احمد خلیل جازم :
تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کو عدالت سے سزا سنائے جانے کے بعد گرفتار کرکے اٹک جیل میں سی پی 2 بیرک میں رکھا گیا ہے۔ جو سزائے موت کے قیدیوں کے لیے مختص ہے۔ جیل ذرائع کے مطابق عمران خان کو بذریعہ موٹر وے لاہور سے گرفتار کر کے اسلام آباد لایا گیا اور اڈیالہ جیل منتقل کرنے کے لیے کہا گیا۔ لیکن اس وقت پنجاب کی تمام سینٹرل جیلوں پر بھرتیوں کا عمل جاری ہے، جس کی وجہ سے انہیںکسی بھی سینٹرل جیل میں نہیں رکھا گیا۔ بلکہ ڈسٹرک جیل اٹک بھجوایا گیا ہے۔
دوسری وجہ اٹک جیل رکھنے کی یہ ہے کہ بڑے شہر کی کسی جیل میں اس لیے بھی نہیں لے جایا گیا کہ کہیں کوئی احتجاج اور امن و امان کے مسائل کی صورت حال پیدا نہ ہوجائے۔ ذرائع کے مطابق اٹک جیل میں عمران خان کو جیل کا کھانا دیا جارہا ہے اور انہیں ایک پنکھے کے ساتھ ساتھ ایک میٹرس بھی مہیا کر دیا گیا ہے۔ جس جگہ عمران خان کو رکھا گیا ہے۔ یہ پوری بیرک سولہ چکیوں پر مشتمل ہے۔ وہاں سے قیدیوں کو ہنگامی بنیادوں پر نکال کر دوسری جگہ منتقل کیا گیا اور اس کے بعد عمران خان کو وہاں بند کیا گیا۔ اس سیل یا بیرک کے چار حصے ہیں اور ہر حصے میں چار چکیاں ہیں۔ جس میں چار سزائے موت کے قیدی رہ سکتے ہیں۔ لیکن اس وقت عمران خان اس سیل میں بالکل اکیلے ہیں اور ان پر سخت پہرا دیا جارہا ہے۔
اٹک جیل کے ذرائع نے ’’امت‘‘ کو تفصیلات سے آگاہ کرتے ہوئے بتایا کہ ہنگامی بنیادوں پر عمران خان کو اٹک جیل لایا گیا۔ چونکہ عمران خان کو پہلے اڈیالہ جیل رکھنے کا احکامات تھے، لیکن اڈیالہ جیل کے گرائونڈ میں ان دنوں بھرتیوں کی وجہ سے کافی رش لگا ہوا تھا، جہاں بھرتی ہونے والے نوجوانوں کی دوڑ اور میڈیکل ہو رہے تھے، جو گزشتہ روز ہی ختم ہوئے ہیں۔ چونکہ پنڈی انتظامیہ نے جیل حکام کو کسی اور جگہ سیکیورٹی دینے سے انکار کردیا تھا۔ اس لیے جیل حکام نے جیل کے گرائونڈ میں ہی بھرتیوں کا عمل شروع کررکھا تھا۔
راولپنڈی ڈویژن کے ڈی آئی جی جیل خانہ جات نے اس حوالے سے ہوم ڈپارٹمنٹ اور آئی جی پنجاب جیل خانہ جات کو بتا دیا تھا کہ اڈیالہ جیل پر کیا معاملات چل رہے ہیں۔ اس تناظر میں انہوں نے ڈسٹرک جیل اٹک کا پرپوزل بھیجا، جسے منظور کرلیا گیا۔ یوں عمران خان کو گرفتاری کے روز شام کے اوقات میں اٹک جیل منتقل کردیا گیا۔ جیل انتظامیہ کو جب معلوم ہوا تو انہوں نے ہنگامی بنیادوں پر ان کے لیے بارک سی پی 2 یعنی کنڈم پرزنرز کو خالی کرایا، جہاں سپریم کورٹ سے سزائے موت پانے والے قیدیوں کو رکھا جاتا ہے۔
