احمد خلیل جازم :
خیرپور سندھ کے علاقے رانی پور میں دس سالہ معصوم بچی فاطمہ کے قتل کے الزام میں گرفتار اسد شاہ اور دیگر ملزمان کے حق میں کچے کے ڈاکو اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ اور انہوں نے پولیس سمیت اس کیس سے جڑے تمام لوگوں اور بچی کے ورثا کو وارننگ دی ہے کہ اگر ان کے پِیروں مرشدوں کو سزا سنائی گئی تو وہ متعلقہ پولیس اہلکاروں اور خاص طور پر ان صحافیوں کو جان سے مار دیں گے جو ان کے پِیروں کے خلاف لکھ رہے ہیں۔
ڈاکوئوں نے باقاعدہ صحافیوں کو ان کے ذاتی سیل فون پر یہ دھمکیاں دی ہیں کہ اگر انہوں نے ہمارے پِیروں کے خلاف لکھنا بند نہ کیا تو وہ نہیں بولیں گے، بلکہ ان کے اب ہتھیار بولیں گے۔ ایک ڈاکو نے تو یہ تک دھمکی دی ہے کہ اب وہ خود پیروں کی حویلی کی حفاظت کریں گے۔
جب کہ دوسری جانب دو تین روز قبل فاطمہ ہلاکت کیس میں پیر اسد شاہ کے مقدمے پر اثر انداز ہونے کی کوششیں بھی تیز کردی گئی ہیں۔ سماعت کے روز اسد شاہ کے ہمدردوں نے ہجوم کو جمع کر کے پولیس کے خلاف نعرے بازی کی اور پولیس کو دھمکیاں بھی دیں۔ پولیس نے نفرت انگیز تقریر اور شر پسندی پر ایک اور مقدمہ درج کر لیا، جس میں تین نامزد اور 40 نامعلوم افراد کوشامل کیا گیا ہے۔ ادھر فاطمہ کے ورثا کی درخواست پر مرکزی ملزم اسد شاہ کی بیوی حنا شاہ کے والد فیاض شاہ کو بھی مقدمے میں نامزد کر دیا گیا ہے۔ کیونکہ مقدمے سے پیچھے ہٹنے کیلئے فیاض شاہ، فاطمہ کے خاندان والوں کو دھمکیاں دے رہا تھا۔ واضح رہے کہ حنا شاہ پہلے ہی اس مقدمے میں نامزد ہے۔
رانی پور سندھ کے علاقے سے مقامی صحافیوں نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ، فاطمہ قتل کیس کے حوالے سے کچے کے بدنام ڈاکو اور قاتل دل جان جتوئی، باگڑ جی نے فاطمہ کے گھر والوں، پولیس اور صحافیوں کو اسد شاہ کے خلاف مقدمے پر جان سے مارنے کی دھمکیاں دی ہیں۔ ڈکیتوں نے واضح طور پرکہا کہ ہم اس حویلی کے پیروں کے مرید ہیں اور ان کے لیے اپنی جان کی پروا نہیں کریں گے۔ بہتر ہے کہ پولیس اور فاطمہ کے ورثا اس کیس سے پیچھے ہٹ جائیں۔ دل جان جتوئی نے ان صحافیوں کو بھی وارننگ دی ہے جو اس کیس کو میڈیا پر اچھال رہے ہیں کہ وہ ان حرکات سے باز رہیں ورنہ وہ ان کے سر کاٹ دیے جائیں گے۔
سوشل میڈیا پر بھی ان ڈکیتوں کی دھمکیوں کی ویڈیوز چل رہی ہیں۔ ان ویڈیوز میں ڈاکوئوں نے ہاتھوں میں جدید ترین اسلحہ اٹھا کر کہا کہ، ہم سات پشتوں سے ان پیروں کے مرید ہیں۔ ہمارے اجداد نے بھی اس حویلی کی حفاظت کی ہے اور ہم بھی اس کی حفاظت کریں گے۔ ہم رانی پور درگاہ کے مرید ہیں اور اس کے خلاف کام کرنے والے کسی بھی شخص کو نہیں چھوڑیں گے۔
