امت رپورٹ:
کوئی حکومت آج تک مفت بجلی کا سلسلہ بند کرانے کی جرات نہیں کرسکی ہے۔ حالانکہ ایوانوں میں اس پر آواز اٹھائی جاتی رہی ہے۔ تاہم ہر حکمراں ان سرکاری ملازمین کے ردعمل سے خوفزدہ رہا اور اس نے چپ سادھ لینے میں عافیت جانی۔ موجودہ نگراں کابینہ کے حوالے سے بھی اس طرح خبریں چلی تھیں کہ مفت بجلی کی فراہمی کی جگہ ان سرکاری ملازمین کو پیسے دیدیے جائیں گے، لیکن اب تک اس معاملے پر خاموشی ہے۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ سرکاری ملازمین کو ماہانہ بجلی کے 34 ہزار یونٹس مفت فراہمی کی جو خبریں چل رہی ہیں، اس میں اعلیٰ ترین عہدوں پر بیٹھی شخصیات کے یونٹس شامل نہیں۔ ان یونٹس کو بھی شامل کرلیا جائے تو یہ تعداد کہیں زیادہ بنتی ہے۔
واضح رہے کہ پچھلے چند دنوں سے الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا پر سرکاری ملازمین کو 8 ارب روپے مالیت کی بجلی مفت دینے کی خبریں چل رہی ہیں۔ اسے ایک انکشاف کے طور پر پیش کیا جارہا ہے۔ حالانکہ یہ وہی تفصیلات ہیں جو تین ماہ پہلے وزارت توانائی کی دستاویزات کا حوالہ دے کر میڈیا میں شائع ہوئی تھیں۔ سرکاری ملازمین کو مفت فراہم کئے جانے والے بجلی یونٹس اور ان کی مالیت سے متعلق اعداد و شمار میں بھی فرق دیکھنے میں آیا۔ کسی نے 8 ارب روپے بتائے اور کسی رپورٹ میں یہ رقم 13 ارب روپے سالانہ سے زائد بیان کی گئی ہے۔
قریباً تین ماہ قبل وزارت توانائی کی دستاویزات کا حوالہ دیتے ہوئے بعض میڈیا رپورٹس میں کہا گیا تھا کہ ملک بھر میں مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے ایک لاکھ نواسی ہزار سرکاری ملازمین کے گھرانے سالانہ 34 کروڑ یونٹ بجلی مفت استعمال کرتے ہیں جس سے قومی خزانے کو سالانہ 8 ارب روپے کا نقصان ہو رہا ہے۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ سالانہ اربوں روپے کا یہ خسارہ ان ستم ظریف عام صارفین سے مہنگے بلز کی شکل میں پورا کیا جارہا ہے جو ’’مفت خوروں‘‘ کی کیٹیگری میں نہیں آتے۔ یہی ان کا سب سے بڑا ’’گناہ‘‘ ہے۔
وزارت توانائی کی دستاویز میں مزید کہا گیا تھا کہ آنے والے برسوں میں مفت بجلی کے اخراجات میں نمایاں اضافہ متوقع ہے، جو اگلے برس سے سالانہ ساڑھے گیارہ ارب روپے تک پہنچ سکتے ہیں۔ گذشتہ برس قومی اسمبلی میں واٹر اینڈ پاور ڈویلپمنٹ اتھارٹی (واپڈا) اور بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کے ریٹائرڈ اور حاضر سروس ملازمین کو فراہم کی جانے والی مفت بجلی کی تفصیلات پیش کی گئی تھیں۔ مفت بجلی فراہمی سے متعلق ایک برس پہلے کے یہ اعداد و شمار چونکہ سرکاری طور پر بیان کئے گئے اس لئے مصدقہ قرار دیئے جاسکتے ہیں۔ اس کے بعد سے ساری خبریں ذرائع کے حوالے سے ہیں۔
