احمد خلیل جازم :
گزشتہ روز عمران خان کے وکیل لطیف کھوسہ نے کہا کہ ان کی جیل میں عمران خان سے ملاقات ہوئی۔ لیکن انہیں تنہائی میں نہیں ملنے دیا گیا۔ بلکہ جیل کا ایک اہلکار مستقل موجود رہا۔
اس حوالے سے ڈسٹرکٹ جیل اٹک کے ذرائع کا کہنا ہے کہ لطیف کھوسہ سمیت دیگر لوگ جتنی باتیں عمران خان کے حوالے سے باہر پھیلا رہے ہیں۔ وہ تمام جھوٹ پر مبنی ہیں۔ جیل میں عمران خان کے ساتھ کوئی نا روا سلوک نہیں ہو رہا۔ انہیں جیل میں وہ تمام سہولیات میسر ہیں جو ان کا قانونی حق ہے۔ اب جیل حکام قانون سے ہٹ کر عمران خان کے ساتھ کوئی اسپیشل سلوک نہیں کر سکتے۔
تحریک انصاف والے چاہتے ہیں کہ عمران خان جیل میں بھی وزیر اعظم بن کر رہیں تو یہ ممکن نہیں۔ صرف ہمدردی سمیٹنے کے لیے یہ کہہ دینا کہ انہیں جیل میں کھانا اچھا نہیں مل رہا یا پھر ان کا کمرہ اچھا نہیں ہے۔ یہ سب باتیں غلط ہیں۔ البتہ جیل سے انہیں خطاب کا موقع نہیں دیا جا سکتا کہ ایسا جیل قوانین کے خلاف ہے۔
پی ٹی آئی کے سزا یافتہ سربراہ عمران خان کے حوالے سے ڈسٹرکٹ جیل اٹک کے ذرائع نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ، عمران خان کے وکلا جیل میں عمران خان سے ملاقات کرتے ہیں اور ان کی ملاقات الگ کمرے میں کرائی جاتی ہے۔ عمران خان کی سیکورٹی پر ایک ڈی ایس پی مامور ہے، جو اس ملاقات میں موجود ضرور تھا۔ لیکن وہ عمران خان کو کمرے میں بٹھا کر خود کمرے سے باہر کھڑا رہا۔ کھوسہ صاحب کی کوشش تھی کہ وہ باہر بھی نہ ٹھہرے، لیکن یہ اس کی ڈیوٹی ہے کہ وہ باہر رہے۔ جیل میں ہر جگہ پر سی سی ٹی وی کیمرے لگے ہوئے ہیں۔ حتیٰ کہ سپرنٹنڈنٹ جیل کا کمرہ بھی ان کیمروں کی زد میں ہوتا ہے، ایسا کمرہ یا ملاقات کی کوئی اور جگہ نہیں ہے، جہاں پر کیمروں سے ہٹ کر ملاقات کرائی جائے۔
عمران خان کی بیگم صاحبہ کا یہ کہنا کہ انہیں جیل میں سہولیات نہیں دی جا رہیں، تو انہیں پہلے جیل کے قوانین پڑھنے چاہئیں۔ بلکہ انہوں نے تو ضرور یہ پڑھ رکھے ہوں گے۔ کیوں کہ ان کے دور حکومت میں سابق وزیر اعظم اور سابق وزرا کو جیلوں کی ہوا کھانا پڑی تھی۔ اس وقت انہیں سب کچھ بتایا جاتا تھا کہ جیل میں کیا کیا سہولیات دی جا سکتی ہیں۔ اب یہ تو نہیں ہو سکتا ہے کہ عمران خان جیل میں وزیر اعظم کا پروٹوکول لیں یا انہیں جیل سے خطاب کا موقع دیا جائے۔ جیل میں آکر ہر کسی کا وزن کم ہوتا ہے۔ یہ اس لیے ہوتا ہے کہ جیل میں آنا ہی پریشانی کا سبب ہے۔ ڈپریشن اور پریشانی ہر قیدی کا وزن کم کر دیتی ہے۔
عمران خان کے ساتھ کوئی نیا کام نہیں ہوا۔ انہیں کھانا صاف ستھرا اور جیل مینوئل کے مطابق دیا جارہا ہے۔ ان کے لیے الگ سے باورچی مختص ہے اور ان کا کھانا پہلے جیل کا ڈی ایس پی کھاتا ہے۔ پھر عمران خان کو پیش کیا جاتا ہے۔ یہی باورچی ان کے تمام امور دیکھتا ہے۔ بیرک اب تبدیل کر دی گئی ہے اور عمران کو واک کی اجازت بھی دے دی گئی ہے۔ سی سی ٹی وی کیمرہ ڈیوڑھی میں لگا ہوا ہے۔ لیکن اندر سیلز میں کیمرے نہیں ہے۔ عمران خان کے سیل کے باہر جو کیمرہ ہے۔ وہ سیل کے اندر تک رسائی رکھتا ہے اور یہ کیمرہ خصوصی طور پر عمران خان کے لیے نہیں ہے۔ بلکہ ہر قیدی کے لیے پہلے سے ہی نصب کیا گیا ہے۔ ان کا باتھ روم بھی الگ کر دیا گیا ہے۔ جہاں انگلش کموڈ لگایا گیا ہے۔
ان کے باتھ روم میں شیمپو، ٹوتھ پیسٹ، برش، صابن اور دیگر ضروریات کا تمام سامان رکھ دیا گیا ہے۔ شیونگ کٹ بھی دے دی گئی ہے۔ لیکن عمران خان ابھی شیو نہیں کر رہے ہیں۔ انہیں جو کتاب چاہیے ہوتی ہے۔ وہ بھی مہیا کر دی جاتی ہے۔ عمران خان کی اہلیہ کا یہ کہنا کہ جیل میں ان کی زندگی کو خطرہ ہے تو یہ بات بالکل بے بنیاد ہے۔ بلکہ جیل میں صرف یہ واحد قیدی ہے۔ جس کی زندگی کی حفاظت کے لیے محکمہ جیل خانہ جات پنجاب زیادہ بجٹ صرف کر رہا ہے۔ انہیں دن میں کئی بار ڈاکٹر چیک کرنے آتے ہیں۔ ان کا بلڈ پریشر اور شوگر وغیرہ روٹین سے چیک ہوتی ہے۔
جیل میں کسی وقت بھی کسی عدالت کا جج وزٹ کر سکتا ہے۔ اس لیے یہ ممکن نہیں ہے کہ عمران خان تو کجا کسی بھی قیدی کے ساتھ امتیازی سلوک کیا جا سکے۔ کچھ عرصہ قبل اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے اڈیالہ جیل کے سرپرائز وزٹ کیے تھے۔ یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ جو جج چاہے آکر وزٹ کرکے دیکھ سکتا ہے کہ عمران خان کی زندگی کس قدر محفوظ ہے۔ اس لیے بلاجواز پروپیگنڈا بند ہونا چاہیے۔