اس بیرک کے چار (پارے) حصے ہیں، جس میں سے ایک حصے میں عمران خان کو بند کیا گیا ہے۔ سی پی ٹو بیرک میں سولہ چکیاں بنی ہوئی ہیں، ہر حصے میں چار چار چکیاں بنائی گئی ہیں۔ سی پی ٹو بیرک مکمل طور پر خالی کرائی گئی ہے، یعنی سولہ کی سولہ چکیاں خالی کرا دی گئی ہیں تین حصے مکمل خالی ہیں ، جب کہ ایک میں عمران خان بند ہیں۔ ایک چکی میں چار لوگ قید ہوسکتے ہیں لیکن عمران خان کو ایک ہی چکی میں اکیلا بند کیا گیا ہے۔ اس حصے کی تین چکیاں بھی خالی پڑی ہیں۔ یہ 8×12 کے لگ بھگ کی چکی ہوتی ہے۔ چار چکیوں کے لیے ایک باتھ روم اٹیچ ہے۔ یوں عمران خان کو باتھ روم استعمال کرنے کی سہولت بھی اندر ہی دی گئی ہے۔ یہ وہی چکی ہے جہاں اس سے قبل نواز شریف بھی بند رہے ہیں۔
اس کے علاوہ تحریک لبیک کے رہنمائوں کوبھی گرفتارکرکے انہی چکیوں میں بند کیا گیا تھا۔ عمران خان کو جیل کا عام کھانا ہی دیا جارہاہے۔ ایک میٹرس اور پنکھا بھی مہیا کردیا گیا ہے۔ جوکچھ قانون کے مطابق ایک سیاسی لیڈر کو مہیا کیا جاسکتا ہے، وہ عمران خان کو دے دیا گیا ہے۔ علاوہ ازیں جس شام عمران خان کو اٹک جیل منتقل کیا گیا، تو راولپنڈی سے پانچ ڈاکٹر کی ا یک خصوصی ٹیم نے جیل کا دورہ کرکے عمران خان کا چیک اپ کیا۔ جب کہ جیل کا ڈاکٹر بھی موقع پر موجود رہا۔ گزشتہ روز بھی عمران خان کا متعدد بار چیک اپ کیا جاتا رہا۔
ڈاکٹرز کی رپورٹ کے مطابق عمران خان مکمل فٹ ہیں لیکن حبس اور گرمی کی شکایت کررہے ہیں۔ جیل حکام دن رات سی پی2 پر ڈیوٹیز دے رہے ہیں۔ جبکہ سپرٹنڈنٹ اور ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ بھی مستقل اس بیرک کا دورہ کررہے ہیں۔ رات بھر ڈپٹی سپرٹنڈنٹ اس بیرک کو چیک کرتے رہے اور ہر لمحہ عمران خان پر نگاہ رکھی جارہی ہے۔
اٹک جیل میں نو مئی کے شر پسند بھی بندہیں، جو اپنے لیڈر کے آنے سے خاصے پرجوش ہیں اور خوش ہیں کہ چلیں اب لیڈر بھی کارکنان کے ساتھ آ چکا ہے۔ کیوں کہ عمران خان نے پہلے تو انہیں اپنے کارکن ماننے سے ہی انکار کردیا تھا۔ جیل حکام نے گزشتہ روز جتنے بھی ملازمین ریسٹ پر تھے، انہیں واپس بلوا لیا ہے۔ ان ملازمین کو سپرٹنڈنٹ جیل نے ذاتی طور پر فون کرکے بلوایا ہے۔
دوسری جانب اطلاعات ہیں کہ اٹک شہر میں دفعہ 144 نافذکردی گئی ہے اور جیل کے اردگر چار یا چار سے زائد افراد کے جمع ہونے پر سختی سے پابندی لگائی جاچکی ہے۔ تاہم بعض لوگ جیل کے باہر جمع ہوئے۔ جنہیں انتظامیہ نے منتشر کر دیا۔ جیل حکام نے سوشل میڈیا پر جیل کی ویڈیو لگانے کی سختی سے تردید کی ہے اور کہا ہے کہ جیل میں کسی بھی اہلکار کو سیل فون اندر لے جانے کی اجازت نہیں ہے۔ اور جتنی بھی ویڈیو اس حوالے سے سوشل میڈیا پر لگائی جارہی ہیں، وہ سب فیک ہیں۔