نواز طاہر :
جس وقت عمران خان کو ان کی آبائی رہائش گاہ ’قلعہ زمان پارک‘ سے گرفتار کرکے جیل منتقلی کیلئے موٹر وے پر سرکاری گاڑیوں نے فراٹے بھرنے شروع کئے تھے تو پیچھے گھر میں مکمل خاموشی تھی۔ صرف چند پولیس اہلکاروں، کچھ صحافیوں اور اڑتے پرندوں کی آوازیں آرہی تھیں۔ دوسری جانب لاہور میں عمران خان کی گرفتاری کے بعد احتجاج کی کال پر رات گئے تک کسی نے لبیک نہیں کہا تھا۔
گرفتاری کے نصف گھنٹے کے بعد عمران خان کے حق میں پہلا نعرہ انصاف لائرز فورم کے اس دستے نے بلند کیا جس میں دس سے گیارہ وکلا شامل تھے اور گرفتاری کے بعد خان کے گھر میں داخل ہونے والا یہ پہلا ’’قافلہ‘‘ تھا۔
اسی قافلے کیلیے پی ٹی آئی چیئرمین کے گھر کا دروازہ کھولنے پر کچھ صحافی بھی داخل ہوئے۔ داخلی دروازے کے سامنے پی ٹی آئی کے چیئرمین کے استعمال میں رہنے والی بغیر نمبر کی کالی لگژری گاڑی کھڑی تھی اور ان کے ذاتی محافظ آپس میں گفتگو کررہے تھے اور پشتو زبان میں بتا رہے کہ جب تک پی ٹی آئی کے ذمہ داران کی طرف سے کوئی بات نہ بتائی جائے، تب تک صحافیوں کے سامنے کوئی بیان دینے سے گریز کیا جائے۔
لیکن ساتھ ہی ساتھ وہ جان پہچان والوں کو پشتو سمیت مختلف زبانوں میں معلومات بھی فراہم کررہے تھے اور افسردہ تھے۔ یہ افسردگی، بے چارگی اور بے بسی اس سے پہلے دکھائی نہیں دیتی تھی۔ بلکہ تین ماہ پہلے تک انہی محافظوں سے پی ٹی آئی کے سینئر رہنما بھی بے باکی سے بات کرتے خوف محسوس کرتے دکھائی دیتے تھے۔ یہ دوپہر سوا ایک بجے سے ایک بج کر پینتیس منٹ کا دورانیہ تھا اور زمان پارک کے باہر کینال روڈ پر صرف گذرتی گاڑیوں کا شور تھا، ایک بجے کینال روڈ پر دس منٹ کیلیے ٹریفک روک کر چیئرمین پی ٹی آئی کو گرفتار کیا گیا۔
ذرائع کے مطابق ساڑھے بارہ بجے تک چیئرین پی ٹی آئی کے گھر کے اطراف کے راستے بھی بند تھے۔ دس سے بارہ منٹ کے گرفتاری آپریشن کے بعد پولیس اور میڈیا کے ماسوا ایک موٹر سائیکل پر ایک خاتون اپنے بیٹے کے ساتھ وہاں پہنچیں تو میڈیا اورپولیس اہلکار اس جانب لپکے تو معلوم ہوا کہ وہ علاقے میں ایک مذہبی مجلس میں شرکت کے لئے آئے ہیں۔ اسی اثنا میں پی ٹی آئی چیئرمین کے ہمسائے بیرسٹر چوہدری اعتزاز احسن کے معاون افتاب عالم بھی پہنچ گئے۔ تاہم انہوں نے بھی راستہ کھولنے پر اصرار نہیں کیا اور میڈیا کارکنوں کے ساتھ گفتگو میں شریک ہوگئے۔
اس وقت تک پی ٹی آئی کے چیئرمین کو کوٹ لکھپت جیل منتقل کیے جانے کی اطلاعات چل رہی تھیں۔ جبکہ انہیں اسلام آباد منتقل کرنے والی گاڑی موٹروے پر چڑھ چکی تھی۔ اور پی ٹی آئی کے وائس چیئرمین مخدوم شاہ محمود کی طرف سے احتجاج کی باقاعدہ کال دی جاچکی تھی۔ مگر زمان پارک میں احتجاج کرنے والا کوئی دکھائی نہیں دے رہا تھا۔
