نمائندہ امت :
بجلی کے بھاری بلوں کے خلاف ملک کے دیگر حصوں کی طرح پشاور میں بھی اشتعال بڑھتا جارہا ہے اور شہریوں نے میٹر ریڈرز کا مختلف علاقوں میں داخلہ بند کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ساتھ ہی بل جمع نہ کرانے کے اعلانات بھی کئے جارہے ہیں اور کنکشن کاٹنے والی ٹیموں کی بھی انٹری بند کی جا رہی ہے۔
شہریوں کا کہنا ہے کہ جب تک بجلی کے بلوں میں ریلیف نہیں ملتا اور ٹیکسوں کا خاتمہ نہیں کیا جاتا کسی بھی میٹر ریڈر کو علاقے میں داخل نہیں ہونے دیا جائے گا اور نہ ہی بجلی کا میٹر اتارنے کی اجازت دی جائے گی۔ جبکہ پیر کے روز بھی شہر کے مختلف علاقوں میں زبردست احتجاجی مظاہرے کئے گئے، جس میں حکومت اور واپڈا کے خلاف شدید نعرہ بازی کی گئی۔ جس پر واپڈا ملازمین دفاتر تک محدود ہو کر رہ گئے۔ دفاتر کی سیکورٹی مزید سخت کر دی گئی ہے۔
’’امت‘‘ کو دستیاب معلومات کے مطابق ملک بھر سمیت صوبائی دارالحکومت پشاور میں بھی بجلی کے کمر توڑ بلوں کے خلاف عوام میں شدید اشتعال پایا جارہا ہے اور سوشل میڈیا سمیت دیگر ذرائع سے عوام تک حکومت اور واپڈا کی زیادتیاں پہنچنے کے بعد شہری مزید مشتعل ہو گئے ہیں۔ میڈیا سے واپڈا افسران اور ملازمین کو فراہم کئے جانے والے مفت یونٹس کا معلوم ہونے پر لوگ شدید غصے میں ہیں کہ سارا بوجھ غریب عوام پر ڈالا جارہا ہے اور خود ملازمین سے لیکر افسران تک سبھی عیش کی زندگی بسر کر رہے ہیں، جنہیں ہزاروں مفت یونٹس میسر ہیں اور غریب عوام کو بلوں نے تباہ و برباد کر کے رکھ دیا ہے۔
پشاور میں اندرون شہر سے تعلق رکھنے والے شہری مختلف مقامات پر کارنر میٹنگز منعقد کر رہے ہیں جس میں فیصلہ کیا گیا ہے کہ کسی بھی میٹر ریڈر کو علاقے میں داخل ہونے نہیں دیا جائے گا اور جب تک انہیں بجلی کے بلوں میں ریلیف نہیں ملتا وہ بل جمع نہیں کرائیں گے اور نہ ہی کسی کو میٹر ریڈنگ کرنے دی جائے گی۔
اسی طرح واپڈا اہلکاروں کو بجلی کے کنکشن کاٹنے بھی نہیں دیئے جائیں گے، کیونکہ حکومت اور واپڈا کی جانب سے عوام پر ظلم کے پہاڑ توڑے جارہے ہیں۔ ایسی صورتحال میں کسی بھی غریب کو تنہا نہیں چھوڑا جائے گا اور پورا محلہ اور علاقہ اس شخص کے ساتھ کھڑا ہو گا۔ اگر کسی کے ساتھ زور زبردستی کی گئی تو اس پر بھی مزاحمت کی جائے گی۔ جبکہ دوسری جانب ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ عوام میں بڑھتے ہوئے اشتعال کے بعد پشاورمیں واپڈا کے افسران و ملازمین نے جہاں سیکورٹی مانگی ہے وہیں میٹر ریڈرز کے لئے بھی صورتحال پریشان کن ہو گئی ہے اور جس طرح پولیو ورکرز کے ساتھ پولیس اہلکار گھر گھر جا کر بچوں کو پولیو سے بچاؤ کے قطرے پلاتے ہیں قوی امکان ہے کہ میٹر ریڈرز کے ساتھ بھی پولیس اہلکاروں کو تعینات کر دیا جائے گا۔
شہری علاقے سے تعلق رکھنے والے ایک میٹر ریڈر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ’’امت‘‘ کو بتایا کہ ان کا تعلق متوسط خاندان سے ہے اور وہ بھی محنت کر کے اپنے بچوں کا پیٹ پال رہے ہیں۔ ان کی ڈیوٹی یہ ہے کہ مہینے میں ایک بار جو علاقہ ان کیلئے مختص ہے وہاں جاکر میٹرز کی ریڈنگ چیک کرے۔ تاہم اب انہیں بھی سیکیورٹی خدشات کا سامنا ہو سکتا ہے، اس لئے حکومت اور پولیس حکام سے مطالبہ ہے کہ میٹر ریڈرز کی سیکورٹی کے لئے بھی اقدامات کئے جائیں۔
پیر کے روز صوبے کے دیگر اضلاع کی طرح پشاور کے مختلف علاقوں میں بجلی بلوں، واپڈا اور حکومت کے خلاف احتجاجی مظاہرے کئے گئے۔ واضح رہے کہ شہر بھر کے ہر گلی کوچے میں اس وقت مختلف بینرز آویزاں ہیں جن پر حکومت کی جانب سے عوام پر مہنگائی کے پہاڑ گرانے سمیت بجلی کے بلوں میں اضافے کے خلاف احتجاج کی کال دی گئی ہے اور روزانہ کی بنیاد پر احتجاجی مظاہرے کئے جارہے ہیں، جس میں بڑے پیمانے پر شہری، تاجر برادری اور مختلف سیاسی و سماجی شخصیات شرکت کر رہی ہیں اور اپنے لوگ بھر پور غم و غصے کا اظہار کر رہے ہیں۔
اندرون شہر ہشت نگری کے علاقے میں پیر کے روز بڑا احتجاجی مظاہرہ کیاگیا جس کی قیادت سماجی شخصیت ملک بہادر خان نے کی۔ مظاہرے میں لاہوری گیٹ، ہشت نگری گیٹ، سکندر پورہ، محلہ ملاں مجید، کوچہ فقیراں، حسینیہ اسٹریٹ سمیت مختلف علاقوں کے عوام نے بڑے پیمانے پر شرکت کی اور اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا۔
مقررین کا خطاب کرتے ہوئے کہنا تھا کہ کسی صورت بجلی کے اضافی بل جمع نہیں کرائیں گے، کیونکہ گھروں میں کھانے کے لئے دو وقت کی روٹی بھی حکومت کی وجہ سے میسر نہیں ہے اور اوپر سے بجلی آئے روز مہنگی کی جارہی ہے۔ پہلے پی ڈی ایم حکومت نے بجلی مہنگی دی اور اب نگران حکومت نے پچھلی حکومت کے نقش قدم پر چلتے ہوئے آتے ساتھ ہی بجلی مزید مہنگی کر دی۔ اگر اب بھی سڑکوں پر نہ نکلے تو یہ حکمران ہمیں زندہ درگور کر دیں گے۔