احمد خلیل جازم :
تحریک انصاف کے سزا یافتہ سربراہ عمران خان نے دو راتیں ڈسٹرکٹ جیل اٹک میں گزار دیں۔ سی پی ٹو بیرک میں انہوں نے گزشتہ روز صبح اٹھ کر ڈیڑھ گھنٹہ ورزش کی۔ وہ گھر سے لیگ پریس مشین ساتھ لائے تھے۔ جس پر وہ وزش کرتے رہے۔
ذرائع کے مطابق انہیں جیل مینوئل کے مطابق ہی ناشتہ دیا گیا۔ جس میں کلچے ، کالے چنے اور حلوہ شامل تھا۔ جبکہ دوپہر میں انہیں آلو کی بھجیا کے ساتھ لنگر کی روٹی مہیا کی گئی۔ عمران خان جس سیل میں مقیم ہیں۔ وہاں انہیں چارپائی، میٹرس اور پنکھا دیا گیا ہے۔ لیکن انہوں نے چارپائی واپس کردی اور جیل انتظامیہ سے ایک ایکسٹرا تکیہ مانگا، جو انہیں دے دیا گیا۔ جیل میں پہلی رات وہ گرمی کی شکایت کرتے رہے۔ تاہم گزشتہ شام کی بارش کے باعث ان کی دوسری رات نسبتاً بہتر ماحول میں گزری۔ عمران خان جس دن گرفتار ہوئے۔ ڈسٹرکٹ جیل اٹک کو دن دو بجے ہی آرڈر موصول ہوگئے تھے کہ ان کے لیے جیل میں بندوبست کریں۔ چنانچہ چار بجے تک سی پی ٹو کو خالی کرالیا گیا اور وہاں سے 49 قیدی شفٹ کردیئے گئے۔
ڈسٹرکٹ جیل کے ذرائع نے اس حوالے سے ’’امت‘‘ کو تفصیلات سے آگاہ کرتے ہوئے بتایا کہ، جس دن عمران خان کو جیل میں لایا گیا اس روز تحریک انصاف کے گیارہ کارکنان جو نو مئی کے واقعات میں ملوث تھے، انہیں چھوڑا جانا تھا۔ لیکن انہیں عمران خان کی گرفتاری اور پھر اٹک جیل منتقل کرنے کے باعث دوبارہ ایم پی او کے تحت پندرہ روز کے لیے جیل میں واپس بند کردیا گیا کہ کہیں یہ شر پسند، عمران خان کی گرفتاری پر دوبارہ ہنگامہ آرائی نہ کریں۔
ذرائع کے مطابق عمران خان کے اس سیل میں عام اہلکاروں کو ڈیوٹی کے بغیر نہیں جانے دیا جارہا۔ اسسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ اور ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ مستقل ڈیوٹی دے رہے ہیں۔ جب کہ سپرٹنڈنٹ جیل ہر دوگھنٹے بعد عمران خان کی خیریت دریافت کرنے آتا ہے۔ اس کے علاوہ انہیں کھانا بیرک میں ہی دیا جارہا ہے اور جیل کا ایک درجہ چہارم کا ملازم جو بطور کُک بھرتی ہوا ہے وہ انہیں کھانا دیتا ہے اور برتن وغیرہ اٹھاتا ہے۔ یہ خبریں بھی زیر گردش ہیں کہ انہیں اٹک جیل سے جلد ہی اڈیالہ جیل منتقل کردیا جائے گا۔ کیوں کہ وہ اس وقت سزا یافتہ مجرم کے طور پر جیل آئے ہیں اور اگر وہ ’بی کلاس‘ لیتے ہیں تو اٹک جیل میں ’بی کلاس‘ موجود نہیں۔ اس لیے انہیں اس کی منظوری کے بعد اڈیالہ جیل منتقل کیا جاسکتا ہے۔
ذرائع کے مطابق سوشل میڈیا پر یہ کہا جارہا ہے کہ جیل کے اندر ان کے حق میں نعرے بازی ہورہی ہے، جو بالکل غلط ہے۔ جیل میں نو مئی کے 96 شرپسند بند ہیں۔ لیکن وہ عمران خان کی بیرک سے کافی دور ہیں اور بالکل الگ تھلک ہیں۔ یہ چھیانوے شر پسند عام قیدیوں کے ساتھ بھی بند نہیں ہیں۔ بلکہ ان کے لیے الگ تھلک بیرک نمبر 2 مختص کی گئی ہے۔
دوسری اہم ترین بات یہ ہے کہ جیل میں کسی بھی قیدی کو بشمول عمران خان، موبائل فون کی سہولت میسر نہیں۔ جیل اہلکاروں تک کو جیل کے اندر سیل فون لے جانے کی اجازت نہیں ہے۔ اس لیے اٹک جیل کی تمام ویڈیوز جعلی ہیں، جو عمران خان کی جیل کے اندر کی ویڈیوز کے نام پر چل رہی ہیں۔ سوشل میڈیا پر ایک اور بات بھی زیرگردش ہے کہ جیل میں رانا ثنا اللہ، عمران خان کو دیکھنے گئے کہ وہ کس حالت میں ہیں، یہ بات بھی مکمل طور پر جھوٹ ہے۔ کوئی حکومتی اہلکار یا وزیر انہیں دیکھنے نہیں آیا۔
انہیں گرفتاری کی شام سات بجے ڈی آئی جی جیل خانہ جات پنڈی ریجن نے ریسیو کیا تھا، جو پہلی رات 10-40بجے تک عمران خان کو بیرک تک پہنچا کر واپس پنڈی گئے۔ سب سے پہلے عمران خان کا تمام سامان مال خانے جمع کرایا گیا۔ پھر جیل کے ڈاکٹر نے ان کا بلڈ پریشر، شوگر اور وزن چیک کیا۔
سب سے اہم بات یہ ہے کہ عمران خان اپنے گھر سے ایک ایکسرسائیز مشین ساتھ لائے، جسے لیگ پریس مشین کہا جاتا ہے۔ یہ سیل 9×12 کا ہے، جس میں یہ مشین بھی رکھی گئی ہے۔ سی پی ٹو کی اسی بیرک میں 1999ء میںنواز شریف، مہتاب عباسی، شیخ رشید اور رانا مقبول کو بھی رکھا گیا تھا۔ جب کہ بعد میں اعظم سواتی بھی یہیں قید رہے۔
عمران خان(حصہ) پہرہ ون میں ہیں جب کہ نواز شریف کے علاوہ تمام لوگ پہرہ تین بند رہے۔ جب کہ نواز شریف بھی پہرہ ون میں ہی بند رہے۔ پہرہ ون صحن نما ہوتا ہے جہاں پہرہ داری لگائی جاتی ہے۔ فی الحال عمران خان کو باہر سے کچھ بھی منگوا کر نہیں دیا جارہا۔ انہیں جیل مینوئل کی مکمل پابندی کرائی جارہی ہے۔ ڈاکٹر روزانہ دو گھنٹے بعد انہیں دیکھنے جاتا ہے، اس وقت تک عمران خان مکمل صحت یاب ہیں۔