اقبال اعوان :
کراچی کے شہریوں میں کے الیکٹرک کے خلاف لاوا ابلنے لگا۔ بجلی کے بھاری بلوں اور لوڈ شیڈنگ کے ستائے شہریوں اور تاجروں کے احتجاج میں سیاسی جماعتوں بھی شریک ہونے لگی ہیں۔ جبکہ بجلی کے بلوں کی ادائیگی کے لئے گھریلو سامان تک فروخت کرنے کا سلسلہ شروع ہوچکا ہے۔
کے الیکٹرک کی جانب سے شہر کے اندر دو واقعات کے بعد پولیس سے سیکیورٹی طلب کی گئی ہے۔ جبکہ علاقوں میں فالٹ ٹھیک کرنے نہ جانے یا تاخیر سے جانے پر شہریوں کے مسائل میں مزید اضافہ ہوگیا ہے۔
واضح رہے کہ کراچی میں ٹمبر مارکیٹ میں تاجروں کی جانب سے کے الیکٹرک کے عملے پر تشدد اور احسن آباد میں شہریوں کی جانب سے تشدد کے واقعات کے بعد کے الیکٹرک نے اپنی حفاظت کے نام پر ماضی کی پالیسیوں کو اپنانے کا سلسلہ شروع کردیا کہ بجلی بند ہونے یا کسی بھی فالٹ کی شکایت ملنے پر عملہ اور گاڑی جانے سے قبل قریبی پولیس اسٹیشن کو مطلع کیا جائے گا۔ اور موبائل یا موٹر سائیکل سوار پولیس اہلکاروں کے ساتھ عملہ جائے گا۔
آج کل شہر میں کرائم کی بدترین صورتحال ہونے اور اہلکاروں کی مختلف غیر قانونی کاموں سے پیدا گیری بڑھنے پر موبائل کا ملنا جلدی ممکن نہیں ہے۔ اس طرح بجلی کے بل ادا کرنے والے صارفین تاخیر یا نہ جانے پر بجلی کی بندش پر پریشان ہورہے ہیں۔ جبکہ احتجاج والے علاقوں سے عملے کو گاڑیوں کے ساتھ دور رہنے کی ہدایات ہیں۔ کراچی کے شہری آئے روز بجلی کے بلوں میں اضافے کی خبریں دیکھ دیکھ کر نفسیاتی بیماریوں کا شکار ہورہے ہیں کہ ٹیکس دن بدن بڑھ رہے ہیں اور فی یونٹ میں اضافہ ہورہا ہے۔
گزشتہ سال آنے والے مالیت کے بل اب تین گنا مالیت کے ہوچکے ہیں۔ غریب طبقہ جس کی اتنی آمدنی نہیں ہے۔ وہ استعمال کی گھریلو اشیا فروخت کرکے بل ادا کررہا ہے۔ اب علاقے کے اندر بلنگ آفس میں رش بڑھ رہا ہے کہ بلوں کی قسطیں کرانے والے زیادہ آرہے ہیں۔ جبکہ ماضی کی طرح کم رقم کی قسطیں نہیں کی جارہی ہیں بلکہ بمشکل دوتین قسطیں کرتے ہیں یا بل واپس کردیتے ہیں۔ بجلی کے بل جمع کرانے کی آخری تاریخ سے ایک دو روز قبل آتے ہیں اور پریشان حال شہری بینکوں، یونٹ آفس یا سہولت گھر پی سی او پر جاکے جمع کراتے ہیں اور نہ جمع کرنے پر جرمانہ لگتا ہے اور لیٹ فیس جمع کرانے کے باوجود بل دوبارہ پچھلے مہینے کے لگ کر آجاتے ہیں۔
کے الیکٹرک کے اس ظالمانہ رویہ سے شہری شدید مشتعل ہوتے جارہے ہیں اور علاقوں میں ہونے والے کے الیکٹرک کے خلاف ہر احتجاج میں شریک ہورہے ہیں۔ دوسری جانب کچی آبادیوں میں سلور کوٹڈ تار ڈالے گئے کہ تانبے کے تاروں میں کنڈے زیادہ لگتے تھے۔ تاہم کے الیکٹرک کے اپنے اور بعص ملازمین کی ملی بھگت سے کنڈے لگائے جارہے ہیں۔
شاہ فیصل کالونی الفلاح سے نمبر 5 تک ملیر ندی کے ساتھ کی آبادی ہو یا شہر کی دیگر آبادیاں ہوں۔ عملے کے لوگ خود سیٹنگ کراکے اپنا حصہ وصول کرتے ہیں۔ اور علاقے کے رہنے والے ملازمین خود شامل ہوتے ہیں۔ پی ایم ٹی پر لگے سب میٹر پر بجلی کی سپلائی کے جو یونٹ بنتے ہیں، اس سے بل ادا کرنے والے صارفین پر لوڈ ڈال کر بل بنائے جاتے ہیں۔ ایک گھر میں بجلی کے خرچ کا حساب یکساں نہیں ہوتا اور آجکل بجلی مہنگی ہونے پر علاقوں میں ملازمین خوب پیدا گیری کر رہے ہیں اور بل ادا کرنے والوں کے یونٹ ہر ماہ بڑھتے جارہے ہیں۔شہری کے الیکٹرک کے خلاف سڑکوں پر روزانہ احتجاج کر رہے ہیں۔
کباڑیوں کا کہنا ہے کہ جن دنوں میں بجلی کے بل آتے ہیں لوگ کباڑ کے علاوہ گھریلو اشیا بھی فروخت کرنے زیادہ آرہے ہیں۔ اب لوگ بجلی کے بلوں کی ادائیگی کے مسئلے کو دو وقت کی روٹی سے زیادہ اہمیت دے رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ سفید پوش لوگ بھی بجلی کے بل دینے سے قاصر ہیں اور دکانوں پر استعمال کی اشیا سستے داموں کباڑ کی طرح فروخت کرکے جارہے ہیں کہ بجلی کے بل ادا کرنے ہیں ورنہ بجلی کٹ جائے گی اور پھر زیادہ رقم جمع کراکے بجلی بحال کرانی ہوگی۔