بانی پی ٹی آئی ایف آئی اے کے سامنے شامل تفتیش ہوگئے، فائل فوٹو
بانی پی ٹی آئی ایف آئی اے کے سامنے شامل تفتیش ہوگئے، فائل فوٹو

عمران خان کو اپنا انجام قریب دکھائی دینے لگا

امت رپورٹ :
سائفر کے حوالے سے جاری تحقیقات کے سلسلے میں عمران خان کل (منگل) ایف آئی اے کی تفتیشی ٹیم کے سامنے پیش ہوں گے یا نہیں؟ اتوار کی رات یہ رپورٹ فائنل کئے جانے تک اس معاملے پر مشاورت کا سلسلہ جاری تھا۔

واقفان حال کے بقول اس بارے میں آج پیر کو حتمی فیصلہ متوقع ہے۔ فی الحال چیئرمین پی ٹی آئی اپنے وکلا کی رائے لے رہے ہیں۔ سابق وزیر اعظم اور ان کے بعض وکلا کو پیشی کے موقع پر گرفتار کیے جانے کا خدشہ ہے۔ وفاقی دارالحکومت میں موجود ذرائع کا کہنا ہے کہ پیشی کے موقع پر پھر بھی گرفتاری کا امکان ففٹی ففٹی ہے۔ تاہم اگر اپنے خدشے کے پیش نظر عمران ایف آئی اے کے سامنے پیش نہیں ہوتے تو پھر یہ امکان بڑھ جائے گا۔ کیونکہ وہ پہلے بھی دو بار ایف آئی اے کے طلبی نوٹسز ہوا میں اڑا چکے ہیں۔ اب دیکھنا ہے کہ چیئرمین پی ٹی آئی کے وکلا انہیں کیا مشورہ دیتے ہیں۔

واضح رہے کہ وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) نے سائفر کے معاملے پر تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کو پچیس جولائی (منگل) کو طلب کر رکھا ہے۔ اس سلسلے میں انہیں بنی گالہ اور زمان پارک کے ایڈریس پر نوٹس جاری کیا گیا تھا۔

پچھلے کافی عرصے سے عمران خان کی متوقع گرفتاری کی خبریں چل رہی ہیں۔ تاہم اب تک یہ گھڑی نہیں آسکی ہے۔ اس سے پہلے انہیں القادر ٹرسٹ کیس میں اگرچہ گرفتار کیا گیا تھا۔ تاہم حیران کن طور پر دوران ریمانڈ انہیں ضمانت مل گئی تھی۔ اس کے بعد سے چیئرمین پی ٹی آئی کی ممکنہ گرفتاری کی تمام پیشن گوئیاں غلط ثابت ہو رہی ہیں۔ لیکن اب عمران خان کو خود بھی اپنا انجام قریب دکھائی دینے لگا ہے اور انہیں ادراک ہے کہ گرفتاری کا حتمی مرحلہ نزدیک تر آچکا ہے۔

یوٹیوب پر اپنے ویڈیو خطابات کے دوران اب وہ اپنے اس خوف کا اظہار تسلسل کے ساتھ کر رہے ہیں۔ ساتھ ہی انہیں اپنی جلد نااہلی کا خدشہ بھی بری طرح لاحق ہے۔ خاص طور پر کل (منگل کو) سائفر کے معاملے پر ایف آئی اے میں پیشی کے موقع پر انہیں اپنی گرفتاری کا خاصا خطرہ محسوس ہو رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اتوار کی رات تک ایف آئی اے کی مشترکہ انکوائری ٹیم کے سامنے پیش ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ نہیں کر سکے تھے۔ چند وکلا کی رائے تھی کہ انہیں پیش ہوجانا چاہئے۔ جبکہ دیگر کا خیال تھا کہ پہلے کی طرح اس بار بھی راہ فرار اختیار کی جائے۔ توقع ظاہر کی جارہی ہے کہ پیشی کی ڈیڈ لائن سے ایک روز پہلے، پیر تک چیئرمین پی ٹی آئی اس حوالے سے کوئی حتمی فیصلہ کرلیں گے۔

سائفر معاملے پر تفتیش کے لئے اس سے پہلے ایف آئی اے نے عمران خان کو دو بار طلب کیا تھا۔ لیکن وہ پیش نہیں ہوئے۔ پہلی بار انہیں یکم نومبر دو ہزار بائیس اور دوسری بار تیس نومبر دو ہزار بائیس کو طلبی کا نوٹس بھیجا گیا تھا۔ ان نوٹسز کو ہوا میں اڑا دیا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ اس بار انہیں بھیجے گئے طلبی نوٹس میں قدرے سخت زبان استعمال کی گئی ہے۔

نوٹس میں کہا گیا ہے کہ ’’چیئرمین پی ٹی آئی کے خلاف سائفر کو سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کرنے پر تحقیقات جاری ہیں اور ایف آئی اے کی مشترکہ انکوائری ٹیم سائفر کو لے کر قومی سلامتی اور ریاستی مفادات کو خطرے میں ڈالنے کے الزامات کی تحقیقات کر رہی ہے۔ چنانچہ عمران خان اسلام آباد کے سیکٹر جی نائن فور میں واقع ایف آئی اے ہیڈ کوارٹر میں انکوائری ٹیم کے سامنے متعلقہ شواہد اور دستاویزات کے ساتھ پچیس جولائی کو اپنی حاضری یقینی بنائیں‘‘۔ ساتھ ہی نوٹس میں انتباہ کیا گیا ہے کہ ’’اس بار بھی نوٹس پر عملدرآمد میں ناکامی کا سیدھا مطلب یہ ہوگا کہ آپ کے پاس اپنے دفاع کے لئے کچھ نہیں ہے۔ اس صورت میں دستیاب شواہد کی بنیاد پر یکطرفہ کارروائی عمل میں لائی جائے گی‘‘۔

اسلام آباد میں موجود باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کا ایک ہدف یہ بھی ہے کہ سابق وزیر اعظم سے اس سائفر کی کاپی برآمد کرائی جائے۔ جس کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ وہ گم ہو چکی ہے۔ تاہم حکومت کا خیال ہے کہ سائفر عمران خان کے پاس موجود ہے۔ لہٰذا دوران تفتیش اس بارے میں بھی پوچھا جائے گا۔ اگر چیئرمین پی ٹی آئی حسب سابق ایک بار پھر غیر حاضر رہتے ہیں تو نہ صرف ان کی گرفتاری کا قوی امکان ہے۔ بلکہ سائفر کی برآمدگی کے لئے ان کی زمان پارک اور بنی گالہ، دونوں رہائش گاہوں پر چھاپے مارے جا سکتے ہیں۔

جیسا کہ سابق امریکی صدر کی رہائش گاہ پر ایف بی آئی نے چھاپہ مارا تھا۔ کیونکہ خفیہ سفارتی دستاویز سائفر کو اپنے پاس رکھنا آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی خلاف ورزی کے زمرے میں آتا ہے۔ گزشتہ برس ایف بی آئی نے سرکاری کاغذات کی برآمدگی کے لئے سابق صدر ٹرمپ کے فلوریڈا میں واقع گھر پر چھاپہ مارا تھا اور تلاشی کے دوران ایک سیف کو بھی توڑ ڈالا تھا۔ ٹرمپ بھی عمران خان کی طرح سرکاری دستاویزات گھر لے گئے تھے۔