بلکہ رپورٹرز پی ٹی آئی چیئرمین کی گرفتاری کے لمحات باہم شیئر کرہے تھے اور یہ بحث جاری تھی کہ گرفتاری کے وقت چیئرمین پی ٹی آئی کی اہلیہ گھر میں موجود تھیں یا نہیں؟ یہ بحث ایک ملازم کی تصدیق کے بعد ختم ہوئی کہ بشریٰ بی بی گھر پر موجود تھیں اور عمران خان نے اپنی گرفتار ی کے لمحات قریب آنے کے بارے میں آگاہ کیا تھا، جنہیں گھر کے سیکیورٹی اسٹاف نے آگاہ کیا تھا کہ پولیس کی بڑی گاڑیاں اور کچھ نفری پہنچ چکی ہے۔
ڈی آئی جی آپریشن کی قیادت میں پولیس عمران خان کے گھر میں داخل ہوچکی تھی اور کوئی کارکن موجود نہ ہونے کے باعث کسی احتجاج اور مزاحمت کے بغیر چیئرمین پی ٹی آئی کو عدالتی فیصلے کی روشنی میں گرفتار کرکے سرکاری گاڑی میں بٹھا لیا گیا۔ ان کے گھریلو ملازمین کے مطابق چیئرمین پی ٹی آئی نے کپڑے تبدیل کرنے کی مہلت نہیں لی۔ جبکہ پولیس ذرائع کے مطابق پی ٹی آئی چیئرمین کی گرفتاری کے وقت ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی نے ان کے ساتھ لپٹنے، پولیس سے چھڑانے اور مزاحمت کی کوشش کی تھی۔ پی ٹی آئی چیئرمین صاف ستھیرے لباس میں تھے اور کپڑے تبدیل کرنے کی ضرورت نہیں تھی نہ ہی انہوں نے کپڑے تبدیل کرنے کیلئے وقت مانگا تھا۔ بعد میں اس کی تصدیق بھی ہوگئی کہ پی ٹی آئی چیئرمین نے عدالتی فیصلے کے اعلان سے پہلے ہی اپنا ویڈیو پیغام ریکارڈ کروادیا تھا کہ انہیں گرفتار کر لیا جائے گا اور پی ٹی آئی کارکنان گھروں میں نہ بیٹھے رہیں بلکہ ملک گیر احتجاج کریں۔
پی ٹی آئی چیئرمین کی گرفتاری کے ایک سے دو گھنٹے کے دوران انصاف لائرز فورم کے قافلے میں شامل رہنما عمیر نیازی نے بتایا کہ چیئرمین کی گرفتاری کے خلاف عدالت میں حبسِ بے جا کی درخواست دائر کی جارہی ہے ۔ ان وکلا نے گھر کے اندر ہی احتجاج اور نعرہ بای کا آغاز کیا۔ اس کے علاوہ دس سے بارہ کارکنوں کا ایک دستہ پی ٹی آئی کا جھنڈا تھامے زمان پارک پہنچا۔ جبکہ اس وقت پولیس کی بیشتر نفری جاچکی تھی۔ اس دستے کے پہنچنے اور نعرہ بازی پر پولیس نے نصف گھنتے تک کوئی ایکشن نہیں لیا۔
جبکہ اسی دوران زمان پارک کے اندر سے ہی چار پانچ ڈنڈا ا بردار کارکن بھی نکل آئے تھے جنہوں نے اپنے قائد کے حق اور ریاستی اداروں کے خلاف مسلسل نعرہ بازی کی تو پولیس نے ایکشن کیا اور دس کارکنوں کو حراست میں لے لیا۔ جبکہ باقی کارکنان گرفتاری کا ایکشن دیکھتے ہی رفو چکر ہوگئے جن کا پولیس نے بھی پیچھا نہیں کیا۔ عصر تک زمان پارک میں نہ توکوئی نعرہ لگانے والا دکھائی دے رہا تھا اور نہ ہی تین ماہ پہلے جیسی گانوں اور ترانوں کی کوئی آواز سنائی دے رہی تھی۔ البتہ زمان پارک کے گول گرائونڈ میں بچے کھیلنے کیلیے جمع ہورہے تھے۔
دریں اثنا پنجاب کے مختلف علاقوں سے موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق کسی بڑے شہر میں کوئی قابلِ ذکر احتجاج نہیں کیا گیا، البتہ پی ٹی آئی کے ذرائع کا دعویٰ تھا کہ ملک گیر احتجاج جاری ہے۔