ایک برس پہلے اگست دو ہزار بائیسں میں اس وقت کے وفاقی وزیر برائے بجلی خرم دستگیر نے اپنے تحریری جواب میں بتایا تھا کہ واپڈا اور بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کے گریڈ ایک سے چار تک کے حاضر سروس ملازمین کے لیے ماہانہ 100 یونٹ مفت، جبکہ ریٹائرڈ ملازمین کے لیے 50 یونٹ مختص ہیں۔ اسی طر ح گریڈ پانچ سے دس تک کے حاضر سروس ملازمین کو 150 یونٹ اور ریٹائرڈ ملازمین کو 75 یونٹس ملتے ہیں۔
جبکہ گریڈ گیارہ سے پندرہ تک کے حاضر سروس ملازمین کو دو سو یونٹ اور اسی گریڈ کے ریٹائرڈ ملازمین کو 100 یونٹ ملتے ہیں۔ مزید یہ کہ گریڈ سولہ کے افسروں کو 300 یونٹ، گریڈ17 کو 450 یونٹ اور گریڈ اٹھارہ کے افسروں کو 600 یونٹ فراہم کیے جاتے ہیں۔ سب سے زیادہ موجیں اس سے اوپر کے افسروں کی ہیں۔ مثلاً گریڈ انیس کے حاضر سروس ملازمین کو 880 یونٹس، گریڈ بیس کو 1,110 یونٹس، گریڈ اکیس اور بائیس کو 1,300 یونٹ ماہانہ فراہم کیے جاتے ہیں۔ اندازہ لگائیں کہ اپنی خون پسینے کی کمائی سے بلز ادا کرنے والے متوسط طبقے کے چار سے پانچ گھرانے ماہانہ اتنی بجلی استعمال کرتے ہیں ، جو موخر الذکر کیٹگری میں آنے والے افسروں کے گھرانے تنہا اور وہ بھی مفت میں استعمال کر رہے ہیں۔
واپڈا اور بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کے سرکاری ملازمین کے علاوہ اعلی عدالتوں کے جج صاحبان سمیت اہم ترین عہدوں پر بیٹھی دیگر اہم شخصیات بھی اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھو رہی ہیں۔ معروف صحافی انصار عباسی نے اپنے ولاگ میں بتایا ہے کہ وزیراعظم، صدر مملکت، سپریم کورٹ اور ہائیکورٹس کے ججز، چیرمین نیب اور گورنر اسٹیٹ بینک سمیت دیگر اعلیٰ سرکاری عہدوں پر فائز افسران ماہانہ دو ہزار سے آٹھ سو یونٹس تک بجلی مفت حاصل کر رہے ہیں۔ ان میں صدر، وزیر اعظم اور گورنر اسٹیٹ بینک کو ماہانہ لامحدود بجلی یونٹس مفت استعمال کرنے کی اجازت ہے۔
صدر مملکت اپنے عہدے پر رہتے ہوئے پانچ سال کے دوران لامحدود بجلی یونٹس استعمال کرسکتے ہیں۔ یعنی اگر وہ ایک لاکھ یونٹس ماہانہ بھی استعمال کریں تو کوئی انہیں نہیں پوچھے گا۔ ریٹائرمنٹ کے بعد بھی صدر کو ماہانہ دوہزار یونٹس مفت ملتے رہتے ہیں۔ سابق صدر اگر انتقال کرجائے تو اس کی بیوہ کو یہ دوہزار ماہانہ یونٹس مفت ملتے رہیں گے۔
اسی طرح وزیراعظم بھی ماہانہ لامحدود بجلی استعمال کرسکتا ہے۔ تاہم وزارت عظمیٰ سے فارغ ہونے کے بعد اس سے یہ رعایت واپس لے لی جاتی ہے۔ گورنر اسٹیٹ بینک کو بھی لامحدود بجلی یونٹس استعمال کرنے کی اجازت ہے۔ جبکہ چیئرمین نیب کو ماہانہ دوہزار یونٹ فری ملتے ہیں۔
سپریم کورٹ کے چیف جسٹس اور دیگر جج صاحبان کو ماہانہ دو ہزار یونٹ مفت ملتے ہیں۔ ریٹائرمنٹ کے بعد بھی وہ یہ دو ہزار یونٹ مفت استعمال کرتے رہتے ہیں۔ یعنی اس وقت ملک میں سپریم کورٹ کے جتنے سابق چیف جسٹسز اور جج صاحبان ہیں وہ ماہانہ دو ہزار یونٹس مفت حاصل کر رہے ہیں۔ اس کے مقابلے میں ہائی کورٹس کے چیف جسٹس اور دیگر جج صاحبان کو 800 یونٹ ماہانہ مفت ملتے ہیں۔ اتنے ہی یونٹ انہیں ریٹائرمنٹ کے بعد بھی مفت استعمال کرنے کی اجازت ہوتی ہے۔ جبکہ وزرا کو تمام یوٹیلٹی بلز کے استعمال کے لئے صرف 22 ہزار روپے الائونس کے طور پر دیدیئے جاتے ہیں۔ ارکان قومی اسمبلی کو یہ سہولت بھی حاصل نہیں۔
