احمد خلیل جازم :
گزشتہ دنوں وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں تعینات سول جج کے گھر میں سرگودھا سے لائی گئی چودہ سالہ ملازمہ رضوانہ پر بہیمانہ تشدد کا کیس سامنے آیا۔ اطلاعات کے مطابق بچی کا بروقت علاج نہ کرانے کی وجہ سے اس کے زخموں میں کیڑے پڑ چکے ہیں اور اس کے جسم پر کوئی ایسی جگہ نہیں۔ جہاں زخم موجود نہ ہوں۔ پندرہ بڑے زخم ہیں۔ جن میں سر پر دو فریکچر اور دونوں بازئوں سمیت پسلیاں بھی ٹوٹی ہوئی ہیں۔
اسلام آباد پولیس کے ذرائع نے ’’امت‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ حالیہ تشدد کیس میں اسلام آباد پولیس کی پوری کوشش ہوگی کہ وہ ملزمہ کو گرفتار کرے۔ کیوں کہ اس پر جو دفعات لگائی گئی ہیں۔ وہ ناقابل ضمانت ہیں اور اس حوالے سے قانونی کارروائی جاری ہے۔ سرگودھا پولیس کے ذرائع نے بتایا کہ چودہ سالہ بچی رضوانہ کو چھ ماہ قبل ایک جاننے والے کے توسط سے اسلام آباد میں سول جج عاصم حفیظ کے گھر ملازمہ کے طور پر بھجوایا گیا تھا۔
کئی ماہ تک والدین کی بچی سے فون پر بات نہیں ہو سکی تو وہ تین روز قبل اس سے ملنے خود اسلام آباد پہنچ گئے۔ جج کی اہلیہ سومیہ نے بچی کو بس اسٹاپ پر لاکر والدین کے حوالے کر کے یہ کہا کہ یہ درست طور پر کام نہیں کرتی اور چوری بھی کرتی ہے۔ والدین نے دیکھا کہ بچی زخمی حالت میں ہے اور نیم بے ہوشی کی حالت میں مسلسل رو رہی ہے۔ چنانچہ والدین بچی کو وہاں سے لے کر سرگودھا روانہ ہوگئے۔ وہاں پہنچ کر اسے سرگودھا کے سرکاری اسپتال لے جایا گیا۔ جہاں بچی کی حالت دیکھتے ہوئے اسے لاہور لے جانے کا کہا گیا۔ چنانچہ رضوانہ کے گھر والے اسے لے کر لاہور جنرل اسپتال گئے۔ جہاں بچی کا معائنہ کیا گیا تو اس کے جسم پر پندرہ کے قریب بڑے گھائو ملے۔ جن میں سر کے فریکچر بھی شامل ہیں۔
بچی اس وقت بھی ناگفتہ حالت میں ہے۔ ہوش میں آنے پر چودہ سالہ رضوانہ نے الزام لگایا کہ اس پر جج کی بیوی روزانہ تشدد کرتی تھی اور بے دریغ مارتی پیٹتی تھی۔ بچی نے بتایا کہ جج کی بیوی اسے ڈنڈوں اور چمچوں سے پیٹتی تھی اور روزانہ مار پڑتی تھی کہ وہ درست طور پر کام نہیں کرتی۔ اس کے بعد کھانا دیئے بغیر ایک کمرے میں بند کر دیتی تھی۔ ادھر سرگودھا پولیس نے چوہدری مختار نامی اس شخص کو بھی گرفتار کرلیا ہے۔ جس نے بچی کو اسلام آباد بھجوایا تھا۔ جب کہ اسلام آباد پولیس نے جج کی بیوی کے خلاف ایف آئی آر درج کرلی ہے۔
دوسری جانب رضوانہ کے والدین اور خاندان والوں نے مقامی صحافیوں کو بتایا کہ، رضوانہ کو دس ہزار روپے ماہانہ پر اسلام آباد بھجوایا گیا تھا۔ لیکن چھ ماہ تک اس پر جج کی بیوی سومیہ مسلسل تشدد کرتی رہی اور آخر میں والدین کے حوالے کر کے کہا کہ، یہ کام نہیں کرتی اور چوری کرتی ہے۔ جب بچی کو والدین نے دیکھا تو اس کی کھوپڑی سے چمڑی اتری ہوئی تھی اور اس کے زخم اتنے خراب ہو چکے تھے کہ ان میں سے بدبو آرہی تھی۔ غور کرنے سے معلوم ہوا کہ زخموں میں کیڑے پڑے ہوئے ہیں۔ بعد میں معلوم ہوا کہ اس کے چہرے پر استری سے جلنے کے نشانوں کے ساتھ ساتھ دونوں بازئوں کی ہڈیاں بھی ٹوٹی ہوئی ہیں اور پسلیاں بھی فریکچر ہیں۔ ٹانگوں پر اس قدر تشدد کیا گیا کہ وہ چلنے پھرنے سے بھی معذور ہے۔ جسم کے ہر حصے پر تشدد کے نشان موجود ہیں۔