نواز طاہر :
پاکستان تحریکِ انصاف کے سربراہ عمران خان اس وقت جیل میں ہیں جن کے سامنے سبزے سے زیادہ مٹی اور کھردری زمین ہے تو دوسری جانب ان کی رہائش گاہ زمان پارک میں لگائی گئی مصنوعی گھاس بھی بارش کے باوجود، اس سے ایک فرلانگ کے فاصلے پر گول پارک ( زمان پارک) میں سرسبز گھاس اور درختوں کے پتوں جیسی ہری اور بارش کے بعد شاداں دکھائی نہیں دیتی۔
پچھلے دس ماہ کے دوران جہاں ہر وقت گانے ڈھول ڈھمکے رقص ترانے اور گانے تھے وہاں یہ لان، دریو دیوار اب ویرانے ہیں اور گذشتہ پانچ روز سے یہاں کسی نے چیئرمین پی ٹی آئی کے نام کا نعرہ بھی نہیں لگایا، نہ ہی کوئی پوچھنے آیا کہ اسیری کے بعد قائد کے رونق خانہ اور اہلِ خانہ کے حالات کیا ہیں؟ ایک سکوت ہے جسے پرندوں کی چہچہاہٹ توڑتی ہے۔ گلیاں معمول کے مطابق خاموش، البتہ پارک آباد ہے جہان بچے بڑے نصٖف سال کے بعد اپنی سرگرمیاں بحال کرسکے تھے، جو عمران خان کو جیل بچانے سے بچانے کیلیے’ محافظین ‘ کی بستی بسا کر قبضے میں لیا گیا۔
واضح رہے کہ پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان کو توشہ خانہ تحائف میں سے سے حاصل کی جانے والی قیمتی گھڑی بیچنے اور اس کے بارے میں حقائق چھپانے پر سزا کے بعد گرفتار کرکے اٹک جیل نتقل کیا گیا تھا اور گرفتاری کے روز یہاں اپنے قائد کے حق اور ریاست و ریاستی اداروں اور شخصیات کے خلاف سخت گیر نعروں پر دو درجن کے قریب کارکنوں کو گرفتار کیا گیا، جس کے بعد سے جمعرات دس اگست تک وہاں کسی نے دوبارہ نعرہ لگانے یا یکجہتی کیلیے جانا گوارا نہیں کیا۔ اور یہاں ویرانی چھا چکی ہے۔
ایسی ہی ویرانی نیشنل ہاکی اسٹیڈیم میں انہوں دنوں آسٹرو ٹرف اکھارنے سے پیدا ہوئی تھی جو تاحال ٹرف کی عدم، دستیابی کے باعث اٹک جیل کے ریتلی کھردری زمین اور راہداری کی ہے۔ یہ آسٹرو ٹرف عمران خان کے جلسے کیلئے بچھائی گئی تھی اور تین سے چار ماہ کے اندر نئی ٹرف بچھانے کا اعلان کیا گیا ۔
پپی ٹی آئی کے چیئرمین نے وزارتِ عظمیٰ سے آئین کے تحت عدم اعتماد کی تحریک کے ذریعے سبکدوشی کے بعد حکومت مخالف تحریک چلانے کیلئے اپنے آبائی گھر زمان پارک کو مرکز بنایا تھا اور اسی احتجاجی تحریک کے دوران زخمی ہونے کے بعد زمان پارک عام شہریوں کیلئے علاقہ غیر بن گیا تھا۔ اسے پولیس اور پی ٹی آئی کے کارکنوں کے کئی ایک ’مقابلوں‘ کے بعد واگزار کرایا جاسکا تھا اور نو مئی کے واقعات کے بعد یہ یہاں کارکنوں نے آنا چھوڑ دیا تھا۔
اس وقت جبکہ عمران خان جیل میں ہیں اور زمان پارک کے باہر ان پر جان وارنے کے دعوے کرنے والوں کی اکثریت الگ ’سیاسی باغ ‘ میں تازہ ہوا کے جھونکے لے رہی تو زمان پارک کے درودیوار ایسی کئی دعوے داروں کی راہ تکتا ہے۔ مگر کوئی موومنٹ نہیں ہوتی۔ پانچ روز کے بعد پہلی موومنٹ پی ٹی آئی چیئرمین کی اہلیہ بشریٰ بی بی کی اس گھر سے اٹک جیل روانگی کے وقت ہوئی صبح نو بجے ہوئی۔ اس سے پہلے بڑی موومنٹ یہاں سے سیکورٹی ڈیوٹی سے واپس بلائے جانے والے ایک سو ساٹھ سے زائد پولیس ملازمین کی روانگی سے ہوئی تھی۔
