نواز طاہر:
زمان پارک کو شر پسندوں سے پوری طرح خالی نہیں کرایا جا سکا ہے اور ان کی وقتاً فوقتاً گرفتاریاں ہوتی رہتی ہیں۔ ہفتے کے روز بھی ایک مسلح شخص کو گرفتار کیا گیا۔ سرکاری ذرائع نے بتایا کہ زمان پارک میں تعینات پولیس اہلکاروں نے پی ٹی آئی چیئرمین کے گھر کے اطراف گھومنے والے ایک مشکوک شخص کو روک کر جب تلاشی لی تو اس کے پاس سے نائن ایم ایم پستول اور چالیس گولیاں برآمد ہوئیں۔ جس کے بعد ملزم کو مزید قانونی کارروائی کیلیے مقامی تھانہ ریس کورس منتقل کر دیا گیا۔
’’امت‘‘ کو معلوم ہوا ہے کہ لاہور میں اب بھی غیرمقامی افراد اور بالخصوص ایک کالعدم تنظیم کے شدت پسند موجود ہیں۔ جن کے پاس نہ صرف محفوظ پناہ گاہیں۔ بلکہ وہ مسلح بھی ہیں۔ موجودہ حالات میں ایسے افراد کی موجودگی کو تشوشناک قرار دیا جا رہا ہے۔
واضح رہے کہ زمان پارک میں تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کے آبائی گھر کے اطراف ایک مشکوک شخص کی گرفتاری اس وقت عمل میں آئی۔ جب پی ٹی آئی کے مخصوص حلقوں اور خود سابق وزیر اعظم کی اہلیہ بشریٰ بی بی کی جانب سے یہ خدشات ظاہر کیے گئے ہیں کہ جیل میں قید ان کے شوہر کو زہر دیا جاسکتا ہے۔
قتل کی سازش جیسے الزامات پی ٹی آئی چیئرمین اور باقی قائدین کی طرف سے عدالتوں میں پیشی کے وقت بھی سامنے آتے رہے ہیں۔ لیکن اس کا کوئی ٹھوس ثبوت سامنے نہیں لایا گیا تھا۔ تاہم کچھ رہنمائوں نے بعد میں اپنا موقف تبدیل کرلیا تھا اور بتایا تھا کہ یہ پی ٹی آئی کا بیانیہ تھا۔ جبکہ زمان پارک میں بڑی تعداد میں ایسے افراد کے مقیم ہونے کی اطلاعات بھی سامنے آتی رہی ہیں کہ ملک کے حساس اور شورش زدہ علاقوں میں موجود کالعدم تنظیم سے تعلق رکھنے والے شدت پسندوں کے ساتھ ساتھ بعض غیر ملکی باشندے بھی زمان پارک میں موجود ہیں اور ان کے پاس اسلحہ بھی موجود ہے۔ ایسے متعدد افراد مختلف اوقات میں کیے جانے والے آپریشن اور تصادم کے دوران بھی حراست میں لئے گئے تھے۔ تاہم نو مئی کے واقعات کے بعد بہت سے ایسے افراد انڈر گرائونڈ ہوگئے تھے۔
’’امت‘‘ کو معلوم ہوا ہے کہ عدالت سے سزا کے بعد پی ٹی آئی سربراہ عمران خان کو جیل منتقل کیے جانے پر زمان پارک سے سیکورٹی اہلکاروں کی بڑی تعداد واپس بلا لی گئی تھی۔ تاہم ایک سیکورٹی دستہ ابھی بھی وہاں تعینات ہے اور معمول کا گشت بھی یقینی بنایا گیا ہے۔ پی ٹی آئی چیئرمین کی گرفتاری کے موقع پر بھی زمان پارک سے کچھ لٹھ بردار گرفتار کرلئے گئے تھے اور سیکورٹی اداروں کو تحفظات یہاں سے کسی ’شرارت‘ کے تحفظات تھے۔ جس کے پیش نظر زمان پارک اور خاص طور پر پی ٹی آئی چیئرمین کے گھر کے اطراف خصوصی نگرانی یقینی بنائی گئی۔ ہفتے کے روز اسی معمول کی سیکیورٹی کے دوران اس مشکوک شخص کی تلاشی لی گئی تو اس سے پستول اور چالیس گولیاں برآمد ہوئیں۔
