو سختی سے مسترد کر دیا تھا اور کہا تھا کہ اسرائیل کے فلسطینیوں پر ظلم و ستم کی طویل تاریخ کو دیکھتے ہوئے پاکستان کو انسانی حقوق کے تحفظ پر اس کے مشورے کی ضرورت نہیں۔
پاکستان مخالف بیانات اور عمران خان کو بچانے کی منصوبہ بندی کے تانے بانے کیلیفورنیا میں رہائش پذیر قادیانی ڈاکٹر آصف محمود اپنے ہمنوا یہودی ارکان کانگریس کے ساتھ مل کر بُن رہے ہیں۔ تقریباً سوا چار ماہ پہلے ڈاکٹر آصف محمود نے کیلیفورنیا، لاس اینجلس میں ہی رہائش پذیر یہودی رکن کانگریس بریڈ شرمین سے ان کے گھر پر ملاقات کی تھی۔ اس موقع پر ان کی عمران خان سے فون پر تفصیلی بات کرائی گئی، اور پھر شرمین نے عمران خان کے حق میں ویڈیو بیان جاری کیا تھا۔ اس کے بعد بھی بریڈ شرمین نے ایک سے زائد بار عمران خان سے ٹیلیفونک رابطہ کیا۔ دونوں کے مابین تعلقات پرانے ہیں۔ دو ہزار انیس میں بطور وزیر اعظم عمران خان کے دورہ امریکہ کے موقع پر بریڈ شرمین سے ان کی ملاقات کے بعد اس دوستی میں ’’گہرائی‘‘ آگئی تھی۔
اسی طرح سانحہ 9 مئی سے قریباً ایک ہفتہ قبل ڈاکٹر آصف محمود نے کیلیفورنیا سے تعلق رکھنے والے ایک اور یہودی النسل رکن کانگریس ایڈم شف کو اپنے گھر بلایا اور اس کی عمران خان کے مشیر برائے اوورسیز پاکستانی امور عاطف خان سے خصوصی ملاقات کرائی۔ کیلیفورنیا میں ہونے والی ان سرگرمیوں کو لے کر ہی اسے ’’کیلیفورنیا پلان‘‘ کا نام دیا جاتا ہے۔
ایڈم شف ان پینسٹھ ارکان کانگریس میں شامل تھے۔ جنہوں نے پاکستان میں انسانی حقوق کی خود ساختہ خلاف ورزیوں کا نوٹس لینے کیلئے امریکی وزیر خارجہ انتونی بلنکن کو خط لکھا تھا۔ ’’امت‘‘ کی تحقیق کے مطابق ان پینسٹھ ارکان کانگریس میں متعدد یہودی النسل ہیں۔ پاکستان اور مسلمانوں کے خلاف ان کی سوچ ڈھکی چھپی نہیں۔ جبکہ خط لکھنے والے دیگر ارکان میں بہت سے ایسے بھی تھے جنہوں نے ڈالروں کے عوض یہ خدمات انجام دیں۔ ان سے یہ کام ان دو بڑی لابنگ اور پی آر فرموں نے کرایا۔ جنہیں انتہائی مہنگے معاوضے پر تحریک انصاف نے ہائر کر رکھا ہے۔
دلچسپ امر یہ ہے کہ عمران خان کو بچانے کے لئے یہودی اور قادیانی لابی کی اب تک کی جانے والی کوششیں ناکامی سے دو چار ہیں۔ حتیٰ کہ امریکی وزیر خارجہ انتونی بلنکن نے بھی پینسٹھ ارکان کانگریس کا خط ردی کی ٹوکری میں ڈال دیا ہے۔ الٹا انہوں نے پاکستانی عوام اور حکومت سے اظہار یکجہتی اور نیک خواہشات کا اظہار کیا۔
اب تھوڑا ذکر ’’کیلیفورنیا پلان‘‘ کے دو بنیادی کرداروں کے پس منظر کا ہو جائے۔ ڈاکٹر آصف محمود اگرچہ کھل کر اپنے عقیدے کا اظہار کرنے سے کتراتے ہیں۔ تاہم قادیانیوں کے آن لائن اخبار ’’ربوہ ٹائمز‘‘ نے خود آصف محمود کو قادیانی ڈاکٹر قرار دیا۔ دو ہزار سترہ اور اٹھارہ میں جب ڈاکٹر آصف محمود کیلیفورنیا کے لیفٹیننٹ گورنر کا الیکشن لڑرہے تھے (جس میں وہ ہارگئے)، تو ربوہ ٹائمز نے نہایت فخر سے اس سرخی کے ساتھ انگریزی میں خبر شائع کی تھی کہ ’’پاکستانی نژاد احمدی کیلیفورنیا کے لیفٹیننٹ گورنر کے لئے الیکشن لڑیں گے‘‘۔ اس نیوز کا اسکرین شاٹ محفوظ ہے۔
پاکستان کے ایک چھوٹے گائوں میں پیدا ہونے والے آصف محمود نوے کی دہائی میں کینٹکی امریکہ چلے گئے تھے۔ بعد ازاں سن دو ہزار میں اپنی بیوی بچوں سمیت جنوبی کیلیفورنیا میں سکونت پذیر ہوگئے اور اب تک وہیں مقیم ہیں۔
امریکا کی امور خارجہ کمیٹی کے رکن اور کانگریس رہنما بریڈ شرمین کے والد اور والدہ دونوں روسی یہودی النسل تھے۔ بریڈ شرمین نے دسمبر دو ہزار چھ میں چونتیس سالہ لیزانکولا کپلان سے باون سال کی عمر میں شادی کی۔ جس سے ان کی تین بیٹیاں مولی، نومی اور لکی ہیں۔