گزشتہ کئی حکومتوں کے دوران اس مراعات یافتہ طبقے اور واپڈا کے سرکاری ملازمین کو مفت بجلی کی فراہمی کے خلاف اگرچہ آوازیں اٹھتی رہی ہیں، لیکن نتیجہ کچھ برآمد نہیں ہوسکا۔ پانچ ماہ قبل پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے تمام سرکاری افسران اور ملازمین کو مفت بجلی کی سہولت ختم کرنے کی سفارش کی تھی۔ چیئرمین پی اے سی نور عالم خان نے کہا تھا کہ ’’ہم آئی ایم ایف کے سامنے ترلے کر رہے ہیں، مفت خوری ختم کرنا ہوگی۔‘‘ اس معاملے پر انہوں نے وزیراعظم کو خط لکھنے کا اعلان بھی کیا تھا۔ تاہم ان کی خواہش دل میں رہ گئی اور اب اسمبلی تحلیل ہوچکی ہے۔ نور عالم خان کا کہنا تھا کہ اگر یہ سلسلہ روک دیا جائے تو قومی خزانے کو سالانہ 9 ارب روپے کی بچت ہوگی۔
اتحادی حکومت کے آخری مہینوں میں وفاقی وزیر بجلی و توانائی خرم دستگیر نے یہ کہہ کر ہاتھ کھڑے کردیے تھے کہ ان کی وزارت اگرچہ سرکاری پاور سیکٹر کے اداروں کے ملازمین سے مفت بجلی یونٹس جیسے فوائد واپس لینے کے لیے جدوجہد کر رہی ہے تاہم ملازمین کا سخت ردعمل اس میں رکاوٹ ہے ۔ وہ قومی اسمبلی میں پیپلز پارٹی کی ایم این اے نصیبہ چنہ کے سوال کا جواب دے رہے تھے جنہوں نے واپڈا کے ریٹائرڈ ملازمین کو مفت بجلی کی فراہمی پر سوال اٹھایا تھا۔
خرم دستگیر کے بقول جب وزارت نے ایسا کرنے کی کوشش کی تو ملازمین کی طرف سے سخت ردعمل آیا۔ملازمین کی اس مزاحمت کے بارے میں ذرائع کا کہنا ہے کہ ہر حکومت کو اس معاملے میں اسی صورتحال کا سامنا رہا ہے۔ جب بھی مفت بجلی کی فراہمی روکنے کی ابتدا سرکاری ملازمین سے کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تو وہ احتجاج پر اتر آتے ہیں۔ اگر کوئی حکومت ردعمل کی پرواہ نہ کرتے ہوئے ان سے یہ مراعات واپس لے لیتی ہے تو وہ یقیناً عدالت جائیں گے جہاں سے انہیں فوری ’’انصاف‘‘ ملنا بعید از قیاس نہیں ۔ کیونکہ جب ججز خود ہزاروں یونٹ بجلی مفت حاصل کررہے ہیں تو واپڈا ملازمین کے اس "حق” کے خلاف فیصلہ کیسے دے سکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہر حکومت اس معاملے پر چپ سادھ لیتی ہے۔
خرم دستگیر نے بھی یہ کہہ کر جان چھڑا لی تھی کہ بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کے ملازمین کو مفت بجلی کی فراہمی ان کے ملازمت کے معاہدے کے مطابق ہے، ان کی تنخواہ کے پیکج میں یہ شامل ہے لہذا وہ اس سہولت کے حقدار ہیں۔
قریباً چار برس پہلے ایوان بالا سینیٹ میں بھی مفت بجلی کی فراہمی بند کرنے کا مطالبہ بڑی شدت سے گونجا تھا جب یہ چونکا دینے والا انکشاف ہوا تھا کہ اربوں روپے کی بجلی مفت استعمال کرنے والوں نے اپنے مختص شدہ کوٹے سے بھی تیرہ کروڑ ساٹھ لاکھ یونٹس اضافی استعمال کر ڈالے۔ تب سرکاری ملازمین کی تعداد اور ان کو مفت ملنے والی بجلی کے یونٹس کے اعداد و شمار آج رپورٹ ہونے والی تفصیلا ت سے مختلف تھے۔