’’امت‘‘ کے ذرائع کے مطابق ملزم کو انسدادِ دہشت گردی ڈپارٹمنٹ کے حوالے کردیا گیا ہے۔ جہاں اس سے پوچھ گچھ جاری ہے۔ لیکن اس کی تفصیلات سامنے نہیں لائی جارہیں۔ البتہ یہ معلوم ہوا ہے کہ تیس پینتیس سالہ ملزم کا نام اکبر خان ولد اصغر خان ہے اور اس کا تعلق صوبہ خیبر پختونخوا سے ہے۔
ذرائع کے مطابق ملزم سے یہاں گھومنے پھرنے کے محرکات پر تفتیش کی جارہی ہے اور یہ جاننے کی کوشش کی جارہی ہے کہ وہ پہلے سے یہاں پر موجود افراد میں شامل تھا اور واپس نہیں گیا تھا یا پھر خاص طور پر ان دنوں کسی خاص مقصد کیلئے یہاںآیا؟ ذرائع کے مطابق تفتیش کے دوران جو نکات سامنے آئے ہیں۔ ان کے مطابق ملزم کا مقصد سیکورٹی پر مامور اہلکاروں کو نشانہ بنانا تھا یا پھر وہ پی ٹی آئی چیئرمین کے گھر کو نشانہ بنانے کی کسی سازش کا حصہ تھا۔ تاکہ بد امنی کو ہوا دی جاسکے۔
ذرائع نے اس امر کی تصدیق نہیں کی کہ ملزم کو یہاں پہلے موجود رہنے والے افراد کے ساتھ شناخت کیا گیا ہے یا نہیں؟ البتہ سیکورٹی اہکاروں کا کہنا ہے کہ ابتدائی پوچھ گچھ میں ملزم برآمد ہونے والے پستول کی ملکیت اور اسلحہ رکھنے کی قانونی دستاویزات پیش نہیں کرسکا تھا اور اس نے یہاں آنے کے بارے میں کوئی واضح بات نہیں کی تھی۔ بلکہ سیکورٹی اہلکاروںکو چکمہ دینے کی کوشش بھی کی تھی۔ تاہم سیکورٹی اہلکاروں نے اسے حراست میں لے کر تھانے سے پولیس کال کرکے ایس ایچ او کے حوالے کردیا تھا۔
سیکیورٹی ڈیوٹی دینے والے اہلکاروں کے مطابق اس گرفتاری کے بعد ان اطلاعات کی تائید ہوتی ہے کہ اب تک زمان پارک سو فیصد غیر مقامی مسلح افراد سے پاک نہیں ہو سکا اور شرپسند شہر کے مختلف علاقوں میں پناہ لئے ہوئے ہیں اور عمران خان کے آبائی گھر آنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جس کا ممکنہ مقصد یہاں فائرنگ کرکے، کسی کو جانی نقصان پہنچا کر پی ٹی آئی چیئرمین کے اس موقف کو تقویت دینا ہو سکتا ہے کہ ان کی زندگی کو بھی خطرہ ہے اور ان کی اہلیہ کی زندگی کو بھی خطرہ ہے۔
ذرائع نے امید ظاہر کی ہے آئندہ بیس گھنٹوں کے دوران ملزم سے اہم معلومات حاصل ہوسکتی ہیں۔ سیکیورٹی ذرائع کے مطابق لاہور میں موجود غیرمقامی افراد کے پاس نہ صرف محفوظ پناہ گاہیں ہیں۔ بلکہ بڑی مقدا میں اسلحہ بھی موجود ہے۔ جس کیلئے ایک بڑے اور منظم آپریشن کی ضرورت ہے۔