اقبال اعوان :
یوم آزادی کے سلسلے میں فروخت کیے جانے والے باجوں نے شہریوں کی زندگی اجیرن کر دی۔ کراچی پولیس نے عدالتی احکامات نظرانداز کر کے غیرقانونی طور پر باجوں کی خرید و فروخت کے کاروبار کی سرپرستی شروع کر دی۔
جبکہ پولیس کو ڈبل بھتہ دینے کے بعد دکانداروں نے باجوں کی قیمتیں بھی دگنی کر دیں۔ 50 روپے سے 400 روپے تک مختلف اقسام اور سائز کے باجے کھلے عام فروخت ہورہے ہیں۔ کراچی کی جوڑیا بازار کی مرکزی کھلونا مارکیٹ کے تاجروں کا کہنا ہے کہ لگ بھگ 2 کروڑ روپے کے باجے شہر بھر اور دوسرے اطراف کے شہروں کو فروخت کیے جا چکے ہیں۔ جبکہ برس گزشتہ کراچی میں 80 لاکھ روپے کا باجوں کا بزنس ہوا تھا۔
واضح رہے کہ چند سال قبل یوم آزادی کے حوالے سے آنے والی اشیا میں چائنا سے باجے منگوائے گئے تھے، جو شہر میں بچوں نے زیادہ پسند کے تھے اور اگلے سال ڈیلرز نے منگوائے جانے والے مال میں باجوں میں اضافہ کر دیا اور پھر گزشتہ سال کامیاب بزنس دیکھ کر کراچی میں پلاسٹک کے کھلونے بنانے والوں نے بھی چھوٹے بڑے باجے بنا لیے۔ اب 6 انچ سے ایک میٹر تک کے باجے مارکیٹ میں آئے ہیں۔
گزشتہ سال جہاں فروخت زیادہ ہوئی تھی، وہیں سوشل میڈیا پر خاصی تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ باجوں کا اتنا استعمال ہوا تھا کہ طوفان بدتمیزی مچ گیا تھا۔ اس بار 14 اگست کے حوالے سے مارکیٹوں، اسٹالز، دکانوں پر جو مختلف آرائشی سامان آیا، اس میں باجے زیادہ شامل تھے اور بچوں نے ضد کر کے جہاں باجے خریدنا شروع کر دیے وہیں نوجوان، کم عمر لڑکوں نے بھی استعمال شروع کر دیا۔ رات گئے تک ٹولیوں کی شکل میں باجے تیز تیز بجانے کا سلسلہ شروع ہے جس سے ضعیف العمر افراد، بیمار، آپریشن والے، ذہنی مریض، چھوٹے بچے، خواتین شدید پریشان ہو چکی ہیں۔
موجودہ خراب ترین معاشی حالات، بے روزگاری، بڑھتی مہنگائی نے شہریوں کو نفسیاتی مریض بنا ڈالا ہے۔ وہاں باجوں کا کرخت شور بعض لوگوں کے لیے ناقابل برداشت ہے اور جھگڑے، تلخ کلامی معمول ہے۔ اس صورت حال میں جوڈیشل مجسٹریٹ ملیر کی عدالت نے شہر میں جشن آزادی کے موقع پر باجے کی خریدوفروخت اور بجانے کے خلاف کارروائی کا حکم دیا۔
عدالت نے ضابطہ فوجداری کی سیکشن 190(2) کے تحت پولیس کو کارروائی کا حکم دیا۔ عدالت کا کہنا تھا کہ جشن کے موقع پر باجے بجا کر عوام کو پریشان کیا جاتا ہے اور کھلے عام فروخت ہورہے ہیں۔ عدالت نے شرافی گوٹھ اور سچل تھانے کے انچارجوں کو کارروائی کر کے رپورٹ جمع کرانے کا کہا کہ ان علاقوں کے حوالے سے درخواست گزار نے نشاندہی کی تھی۔
اب 14 اگست سر پر آچکی ہے باجوں کی فروخت کا سلسلہ تیز ہو چکا ہے اور اب بھی کھلے عام فروخت ہورہے ہیں۔ تاہم شہر بھر کے تھانوں کو کمائی کا ایک اور ذریعہ ہاتھ آگیا ہے اور اسٹال، دکان، پتھارے والے کو سیٹنگ کر کے فروخت کرنے کا کہا گیا ہے۔ جبکہ خرید کر لے جانے یا بجانے والوں کے خلاف کارروائی کا کوئی سلسلہ نہیں ہے۔ باجے فروخت والوں نے فوری طور پر بھتہ ادا کرنے کا بوجھ خریدنے والوں پر ڈال دیا ہے اور قیمتیں دگنی کر دی ہیں۔ ہر طرف گلی کوچوں، گھروں، سڑکوں پر باجے بجانے والے نظر آرہے ہیں۔
خواتین کے باہر نکلنے پر پیچھے سے بائیک سوار باجے بجا کر ان کو خوف زدہ کرنا، گرلز اسکولوں، کالجوں کے باہر بچیوں کو لڑکیوں کو تنگ کرنے کا موقع ہاتھ آگیا ہے۔ پیدل ٹولیوں کی شکل میں اور بائیک سوار نوجوان، لڑکے باجے بڑے بڑے لے کر بجاتے نظر آرہے ہیں۔ علمائے کرام، مساجد امام اور بزرگوں کی جانب سے ہدایات دینے کے باوجود روک تھام نہیں کی جارہی ہے۔
جوڑیا بازار کی مرکزی کھلونے کی مارکیٹ کے تاجروں کا کہنا ہے کہ جس طرح عید پر کھلونے والے ہتھیار، پستول، بندوقیں زیادہ فروخت ہوتی ہیں، اسی طرح 14 اگست پر باجے زیادہ فروخت ہورہے ہیں۔ جوڑیا بازار کے تاجروں نے گوداموں میں مال رکھا ہوا ہے۔ خریدنے والے کی جگہ پر محفوظ طریقے پر پہنچانے کی اضافی رقم وصول کرتے ہیں۔ جوڑیا بازار کھلونا مارکیٹ، کھارادر، لی مارکیٹ، لائٹ ہائوس، جھنڈا گلی، صدر، کورنگی کراسنگ، کورنگی نمبر 2، شاہ فیصل کالونی ایک، ریشم گلی، لانڈھی، بابر مارکیٹ، ملیر لیاقت مارکیٹ، لیاقت آباد کی سپر مارکیٹ سمیت دیگر مارکیٹوں میں ہول سیل کام جاری ہے اور دو کروڑ کا بزنس متوقع ہے۔