سینیٹر فدا محمد کی سربراہی میں کام کرنے والی سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے بجلی کوجنوری دو ہزار بیس میں بتایا گیا تھا کہ واپڈا، تقسیم کار کمپنیوں اور جنریشن کمپنیوں کے 198,222 ملازمین کو تقریباً 39 کروڑ دس لاکھ بجلی کے یونٹ مفت فراہم کیے گئے۔ مالی سال 19- 2018 کے دوران پاور ڈویڑن کے حکام نے رپورٹ کیا کہ ان مفت یونٹوں کی مجموعی لاگت کا تخمینہ اس وقت5 ارب 26کروڑ روپے تھا( جب ڈالر آج کے مقابلے میں نصف قیمت کے برابر تھا جبکہ یونٹ کی قیمت بھی کم تھی۔ یوں آج کے لحاظ سے یہ رقم دگنی بنتی ہے )
اجلاس کو بتایا گیا تھا کہ مجموعی طور پر 198,222 عملے میں سے 16,591 افسران ہیں۔ مالی سال19- 2018 کے دوران ان افسران نے ایک ارب تین کروڑ بیاسی لاکھ روپے کے 8 کروڑ یونٹ استعمال کیے۔ جبکہ نچلے درجے کے افسران نے تین ارب اٹھاسی کروڑ روپے کے 30 کروڑ گیارہ لاکھ یونٹ استعمال کئے۔ اجلاس کو بتایا گیا تھاکہ 198,222 کی مجموعی تعداد میں تقریباً 150,000 حاضر سروس ملازمین اور 48,000 ریٹائرڈ ملازمین شامل تھے۔ تاہم ریٹائرڈ ملازمین کو حاضر سروس ملازمین کے مقابلے میں نصف کوٹہ ملتا ہے۔ یعنی گریڈ اکیس اور بائیس کے حاضر سروس افسر کو ماہانہ 1300 یونٹس مفت ملتے ہیں تو اس ہی گریڈ کے ریٹائرڈ افسران کو ساڑھے چھ سو یونٹس مل رہے ہیں۔ تقسیم کار کمپنیوں کے مقابلے میں جنریشن کمپنیوں یعنی بجلی پیدا کرنے والی کمپنیوں کے ملازمین کی تو پانچوں انگلیاں گھی میں ہیں ۔ انہیں دگنا کوٹہ ملتا ہے ۔
ایک ماہ پہلے پاکستان بزنس فورم نے وفاقی حکومت پر زور دیا تھا کہ وہ بجلی کی تمام تقسیم کار کمپنیوں کے عملے سمیت دیگر سرکاری افسران کو مفت یا رعایتی بجلی کی سہولت بند کرے۔ اس اقدام سے قومی خزانے کو سالانہ دس ارب روپے کی بچت ہوگی۔ پاکستان بزنس فورم کے چیف آرگنائزر اور نائب صدر چوہدری احمد جواد نے کہا تھا کہ ان لوگوں کے دن گئے جو شاہی خاندان کی طرح زندگی گزار رہے ہیں۔ اگر پارلیمنٹیرین، تاجر اور عوام اپنی جیب سے بجلی کے بل ادا کرتے ہیں تو معاشرے کا خاص طبقہ مفت کی سہولت سے کیوں لطف اندوز ہورہا ہے، جب ملک پہلے ہی معاشی بحران کا شکار ہے۔
اس موقع پر پاکستان بزنس فورم کی نائب صدر جہاں آرا وٹو نے کہا کہ بجلی کے نرخوں میں مسلسل اضافے کے بعد صنعتی پیداوار کی لاگت میں بڑے پیمانے پر اضافہ ہوا ہے جس سے مہنگائی ہوئی ہے اور ملک کے غریب عوام کو نقصان پہنچا ہے۔ جبکہ بجلی کے بلوں کے ٹیرف میں بھاری اضافے کے بعد کاروبار اور صنعتوں کو چلانا مشکل ہو گیا ہے۔ فورم کے ایک اور عہدے دار احمد جواد نے کہا تھا ’’ٹیرف کی اس بلند قیمت میں کاروبار کیسے زندہ رہیں گے۔ سرکلر ڈیٹ پر قابو پانے کے لیے ٹیرف میں اضافہ کرنا ایک سادہ سا فارمولا ہے لیکن آپ لائن لاسز کو کم کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔‘‘