اسلام آباد (نمائندہ خصوصی) پی ڈی ایم حکومت کا آخری ہفتہ شروع ہوگیا ہے۔ وزیر اعظم شہباز شریف ممکنہ طور پر8 اگست کو قومی اسمبلی تحلیل کرنے کی سمری صدر مملکت کو بھجوا دیں گے‘ یہ بات اتحادی حکومت میں شامل تمام جماعتوں کے مابین تقریباطے ہوگئی ہے۔نگران وزیر اعظم کی تقرری کے لیے حتمی فیصلہ بھی 8 اگست تک ہوجائے گا جبکہ سیاست میں جہانگیر ترین اور نواز شریف کی واپسی کا راستہ ستمبر میں کھلنے کا امکان ہے۔
سیاسی ذرائع کے مطابق پی ڈی ایم میں انتخابی ایڈجسٹمنٹ کے لیے تین چار آپشن پر بات چیت چل رہی ہے‘ مسلم لیگ(ن) اور پیپلزپارٹی کے درمیان انتخابی ایڈجسٹمنٹ میں سب سے بڑی مشکل دونوں کا روایتی حریف ہونا ہے۔اس کے علاوہ مسلم لیگ(ن) کو گلہ ہے کہ نواز شریف کے مقدمات ختم کرنے کے لیے پیپلزپارٹی نے اسے وہ تعاون فراہم نہیں کیا جس کی ضرورت تھی ، دوسری طرف مسلم لیگ(ن) کی قیادت یہ سمجھتی ہے کہ اگر پیپلزپارٹی ساتھ دیتی تو نواز شریف کی وطن واپسی کی راہ بہت پہلے ہموار ہوچکی ہوتی‘ نواز شریف اگست میں آنا چاہتے تھے تاہم آصف علی زرداری نے انہیں درکار حمایت اور امید نہیں دلائی ۔
سیاسی ذرائع کے مطابق اب نواز شریف کی وطن واپسی انتخابات کی تاریخ کا اعلان ہونے سے جڑ گئی ہے۔ مسلم لیگ(ن) کو اس بات کا گلہ ہے کہ پیپلزپارٹی کے کچھ سرکردہ رہنماؤں کی خاموشی کی وجہ سے نواز شریف کے کیسز کے فیصلوں میں تاخیر ہوئی ہے اس کانواز شریف کو سیاسی نقصان ہوا ہے کیونکہ وہ بر وقت پر پاکستان واپس آ کر الیکشن کے حوالے سے اپنی جماعت کے فیصلے نہیں کر سکے ہیں‘ ذرائع کے مطابق مسلم لیگ(ن) کی اب حکمت عملی ہوگی کہ وہ قومی اسمبلی کے ہر حلقے میں مضبوط امیدوار لائے تاکہ اسے سیٹ ایڈجسٹمنت کے چکر میں نہ پڑنا پڑے البتہ مسلم لیگ(ن) اور پیپلزپارٹی کے مابین جنوبی پنجاب میں ملتان سمیت متعدد حلقوں میں سیٹ ایڈجسٹمنٹ ہبوسکتی ہے۔
اسی طرح لالہ موسی میں پیپلزپارٹی کے رہنماقمر زمان کائرہ کے حلقے میں بھی باہمی طور پر مشترکہ امیدوار لاجاسکتا ہے اور مسلم لیگ اس علاقے میں صوبائی حلقوں میں دلچسپی رکھتی ہے لیکن دونوں جماعتوں کے مابین سیٹ ایڈ جسٹمنٹ پنجاب کے کسی دوسرے حلقے میں ہوتی ہوئی نظر نہیں آرہی ہے‘ خاص طور پر سرگودھا اور منڈی بہاؤدین کے حلقوں میں مسلم لیگ(ن) مضبوط امیدوار لائے گی‘ مسلم لیگ(ن) کے ذرائع بتاتے ہیں کہ وہ دوسری جماعتوں کے ساتھ قومی کی 10 اور صوبائی کی 15 سے20 نشستوں پر ہی سیٹ ایڈجیسٹمنٹ کا سوچ رہی ہے‘ مسلم لیگ(ن) کے لیے سب سے اہم سوال آئندہ کے وزیر اعظم کا ہے‘ نواز شریف وزیر اعظم کے امیدوار کے طور پر سامنے آتے ہیں یا نہیں، اس کا حتمی فیصلہ ستمبر میں ہو سکتا ہے۔ البتہ کہا جا رہا ہے کہ اگر پنجاب کی وزارت اعلٰی کیلئے شریف فیملی کا کوئی فرد سامنے نہیں آتا تو اور مسلم لیگ(ن) صوبےمیں اکثریت حاصل کرتی ہے تو وزارت اعلی کی دوڑ میں ملک احمد خان بھی شامل ہو سکتے ہیں۔