اس حوالے سے پولیس ذرائع کا کہنا ہے کہ ان ڈاکوئوں کی گیدڑ بھھکیوں سے وہ اس کیس سے پیچھے نہیں ہٹیں گے اور معصوم فاطمہ کے ورثا کو انصاف دلا کر چھوڑیں گے۔ فی الحال تو فاطمہ کے ورثا بھی اس کیس کی پیروی سے پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں ہیں۔ لیکن یہ غریب لوگ ہیں اور ڈاکوئوں کا مقابلہ نہیں کرسکتے۔ ہوسکتا ہے کہ ان کی دھمکیاں ورثا پر اثرانداز ہوجائیں۔
ایک صحافی نے نام نہ لکھنے کی شرط پر بتایا کہ ’’کچے کے اکثر ڈاکو سندھ کے وڈیروں اور درگاہوں کی آشیرباد سے کارروائیاں کرتے ہیں۔ جب ان ڈاکوئوں پر مشکل وقت ہوتا ہے تو انہیں یہی وڈیرے اور پِیر ہی پناہ دیتے ہیںْ اکثر ڈاکوئوں کی سرپرستی سندھ کی درگاہوں کے مجاور کرتے ہیں۔ رانی پور کے پیِروں کے بھی ڈاکوئوں سے تعلقات کا نکل آنا کوئی نئی بات نہیں ہے۔ یہ بات علاقے میں ہر کسی کو معلوم ہے کہ کچے میں ایسے حویلیاں اور درگاہیں، مفرور ملزمان کی بہترین پناہ گاہیں ہوتی ہیں۔ کیوں کہ پولیس اور قانون نافذ کرنے والے ادارے ادھر کا رخ نہیں کرتے، جس کی اہم وجہ ان گدّیوں کی علاقے میں عزت، شہرت اور سیاسی اثر و رسوخ ہوتا ہے۔
حالیہ کیس بھی دبا دیا گیا تھا، لیکن سوشل میڈیا پر اس کی تشہیر نے پولیس پر دبائو ڈالا اور یوں مجبوراً پولیس کو یہ گرفتاریاں کرنا پڑیں۔ اب بھی اس کیس کے بعض حقائق کو مسخ کیا گیا ہے۔ خاص طور پر فاطمہ سے گئی زیادتی کو قانونی طور پر بہت کم ہائی لائٹ کیا گیا ہے۔ صرف ابتدائی پوسٹ مارٹم رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ زیادتی کے شواہد ملے ہیں۔ اس کے بعد پولیس بھی اس معاملے پر خاموش ہے۔ جب کہ اسد شاہ کی حویلی سے پولیس نے جو سی سی ٹی وی ٹیپ فرانزک کے لیے بھجوائے ہیں، ان کا رزلٹ بھی بہت اہمیت کا حامل ہے۔
اس کیس میں ابھی مزید گرفتاریاں بھی متوقع ہیں۔ خاص طور پر اسد شاہ کی بیوی حنا شاہ، جس کی عدالت سے ضمانت ختم ہوچکی ہے اور وہ مفرو ر ہے۔ اس کی گرفتاری کے لیے پولیس چھاپے مار رہی ہے۔ لیکن ملزمہ ابھی تک پولیس کی حراست میں نہیں آسکی۔ رانی پور کا یہ پیر خانہ بہت معروف ہے اور یہاں ان پیروں کا بہت زیادہ ہولڈ ہے۔ حنا شاہ کو گرفتار کرنا اتنا آسان نہیں ہے۔
اول تو اس علاقے میں کوئی اس کی مخبری کرنے کی جرات نہیں کرے گا۔ کیوں کہ لوگوں کا ان پر یقین بہت کامل ہے۔ دوسری جانب یہ دولت مند پیر اتنے طاقتور ہیں کہ ان کے پولیس اور انتظامیہ میں اپنے لوگ شامل ہیں جو انہیں پولیس کی تمام کارروائیوں کی اطلاع پہلے ہی پہنچا دیتے ہیں۔ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ حنا شاہ ملک سے باہر جانے کی غرض سے علاقے سے فرار ہوچکی ہے۔‘‘