سابق وزیراعظم کی سیکیورٹی کیلئے دو ڈی ایس پی ، سات انسپکٹر اور مختلف ماتحت درجے کے ایک سو ساٹھ ملازمینتینات کیے گئے تھے جبکہ انٹیلی جنس ڈیوٹی کرنے والے اہلکار اس کے علاوہ تھے ۔ جم،عرات کی شام تک وہاں ایک تھانیدار اور صرف چار اہلکار تعینات تھے ۔
سیکیورٹی ذرائع کے مطابق جس کی سیکیورٹی مقصود تھی وہ ی نہیں تو اب اس تعینتای کا کویئی جواز نہیں البتہ گھر کی تکنیکی سیکیورٹی کے انتظامات موجود ہیں اور پولیس کی گشت کرنے والی ایک کار بھی ان گلیوں میں گھومتی دکھائی دیتی ہے ۔ گلیوں سے رکاوٹیں ختم کردی گئی ہیں اور مختلف مقامات پر رکھی گئی ریت کی بوریاں بھی ہٹا لی گئی ہیں ، کہیں پی ٹی آئی کا جھنڈا دکھائی دیتا ہے اور نہ ہی پی ٹی آئی چیئرمین کا کوئی پوسٹر اور تصویر دکھائی دیتی ہے ۔
دن کے وقت زمان پارک کی گرائونڈ حب کے باعث خالی تھی لیکن بعد دوپہر بارش کے بعد اس کے اطراف میں مقامی افراد واک کرتے دیکھے گئے یا پھر پرندوں کے غول پارک میں کھڑے پانی اے لطف اندوز ہوتے اور چہچہاتے دیکھے گئے ۔ وہ جیسیہی خاموش ہوتے مکمل خاموشی چھا جاتی جو ان کے اڑنے سے ٹوٹتی ، زمان پارک کی اس صورتحال پر جب پی ٹی آئی کے ایک دیرینہ کارکن سے بات کی گئی تواس کا کہنا تھا کہ میں ضمانت کے بعدتیسے ضلع میں آپنے آبائی گھر پر زخم سہلا رہا ہوں ، لوگ بے وفا نکلے تو وہاں کون ملے گا ؟
زمان پارک میں اس خاموشی اور چیئرمین پی ٹی آئی کے گھر کے اندر کے سکوت پر ایک سینئر صحافی نے نو مئی کے واقعے کے بعد تیری چودہ مئی کی شب پی ٹی آئی چیئرمین کی پریس کانفرنس کا ایک حصہ یاد دلاتے ہوئے کہا ‘ کہ پریس کانفرنس کے دوران کچھ کارکن بھی گھس آئے جو پریس کانفرنس کے دوران ہی نعرے لگانے لگے اور عمران خان سے کہا گیا کہ یہ پریس کانفرنس ہے ، نعرے تو بند کروائیں جس پر جواب دیا گیا کہ پریس کانفرنس اپنی جگہ ہ مگر یہ زمان پارک بھی ہے اور اب کبھی کبھار یہاں عمران خان کے لگا کریں گے ‘‘۔
زمان پارک کے باہر زندگی معمول پر ہے اور مقامی مکین اب یہاں آدھا سال کے شوروغل کو یاد بھی نہیں کرنا چاہتے۔ وہ واک کرتے ہوئے پرندوں کو اڑاتے ہیں اوران کے چہچہانے پر مسکراتے ہیں۔ سیکیورٹی پر تعینات اہلکاروں نے تصدیق کی کہ جمعرات کی شام تک عمران خانہ کا گھر مالکان سے خالی تھا اور چیئرمین پی ٹی آئی کی اہلیہ بھی اٹک جیل میں شوہر سے ملاقات کے بعد نہیں لوٹیں۔ انہوں نے تصدیق کی کہ عمران خان کے جیل جانے کے بعد انہیں ان کی اہلیہ سے یکجہتی کیلیے آنے والا کوئی نہیں دیکھا گیا ۔