نمائندہ امت :
ایک جانب شاہ محمود قریشی ایف آئی اے کی تحویل میں جسمانی ریمانڈ پر ہیں تو دوسری طرف تحریک انصاف کے صدر پرویز الٰہی اڈیالہ جیل میں ہیں اور کرپشن کیس میں نیب نے ان کا ریمانڈ منظور کرالیا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی کے دونوں سینئر رہنما اس وقت پارٹی کی قیادت سنبھالنے کی غرض سے ایک دوسرے کے مدمقابل ہیں۔ بظاہر تو پرویز الٰہی نے شاہ محمود کی گرفتاری پر افسوس کا اظہار کیا ہے اور انہیں تحریک انصاف کے ساتھ کھڑے رہنے کا مشورہ دیا ہے۔ لیکن حقیقت میں وہ تحریک انصاف کی قیادت سنبھالنے کی ڈیل کے انتظار میں ہیں۔
واضح رہے کہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت ملک بھر کے لیے اسلام آباد میں ایک خصوصی عدالت قائم کر دی گئی ہے۔ جہاں پیر کو تحریک انصاف کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی کے خلاف سائفر کیس کی پہلی اِن کیمرا سماعت ہوئی۔ جس کے بعد انہیں چار روزہ جسمانی ریمانڈ پر وفاقی تحقیقاتی ادارے ایف آئی اے کے حوالے کر دیا گیا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ شاہ محمود قریشی سے تفتیش جاری ہے اور سائفر کے معاملے پر وہ خود کو بے گناہ کہہ رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ تمام ممالک سے جو سائفر آتے۔ پالیسی کے مطابق ان سے وزیر اعظم کو مطلع کیا جاتا تھا۔ امریکہ سے آنے والا سائفر بھی وزیراعظم کے علم میں لایا گیا تھا۔ جسے انہوں نے ہی منگوایا تھا۔ انہیں یہ ڈی کوڈ کرکے دیا گیا۔ اس سے زیادہ انہیں کچھ معلوم نہیں۔
ایف آئی اے کے ذرائع نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ شاہ محمود قریشی سائفر کے حوالے سے خود کو بے گناہ کہتے ہیں۔ آ فیشل سیکرٹ ایکٹ ترمیمی بل کے تحت سابق وزیر اعظم عمران خان اور سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے خلاف سیکریٹری داخلہ یوسف نسیم کھوکھر کی مدعیت میں مقدمے کا اندراج ہو چکا ہے۔ جس میں انہیں حساس سفارتی دستاویز سائفر کو عام کرنے اور سیاسی مفاد اور ملکی اداروں کے خلاف استعمال کرنے کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا ہے۔
لیکن شاہ محمود قریشی نے دوران تفتیش بتایا کہ ان کے خلاف یہ کیس بوگس ہے۔ وہ وزیر خارجہ ضرور تھے۔ لیکن انہوں نے اس سائفر کو روٹین کے مطابق وزیر اعظم پاکستان کو بتایا۔ جسے انہوں نے منگوالیا۔ اس کے بعد ان کے اور اعظم خان کے مابین اس پر کیا گفتگو ہوئی۔ اس بارے میں انہیں معلوم نہیں۔ وہ سائفر دوبارہ ان کے پاس نہیں آیا۔ ذرائع نے بتایا کہ شاہ محمود قریشی کا کہنا ہے کہ دراصل یہ سائفر ڈی کوڈ کرکے وزیر اعظم کو دیا گیا تھا۔ یہ الزام درست نہیں کہ انہوں نے سائفر کو توڑ مروڑ کر وزیر اعظم کو پیش کیا۔ جس طرح جو کچھ لکھا ہوا تھا۔ وہی کچھ وزیر اعظم کو پیش کیا گیا۔ اس میں ان کے یا کسی کے کہنے پر تبدیلی ممکن نہیں ہے۔
انہوں نے تفتیش میں مزید کہا کہ گم شدہ سائفر کو تلاش کیا جائے۔ اس سے حقائق واضح ہوجائیں گے۔ معلوم نہیں ہے کہ گم شدہ سائفر کہاں ہے اور کس کے پاس ہے۔ ان کا کام صرف یہ امانت وزیر اعظم تک پہنچانا تھا۔ جو پہنچا دی گئی۔ انہیں وزیر اعظم کی آڈیو کال بھی سنائی گئی۔ جس پر ان کا کہنا تھا کہ اگر یہ آڈیو سچ بھی ہے تو اس میں ان کی آواز کہیں نہیں ہے۔
اس سوال پر کہ آیا ان پر یہ دبائو بھی ہے کہ وہ سلطانی گواہ بن جائیں۔ تاکہ ان کی اس مقدمے سے جان چھوٹ جائے۔ تو اس ذرائع نے کہا کہ ایف آئی کی تفتیش کا رخ سائفر کی برآمدگی پر زیادہ ہے اور انہی خطوط پر ان سے تفتیش ہو رہی ہے۔ لیکن شاہ محمود بدستور یہ کہہ رہے ہیں کہ انہیں نہیں معلوم سائفر کہاں ہے اور کس کے پاس ہے۔ ان سے یہ بھی معلوم کیا جارہا ہے کہ سائفر امریکی اخبار کو کس نے بھیجا۔ ابھی تک تفتیش انہیں نکات پر مرتکز ہے۔
ایک سوال پر ذرائع کا کہنا تھا کہ بعض لوگوں کا یہ کہنا کہ شاہ محمود قریشی سے کسی اور ادارے کے افراد بھی ملاقات کر رہے ہیں۔ بالکل غلط ہے۔ وہ اس وقت صرف ایف آئی اے کی کسٹڈی میں اور ایف آئی اے کے حکام ہی ان سے تفتیش کر رہے ہیں۔
ادھر چوہدری پرویز الٰہی کے خاندانی ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ چوہدری شجاعت حسین کئی بار کوشش کر چکے ہیں کہ وہ اپنے بھائی کو تحریک انصاف چھوڑنے پر رضا مند کرلیں۔ لیکن فی الحال اس میں کامیابی حاصل نہیں ہو رہی۔ انہوں نے شجاعت حسین کو اسٹبلشمنٹ کے لیے یہ پیغام بھی بھجوایا ہے کہ وہ تحریک انصاف کی قیادت سنبھالنے کے اہل ہیں اور وہ پی ٹی آئی کی قیادت سنبھال کر تحریک انصاف کو راہ راست پر لا سکتے ہیں۔ لیکن ان کے لیے سب سے بڑی رکاوٹ شاہ محمود قریشی ہیں۔
ذرائع کے بقول اگر اس سنگین کیس میں شاہ محمود قریشی کو سزا ہوجاتی ہے تو پھر پرویز الٰہی کے لیے راستہ صاف ہوجائے گا۔ سابق وزیراعلیٰ کو امید ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ان کی ڈیل کامیاب ہو جائے گی۔ اسی لیے وہ خاموشی سے جیل کاٹ رہے ہیں۔